اطاعتِ رسولؐ کے بغیر ایمان معتبر نہیں

اللہ رب العزت نے انسان کو تخلیق فرمایا تو اپنی حکمتِ بالغہ سے اس کی فطرت کے طاق میں خواہشات کا چراغ بھی رکھ دیا۔ یہ خواہشات یوں تو ان گنت ہیں لیکن ان میں حُبِّ آل، حُبِّ مال اور حُبِّ جاہ بڑی قوی اور منہ زور ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی ذات سراپا خیر ہے۔ اس کا کوئی کام حکمت اور انسانوں کی مصلحت کے بغیر نہیں ہوتا۔ فطرتِ انسانی کے ساتھ ان خواہشات کو لگانے کا مقصد یہ تھا کہ انسان ان کی تسکین کی جدوجہد کے ذریعے تعمیرِ ذات یعنی قوائے شخصی کی تربیت و نشوونما اور تسخیرِ کائنات کے عمل کو پایۂ تکمیل تک پہنچائے، اور یوں اللہ پاک کی رضا کے تابع رہ کر زندگی کی راحتوں اور امن و سکون کی نعمتوں سے ہمکنار ہوسکے۔ لیکن شیطانِ لعین نے انسان کی اسی متاعِ گراں بہا کو اپنی ترکتازیوں (حملوں) کا ہدف بنا کر انسان کو ذلت و ضلالت کی وادیوں میں بھٹکنے اور یاس اور نامرادی کی راہ پر لگا دیا۔ اس نے اللہ تعالیٰ کے سامنے کھڑے ہوکر اس بات کا اعلان کردیا کہ وہ اس کی تخلیق کے شاہکار انسان کو خواہشات کے سبز باغ دکھاکر اور مرغوباتِ نفس کا اسیر بنا کر اللہ کا نافرمان بنائے گا۔
اللہ تعالیٰ نے انسان کو شیطان مردود کے شر اور دجل و فریب سے بچانے کے لیے ابتدائے آفرینش سے ہی اس کی ہدایت و رہنمائی کا اہتمام فرمایا، اور آسمانی کتابوں اور انبیاء علیہم السلام کی بعثت کے ذریعے انسان کو نجات کی راہ دکھادی۔ اس سلسلۂ ہدایت کی تکمیل حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر ہوئی، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی کامل اطاعت کو رضائے الٰہی کے حصول کا واحد اور یقینی لازمہ قرار دیا۔ آل، مال اور جاہ و اقتدار جیسی منہ زور خواہشات کو بے لگام چھوڑ دینے اور انہیں شیطان کی دسیسہ کاریوں کے لیے کھلی چراگاہ بنا دینے سے تاریخِ انسانی میں فتنہ و فساد کی جو آگ بھڑکی ہے اور انسانی خون کی ارزانی سے زمین کا سینہ رنگین ہوا ہے اس کو ختم کرنے اور نوع انسانی کو جان، مال اور عزت و آبرو کے تحفظ سے بہرہ ور کرنے کا صحیح اور یقینی طریقہ یہی ہے کہ انسان اپنی خواہشات کی باگیں شیطانِ لعین کے ہاتھ میں دینے کے بجائے حضور صلی اللہ علیہ وسلم جو اللہ کے مجاز نمائندے اور اس کی منشا کے حقیقی ترجمان ہیں، کی لائی ہوئی ہدایتِ کامل یعنی قرآن پاک کے تابع کردے، اور زندگی کے ہر چھوٹے بڑے معاملے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم اور فیصلے کو بہ تمام و کمال پورے شرحِ صدر کے ساتھ قبول کرے، اور اس بارے میں کسی استثنا اور عذر کو ملحوظِ خاطر نہ لائے۔ اللہ تعالیٰ کو اسی نوعیت کی اطاعتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم مطلوب ہے، اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان کا مطلب و منشا بھی یہی ہے۔ اس سے کمتر چیز اللہ کی نگاہ اور میزان میں کوئی وزن نہیں رکھتی۔ قرآن پاک میں بھی اللہ رب العزت نے اسی بات کو ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے:
(ترجمہ) ’’پس نہیں، تیرے رب کی قسم وہ مومن نہیں ہیں جب تک کہ ان تمام معاملات میں جو اُن کے درمیان پیدا ہوں، وہ تم کو حکم نہ بنائیں اور پھر تمہارے فیصلے سے اپنے دلوں کے اندر کوئی تنگی بھی محسوس نہ کریں، اور وہ پورے طور پر اپنے آپ کو تمہارے تابع نہ کردیں۔‘‘ (سورۃ النساء۔ 65)
افسوس کہ آج صورتِ حال بہت مختلف ہوگئی ہے۔ ہماری اکثریت نے شیطان کی اکساہٹوں سے اپنی خواہشاتِ نفس کو اپنا معبود بنا رکھا ہے۔ رسومات اور دیگر معاملاتِ زندگی میں ہماری پسند اور ناپسند کا معیار اپنی خواہشات اور مفادات ہی بن کر رہ گئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہماری انفرادی و اجتماعی زندگی کی کل بگڑ گئی ہے اورامن و سکون اور تحفظِ جان و مال کے بجائے فتنہ و فساد اور ہر وقت کا ذہنی تناؤ اور بے چینی و بے کلی ہمارا مقدر بن کر رہ گئی ہے۔
اللہ تعالیٰ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات پر صحیح ایمان نصیب فرمائے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی کامل اطاعت کو ہمارا وظیفہ حیات بنا دے۔ (آمین)
nn