ماہرین کا کہنا ہے کہ مستقبل قریب میں ہمارا لباس آج سے یکسر مختلف ہوگا۔ آنے والے دنوں میں ہمارے لباس مختلف رنگوں، انداز اور کپڑے کی مختلف اقسام سے تیار کیے جائیں گے۔ مستقبل کے فیشن کو اس لحاظ سے اسمارٹ فیشن کا نام دیا جاسکتا ہے، کیونکہ ہمارا لباس صرف تن ڈھانپنے کے لیے ہی نہیں ہوگا بلکہ اس سے اعصابی تناؤ کم کرنے اور اپنا موڈ خوشگوار رکھنے میں بھی مدد مل سکے گی۔ ان دنوں امریکی ریاست میری لینڈ کے ایک کالج میں مستقبل کے ایسے ہی لباس پر کام کیا جارہا ہے۔ کالج آف آرٹ کی ایک طالبہ میتھیو ریڈنگ دلہن کا ایک خصوصی لباس تیار کررہی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ میرے نزدیک دلہنیں بہت روایتی لباس استعمال کرتی ہیں، ان کے لباس زیادہ دلچسپ ہونے چاہئیں۔ انہوں نے اس لباس میں چھوٹے چھوٹے کنٹرولرز لگائے ہیں جو دھلنے سے خراب نہیں ہوتے۔ وہ کہتی ہیں کہ آپ لباس میں ایسے سینسرز لگا سکتے ہیں جس سے درجہ حرارت، روشنی اور حرکت کو قابو کیا جاسکے۔ ریڈنگ کی ایک ہم جماعت ویرونیکا اولسن نے ایک ایسی جیکٹ تیار کی ہے جس سے اعصاب کو قابو کیا جا سکے گا۔ وہ کہتی ہیں کہ میں نے اس جیکٹ میں ایسے مائیکرو پروسیسرز لگائے ہیں کہ جب جسم اعصابی تناؤ کی ایک خاص حد تک پہنچ جائے تو لباس میں نصب آڈیو پلیئر خودبخود چلنا شروع ہوجائے گا جو جیکٹ کے پہننے والے کو سکون دے گا۔ اینٹ کوین برگ کالج کے فائبر ڈپارٹمنٹ میں پروفیسر ہیں۔ انہوں نے دو سال قبل کپڑوں کے روایتی اور اکیسویں صدی کے جدید انداز کو ملا کر اسمارٹ ٹیکسٹائل ریسرچ لیبارٹری قائم کی تھی۔ وہ کہتے ہیں کہ میرے نزدیک مستقبل یہی ہے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے چیزیں چھوٹی ہوتی جا رہی ہیں۔ اب ٹیکنالوجی چھوٹے چھوٹے سیلز کی صورت میں بھی سامنے آ گئی ہے۔ اور اس سے آرٹ، فیشن اور ٹیکنالوجی میں بہت سی تبدیلیاں دیکھنے کو ملیں گی۔ آرٹ کالج کے ایک اور طالب علم ٹیبور بیرانٹی کے نزدیک مستقبل کے فیشن میں ایسے کپڑے استعمال کیے جائیں گے جو اپنا رنگ بدل سکیں۔ وہ کہتے ہیں کہ آپ اگر چاہیں کہ آپ کا لباس سبز کے بجائے سرخ رنگ کا ہو تو آپ ایسا اپنے کپڑوں میں لگے پروسیسرز کی مدد سے بآسانی ایسا کرسکیں گے۔
چاند کا ٹکڑا 27 اپریل کو فروخت کیا جائے گا
ہمارے ہاں چاند کا ٹکڑا بطور محاورہ استعمال ہوتا ہے لیکن حقیقت میں ایک چاند کا ٹکڑا اب نیلام کے لیے پیش کیا جا رہا ہے اور توقع ہے کہ اس کی قیمت 60 ہزار پاؤنڈ تک جاپہنچے گی جو پاکستانی تقریباً 77 لاکھ 80 ہزار روپے ہے۔ چاند کا یہ ٹکڑا صرف ساڑھے چار انچ لمبا اور پونے پانچ انچ چوڑا ہے۔ یہ دنیا کے مشہور ریگستان صحارا سے ملا ہے۔ اس کی خاص بات یہ ہے کہ یہ ٹکڑا چاند پر شہابِ ثاقب ٹکرانے سے الگ ہوا تھا اور خلا میں بھٹک گیا، لیکن پھر زمین کے مدار میں رہا اور لاکھوں کروڑوں سال وہاں رہنے کے بعد ریگستان میں جاگرا۔ اس کے کنارے نوکدار ہیں اور یہ 2014ء میں مراکش سے دریافت ہوا تھا۔ اس پتھر کو کرسٹی نیلام گھر کے ذریعے 27 اپریل کو فروخت کیا جائے گا۔ اس سے قبل 2012ء میں چار پونڈ وزنی چاند کا ٹکڑا ڈھائی کروڑ روپے میں فروخت ہوا تھا۔
کمپیوٹراسکرین سے آنکھوں کو بچائیں
اگر آپ کا دفتری کام کمپیوٹر سے متعلق ہے تو یقیناًدن کا بیشتر حصہ اسکرین کے سامنے گزارنے کے بعد آپ چڑچڑے پن، آنکھوں میں درد و تھکاوٹ اور دھندلے پن کی کیفیات کا شکار ہوسکتے ہیں۔ یہ درحقیقت آنکھوں کے تناؤ یا کمپیوٹر ویژن سنڈروم نامی مرض کی علامات ہیں، اور آج کے عہد میں 60 فیصد افراد کو اس کا تجربہ ہوتا ہے۔ آنکھوں کے اس مرض کا شکار ہونے میں بہت زیادہ عرصہ بھی نہیں لگتا بلکہ محض 2 گھنٹے لگاتار کمپیوٹر اسکرین کے سامنے بیٹھنا بھی لوگوں کو خطرے کی زد میں لے آتا ہے۔ اگر کمپیوٹر کے ساتھ اسمارٹ فون، ٹیلی ویژن اور ٹیبلیٹس وغیرہ کو بھی شامل کرلیں تو اس سے بچنا لگ بھگ ناممکن ہی نظر آتا ہے۔ اچھی خبر یہ ہے کہ ماہرین کے مطابق پورا دن اسکرین کے سامنے رہنے سے ہونے والے نقصان سے بچنا بہت آسان ہے اور اس کے لیے 4 نکاتی حکمت عملی کو اپناکر بہت بڑا فرق لایا جاسکتا ہے۔
-1 اسکرین پر چھوٹے ٹیکسٹ کو گھورنا آنکھیں سکیڑنے پر مجبور کردیتا ہے اور آپ اپنا چہرہ بھی اسکرین کے قریب لے جاتے ہیں جس سے سردرد اور تھکاوٹ سمیت دیگر مسائل کا خطرہ بڑھتا ہے۔ لہٰذا ٹیکسٹ کے سائز اور کلر کنٹراسٹ میں تبدیلی سے آپ اس مسئلے پر قابو پاسکتے ہیں۔
-2 جب ہم اسکرینوں کو گھورتے ہیں تو پلک جھپکانا بھول جاتا ہیں جس سے آنکھیں خشک ہوجاتی ہیں۔ یہ یاد رکھنا اگرچہ مشکل ہوسکتا ہے مگر پلک جھپکانے کو یقینی بنانے کی کوشش کرنا خاصا مددگار ثابت ہوتا ہے۔ آئی ڈراپس بھی آنکھوں کو خشک ہونے سے بچانے کے لیے ایک سادہ اور کارآمد طریقہ ہے۔
-3 اسکرین کی چمک آنکھوں پر دباؤ ڈالنے اور سردرد کا باعث بنتی ہے، لیکن اپنی اسکرین کی برائٹنس کو ایڈجسٹ کرکے آپ اسکرین پر ریفلیکشن کو روک سکتے ہیں یا اس حوالے سے کچھ ایپس بھی دستیاب ہیں۔
-4 ہر 20 منٹ کے کام کے بعد اپنی نگاہوں کو 20 سیکنڈ کے لیے 20 فٹ دور کسی چیز پر گھمانا چاہیے، آنکھوں کے مسلز اسے حرکت کرنے سمیت مختلف اشیاء پر توجہ مرکوز کرنے میں مدد دیتے ہیں، مگر جب ہم کئی گھنٹوں تک ایک ہی جگہ بیٹھے کسی اسکرین کو گھورتے ہیں تو ان مسلز کے لیے خود کو ایڈجسٹ کرنا اُس وقت مشکل ہوجاتا ہے جب ہم آنکھوں کو کسی اور جانب حرکت دیتے ہیں۔