(بھارت کے ’’سرپرست‘‘ متحرکمیاں (منیر احمد

پاکستان میں بھارت کے لیے جاسوسی کرنے کے الزام میں گرفتار بھارتی نیوی کے افسر کلبھوشن کو جرم ثابت ہوجانے پر فوجی عدالت نے موت کی سزا سنادی ہے۔ پارلیمنٹ میں قائدِ حزبِ اختلاف سید خورشید شاہ سمیت ملک کی تمام پارلیمانی جماعتوں نے اس فیصلے کی حمایت کی ہے۔ قومی اسمبلی میں قائد حزبِ اختلاف سید خورشید شاہ نے کہا کہ آرمی ایکٹ کے تحت جاسوسوں کو ایسی ہی سزائیں ملتی ہیں جو کلبھوشن کو ملی، اب بھارت اپنا پروپیگنڈہ سیل کھولے گا، ہمیں اس ایشو کو جلد از جلد دنیا کے آگے لے کر جانا چاہیے کہ پاکستان نے جو کام کیا ہے وہ قانونی اور آئینی طریقے سے کیا ہے۔
اس فیصلے کے بعد سے بھارت کے سرپرست پریشان ہوگئے ہیں۔ اس سزا کے بعد اسلام آباد میں امریکی بھی متحرک ہوئے ہیں اور یورپی یونین کے سفیر بھی سائے کی طرح امریکی سفیر کے ساتھ چل رہے ہیں۔ کلبھوشن کی سزا کے حکم کے بعد امریکی سفیر نے آرمی چیف سے ملاقات کی ہے۔ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کا مؤقف بھی امریکی سفیر تک اچھی طرح پہنچ گیا ہے کہ پاکستان اپنی سلامتی پر کوئی سمجھوتا نہیں کرسکتا۔ امریکہ کو سمجھ جانا چاہیے کہ پاکستان میں اب کوئی پرویزمشرف نہیں کہ بھارتی جاسوس کشمیر سنگھ کو جیل سے رہا کرکے سرحد پار بھیج دیا جائے۔
جنوبی ایشیا میں پاک بھارت کشیدگی کے تناظر میں بھارت اور اس کے حامی ممالک پاکستان پر دباؤ بڑھانے کے لیے ہمیشہ نان اسٹیٹ ایکٹرز کے ذریعے ممبئی اور مقبوضہ کشمیر میں عسکری کارروائیوں کے غلط، بے مقصد اور بے معنی الزام لگاتے رہے ہیں، لیکن دنیا کو پاکستان پر لگائے جانے والے بے ہودہ الزامات کا اصل جواب کلبھوشن کی صورت میں ملا جو بھارت کا اسٹیٹ ایکٹر تھا اور ہے۔ اس کی گرفتاری سے حقیقی معنوں میں بھارت گونگا، بہرہ اور اندھا ہوگیا۔
کلبھوشن کو گزشتہ سال مارچ میں بلوچستان سے گرفتار کیا گیا تھا، وہ افغانستان اور ایران میں اپنے ایجنٹوں کے ذریعے پاکستان میں نیٹ ورک بناکر دہشت گردی کا نیت ورک چلارہا تھا۔ پاکستان کے علاوہ ایران میں بھی اسے دہلی سے اہداف ملتے رہتے تھے۔ اپنے اس مکروہ دہشت گردی کے جرائم کے باعث وہ ایران اور پاکستان کا مشترکہ مجرم تھا۔ کلبھوشن کا مقدمہ پاکستانی قوانین کے عین مطابق چلایا گیا۔ جو بھی جاسوسی یا تخریب کاری میں ملوث ہوتا ہے اس کا مقدمہ فوجی عدالت میں ہی چلایا جاتا ہے۔ ملزم کو دفاع کے لیے ایک وکیل فراہم کیا جاتا ہے، اور اس معاملے میں پاکستانیوں اور غیر ملکیوں کے لیے طریقہ کار ایک ہی ہے، لہٰذا کلبھوشن پر بھی اسی طریقہ کار کے تحت مقدمہ چلایا گیا۔ کلبھوشن یادیو نے اپنے دفاع کے لیے سویلین وکیل کو منتخب کیا جو اسے فراہم کیا گیا۔ یہ تاثر غلط ہے کہ کورٹ مارشل کے مقدمات میں دفاع کا موقع نہیں دیا گیا۔ بھارت نے کلبھوشن یادیو تک قونصلر رسائی مانگی تھی، یہ سہولت بھارت کو فراہم نہیں کی گئی کیوں کہ یہ جاسوسی کا معاملہ تھا اور یہی رائج طریقہ ہے۔ قوانین کے مطابق کلبھوشن اپیلٹ بینچ میں فیصلے کے خلاف اپیل کرسکتا ہے یا پھر اس معاملے کو سپریم کورٹ میں لے جاسکتا ہے، اور وہاں اس کی اپیل مسترد ہوئی تو صدرِ پاکستان سے رحم کی اپیل کرسکتا ہے۔ قانون یہ کہتا ہے کہ فیلڈ جنرل کورٹ مارشل عام طور پر جلد مقدمات نمٹاتا ہے، اور جاسوس ملزم پہلے ہی اپنا بیان دے چکا تھا اور اس کے خلاف شواہد بھی موجود تھے، لہٰذا اس کے خلاف مقدمہ متوقع وقت پر ہی مکمل ہوا۔ بھارتی میڈیا کے اس تاثر میں کوئی سچائی نہیں کہ سول حکومت کو مقدمے کا علم نہیں تھا، کیوں کہ جیسے ہی کلبھوشن کی سزائے موت کی خبر سامنے آئی، وزیر دفاع خواجہ آصف نے اس معاملے پر اپنا بیان دیا۔ حکومت میں موجود متعلقہ شخصیات کو کلبھوشن پر چلنے والے مقدمے اور اسے سنائی جانے والی سزائے موت کا علم تھا۔ کلبھوشن یادیو نے آرمی چیف سے رحم کی اپیل کی تو آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ تمام پہلوؤں کو مدنظر رکھ کر ہی فیصلہ کریں گے۔ سب جانتے ہیں کہ یہ کیس اتنا سادہ نہیں۔
یہ بات طے ہے کہ بھارت اس معاملے پر بین الاقوامی سطح پر خاصا شور مچائے گا۔ اُس کے میڈیا نے ایسا کرنا شروع کردیا ہے۔ اور مغرب میں ظاہر ہے کہ سزائے موت کو اچھا نہیں سمجھا جاتا، لہٰذا بھارت اسے اپنے دفاع کے لیے استعمال کرے گا۔ بھارتی میڈیا پہلے ہی پاک فوج کے خلاف باتیں شروع کرچکا ہے۔ کیا وہ بھول گئے کہ ان کے اپنے ملک میں سکھوں کے ساتھ کیا ہوا تھا؟ بھارت نے اجمل قصاب کے ساتھ کیا کیا تھا؟ اجمل قصاب ایک انفرادی شخص تھا جو ایک واقعے میں ملوث تھا، لیکن کلبھوشن تو بلوچستان اور کراچی میں متعدد واقعات میں ملوث ہے۔ اس سزا کے بعد پاکستان کو اب بہت زیادہ چوکنا رہنے کی ضرورت ہے، کیوں کہ بھارت بدلہ لینے کے لیے کسی بھی پاکستانی کو اٹھاکر اسے بطور جاسوس پیش کرنے کی کوشش کرسکتا ہے۔ نیپال سے پاک فوج کے ریٹائرڈ لیفٹیننٹ کرنل محمد حبیب طاہر کی گمشدگی میں اس بات کا امکان موجود ہے کہ بھارتی ایجنسی نے انھیں اٹھا لیا ہو، کیوں کہ نیپال میں بھارت کا خاصا اثر رسوخ ہے۔
کلبھوشن کے بارے میں بہت سے شواہد واضح تھے۔ بلوچستان سے گرفتار کیے جانے کے بعد صداقت پر مبنی تمام تر شواہد کے بعد مقدمہ چلایا گیا۔ کلبھوشن ایران سے ہوتا ہوا پاکستان آیا تھا اور اس کا تعلق بھارت سے تھا۔ بھارتی حکومت نے بھی اسے اپنا شہری تسلیم کیا اور اس بات کی تصدیق کی کہ وہ بھارتی نیوی کا ملازم ہے۔ اس نے پاکستان پہنچ کر حسین مبارک پٹیل کے نام سے دھندا شروع کیا اور اسی نام سے دستاویزات بھی بنائیں۔ اس نے پاکستان میں حسین مبارک پٹیل کے نام سے اور L9630722 کے نمبر سے پاسپورٹ بھی بنوایا تھا۔ بھارت پاکستان میں دہشت گردی کرانے میں ملوث رہا ہے اور اب بھی ہے۔ یہ بات 2009ء میں بھی بھارت کے ساتھ اٹھائی گئی تھی۔ کلبھوشن کا کیس ایک ٹھوس ثبوت ہے۔ اُس نے نہ صرف اعتراف کیا بلکہ بتایا کہ کیسے کیسے بھارت اور اس کی ریاستی ایجنسیاں پاکستان میں دہشت گردی کرانے میں ملوث ہیں اور نیٹ ورک میں کون کون شامل ہے۔
ایران بھی کلبھوشن کی سرگرمیوں کے بارے میں تحقیقات کررہا تھا، اور ایرانی سفیر نے نئی دہلی کو اس معاملے سے غیر رسمی طور پر بھی آگاہ کردیا تھا۔ کلبھوشن سنگھ یادیو کے والد ممبئی میں ریٹائرڈ اسسٹنٹ کمشنر ہیں، جبکہ چچا بھی پولیس میں رہ چکے ہیں۔ اسے کراچی اور بلوچستان میں دہشت گردانہ کارروائیاں کرانے پر فوجی عدالت نے سزائے موت سنائی ہے۔ فوجی عدالت میں اسے قانونی لحاظ سے اپنا دفاع کرنے کا پورا موقع فراہم کیا گیا۔ اس کے لیے جیک برانچ نے ہی وکیل کا بھی بندوبست کیا، لیکن اس کے جرائم کے ثبوت اس قدر مضبوط تھے کہ عدالت کے پاس اسے سزا دینے کے سوا کوئی راستہ نہیں تھا۔ بھارتی حکومت اور میڈیا نے کلبھوشن کی سزا پر یہ ردعمل دیا کہ اگر پاکستان اس کی سزا پر عمل درآمد کرے تو پاکستان میں سندھ کے علاوہ بلوچستان میں اپنے ایجنٹوں کے ذریعے زہر بھر دیا جائے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کے ایک رکن نے تو یہ تک کہا ہے کہ اگر پاکستان کلبھوشن یادیو کو سزائے موت دیتا ہے تو بھارت کو چاہیے کہ بلوچستان کو ایک آزاد ملک تسلیم کرلے۔ بی جے پی کے رکن پارلیمنٹ سبرامینن سوامی نے بھی اس کی حمایت کی ہے۔ اسی طرح بھارتی اخبار’’دی ٹائمز آف انڈیا‘‘ نے لکھا ہے کہ اگر ایسا ہو تو بھارت کو بھی چاہیے کہ بلوچستان کو ایک آزاد ملک تسلیم کرلے۔ اگرکلبھوشن یادیو کے بعد پاکستان مزید ظلم کرتا ہے تو اس کے صوبہ سندھ کو بھی الگ کردیا جائے۔ ’’بھارتی حکومت کو چاہیے کہ کلبھوشن یادیو کو سزائے موت دینے کی صورت میں پاکستان کو سنگین نتائج سے خبردار کرے‘‘۔ اس میڈیا مہم کے بعد بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج نے گیدڑ بھبکیاں دینا شروع کردیں، راجیا سبھا کے اجلاس میں انھوں نے جاسوس کلبھوشن کو بھارت کا بیٹا قرار دیا اور کہا کہ پاکستان نتائج پر غور کرے، جاسوس کی پھانسی سے دو طرفہ تعلقات متاثر ہوں گے، کلبھوشن کی سزا کو منصوبہ بندی کے تحت قتل کہیں گے، کلبھوشن کو بچانے کے لیے اچھے وکیل کے ساتھ صدر تک بات لے جائیں گے۔ سشما سوراج کے بعد بھارتی وزیر داخلہ بھی بولے ہیں اور آپے سے باہر ہوئے ہیں۔ اس کے جواب میں وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان نے کہا ہے کہ کلبھوشن یادیو کے معاملے پر بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج کی جانب سے جس طرح کا ری ایکشن آیا ہے یہ پہلے سے ہمارے ذہن میں تھا، اس طرح کا ردعمل پاکستان کی پالیسیوں پر اثرانداز نہیں ہوگا، ہم خطے میں اپنی سلامتی اور خودمختاری کو ہر طرح محفوظ کریں گے اور اس کی حفاظت کریں گے، یہ ایک اصولی فیصلہ ہے، پوری دنیا میں اس طرح کے جاسوسوں کو اسی طرح کی سزا دی جاتی رہی ہے اور ہم آئندہ بھی دیں گے، بھارت نے ہمیشہ منفی رویہ اختیار کیا ہے، دنیا جانتی ہے اور ہم نے بہت سے ڈوزیئر اور بہت سارے ثبوت مختلف فورمز پر دنیا کو دیئے ہیں کہ بھارت براہِ راست اور بلا واسطہ پاکستان میں دہشت گردی کی سرپرستی کررہا ہے اور اس کی ریاست براہِ راست اس میں ملوث ہے، دنیا کے بے شمار ممالک اسے جانتے ہیں، اس لیے دنیا کی جانب سے کلبھوشن کے معاملے پر کوئی ردعمل آنے کا امکان نہیں، پاکستان کی خودمختاری پر کوئی سمجھوتا نہیں کریں گے۔
بھارتی وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ نے دعویٰ کیا کہ کلبھوشن کو انصاف کے تقاضے مدنظر رکھے بغیر سزا سنائی گئی ہے، اور ردعمل میں دہلی میں پاکستان کے ہائی کمشنر ڈاکٹر عبدالباسط کو دفتر خارجہ میں طلب کیا گیا اور انھیں احتجاجی مراسلہ دیا گیا ہے، لیکن انھوں نے بھی وہاں ہندو ازم کو پاؤں تلے روندا اور جواب دیا کہ ’’دہشت گردی بھی کرتے ہو اور دھمکیاں بھی دیتے ہو!‘‘ ہائی کمشنر کے یہ الفاظ ہر پاکستانی کے الفاظ ہیں۔
جہاں تک بھارت کی جانب سے پاکستان میں اپنے جاسوسی نیٹ ورک کے لیے جال بچھانے کا معاملہ ہے، یہ کلبھوشن کوئی پہلا آدمی نہیں ہے، اس سے پہلے بھی بھارت یہ کام کرتا چلا آیا ہے۔ ماضئ قریب میں کشمیر سنگھ، اور سربجیت سنگھ اس کی مثال ہیں۔ برسوں قبل بھارتی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ نے رویندرا کوشک نامی تھیٹر کے اداکار کو جاسوسی کے لیے بھرتی کیا تھا، اسے دو سال ٹریننگ دی اور پھر بدامنی پھیلانے کے لیے 1975ء میں صرف 23 سال کی عمر میں پاکستان بھیج دیا۔ ملزم نے کراچی یونیورسٹی میں نبی احمد شاکر کے نام سے داخلہ لیا اور گریجویشن کرنے کے بعد پاک فوج میں کمیشنڈ آفیسر کے طور پر شمولیت اختیار کی اور ترقی پاکر میجر کے عہدے پر فائز ہوگیا۔ 1979ء سے 1983ء کے دوران ملزم ’’را‘‘ کو حساس معلومات فراہم کرتا رہا، تاہم پاک فوج نے اس دوران ایک بھارتی جاسوس کو گرفتار کیا جس نے رویندرا کوشک کے عزائم کو بھی بے نقاب کردیا، اور پھر 1983ء میں اسے بھی گرفتار کرلیا گیا، جو پاکستانی جیل میں 16سال قید رہا اور 2001ء میں ٹی بی کے مرض کی وجہ سے ملتان کی جیل میں ہلاک ہوگیا۔ اسے اردو اور پنجابی زبان سکھا کر اور یہاں کے بود وباش کی بہت اعلیٰ تربیت دے کر بھیجا گیا تھا۔ وہ یہاں سے کافی خفیہ معلومات بھارت بھیجنے میں کامیاب رہا تھا۔ رویندرا کو سزائے موت سنائی گئی تھی تاہم بعد میں سپریم کورٹ آف پاکستان نے اس سزا کو عمر قید میں تبدیل کردیا تھا۔
nn