(فرائیڈے اسپیشل:موجودہ حکومت کو 4 سال ہوگئے اس کی کارکردگی کو آپ کس طرح دیکھتے ہیں؟(اے اے سید

محمود الرشید:موجودہ حکومت کی کارکردگی جانچنے کے لیے 4 سال نہ کہیں صوبہ پنجاب میں بلاتعطل دس سال ملے ہیں
میراخیال ہے کہ ان کی کارکردگی جانچنے کے لیے 4 سال نہ کہیں یہ اپنی حکومت کے 10 ویں سال میں بلاتعطل ان کو یہ دس سال ملے ہیں مجموعی طور پر دیکھا جائے تو دس سال ایک طویل عرصہ ہوتا ہے۔ بدقسمتی سے پنجاب میں یہ کسی ایک شعبہ میں بھی پرفارم کرکے نہیں دکھاسکے۔ سب سے زیادہ یہ گڈگورننس کی بات کرتے ہیں۔ تھانہ کلچر کی تبدیلی کی بات کرتے ہیں۔ دس سال پہلے یہ باتیں کرتے تھے آج بھی وزیراعلیٰ صاحب ویسی ہی تقریریں کرتے ہیں تھانے کچہری میں عام آدمی کے لیے انصاف کا حصول تقریباً ناممکن ہوچکا ہے کرپشن پہلے سے زیادہ سرایت کرچکی ہے سطح پرنیچے سے اوپر تک کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔ بے روزگاری بڑھ گئی ہے کروڑوں نوجوان ڈگریاں ہاتھوں میں لیے پھر رہے ہیں سو سے زائد ٹیکسٹائل ملیں پنجاب میں بند ہیں جس کی وجہ سے دس لاکھ سے زائد لوگ بیکار ہوگئے ہیں۔ تعلیم کا شعبہ دیکھ لیں کہ ایک کروڑ 16لاکھ بچے جو اسکول جانے کی عمر کے ہیں وہ اسکول سے باہر ہیں۔ تقریباً ساڑھے آٹھ ہزار اسکول چار دیواری کے بغیر اور 6 ہزار 7 سو اسکولوں میں پینے کا پانی میسر نہیں ہے۔ اسی طرح پانچ سے سات ہزار اسکول ایسے ہیں جہاں بجلی نہیں ہے بیت الخلا نہیں ہے۔ یہ نقشہ ہے اس صوبے کا جس کے 45 فیصد بچے اسکولوں سے باہر ہیں صحت کے معاملے میں لاہور شہر کی مثال دیتا ہوں گزشتہ 25 سال میں لاہور میں ایک بھی نیا اسپتال نہیں بناباقی پنجاب کو تو بھول جائیں اور جو پرانے اسپتال ہیں ان کی اندرونی کیفیت یہ ہے کہ میو اسپتال سب سے بڑا اسپتال ہے یہاں ایم آر آئی مشین نہیں ہے۔ روزانہ پانچ ہزار مریض آتے ہیں ایک سی ٹی اسکین مشین ہے شعبہ حادثات میں دو سو لوگوں کی گنجائش ہے ڈھائی ہزار لوگ روزانہ آرہے ہیں۔ فرش پر لیٹے مریضوں کا علاج ہورہا ہے ڈڑپ لگی ہوئی ہے برا حال ہے۔ چلڈرن اسپتال چلے جائیں وہاں بچوں کے معمولی آپریشن کے لیے تین تین سال کی تاریخیں دی جارہی ہیں پی آئی سی میں چلے جائیں تو وہاں پر تین تین چار چار سال کی لائن لگی ہوئی ہے‘ جن کو دل کے آپریشن کی ضرورت ہے میرا خیال ہے ان میں سے 50 فیصد لوگ اس سے پہلے ہی اللہ کو پیارے ہوجاتے ہیں۔ اگر مجموعی طور پر لاہور کی یہ کیفیت ہے باقی ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر اسپتال ‘تحصیل ہیڈکوارٹر اسپتال اندازہ کیا جاسکتا ہے ‘ گیارہ اضلاع ایسے ہیں پنجاب میں جس کے ڈسٹرک اسپتال میں ایک وینٹی لیٹر مشین نہیں ہے۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ یہ ون مین شو ہے بری طرح سے یہ ایکسپوز ہوئے ہیں سوائے یہ اپنی پبلک سٹی کے اور پنجابی محاورے کے مطابق اگا دوڑتے پچھا چھوڑ یہ ان کی کیفیت چل رہی ہے۔ نئے نئے منصوبوں کا اعلان کرتے ہیں عمل درآمد نہیں ہورہا۔ اب یہ مہنگا ترین منصوبہ اورنج ٹرین جو ڈھائی سو ارب روپے کا منصوبہ ہے لگارہے ہیں او ریہ لاہور شہر کی ڈیڑھ کروڑ کی آبادی کے ڈیڑھ دو لاکھ لوگ یعنی ایک ڈیڑھ فیصد لوگ سفرکریں گے اس میں ڈھائی سو ارب روپے لگانا جب کہ یہاں اسپتالوں کا برا حال ہے‘ تعلیم کے شعبے کا برا حال ہے پینے کا صاف پانی 60 فیصد لوگوں کو میسر نہیں ہے لاہور میں 40 فیصد لوگوں کو پینے کا صاف پانی میسر نہیں ہے۔ جب تک پنجاب کے حکمران اپنی ترجیحات نہیں بدلتے میں یہ سمجھتا ہوں کہ مکمل ناکام ہیں اور اپنی کارکردگی نہیں دکھاسکے۔
فرائیڈے اسپیشل: عمومی تاثر یہ ہے کہ باقی صوبوں کے مقابلے میں پنجاب میں تعلیم اور ترقیاتی منصوبے جن پر آپ تنقید کررہے ہیں مقابلتاً یہاں بہتر ہے؟
محمود الرشید:یہی ا ن کی خوبی ہے کہ یہ مارکیٹنگ کے ماسٹر ہیں یعنی بجٹ میں سے تیس چالیس فیصد اپنی مارکیٹنگ پر لگادیں گے اشتہا ربازی‘ سروے‘ مختلف ایجنسیوں کے ذریعے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر اشتہار بازی کے یہ ماہر ہیں میں یہ تسلیم کرتا ہوں لیکن زمینی حقیقت کے حوالے سے میں بات کررہاہوں یہ چند فلائی اور انڈر پاسز اور میٹرو بنادی اب یہ اورنج بن رہی ہے یہ حقیقی کام نہیں ہے نہ قومیں اس طرح سے ترقی کرتی ہیں اس صوبے میں ادارے انتہائی تباہ حالی کا شکار ہیں۔ Callapse ہوگیا ہے پولیس سے لے کر کوئی ایک محکمہ ایسا نہیں ہے جہاں سیاسی مداخلت نہ ہوعوام اب جان چکے ہیں کہ دس سال میں جو انہوں نے وعدے کیے وہ پورے نہیں ہوسکے۔ شہباز شریف کہتے تھے چھے ماہ میں لوڈ شیڈنگ ختم کردیں گے پھر دوسال پہ آئے آج پانچواں سال ہونے کو آرہا ہے اور لاہور جیسے شہر میں12 ‘12 اور 14 ‘14 گھنٹے لوڈ شیڈنگ لاہور جیسے شہر میں شروع ہوگئی ہے ابھی گرمی کا آغاز نہیں ہوا ہے آنے والے دنوں میں اندازہ ہوگا کہ کیا حال ہے میں یہ سمجھتا ہوں جب تک یہ اپنی ترجیحات نہیں بدلتے اور اب تو وقت ہی نہیں ہے ترجیحات بدلنے کا آج وزیراعلیٰ کا بیان پڑھیں کہ سبز انقلاب کی بنیاد رکھ دی ہے اپنی حکومت کے دسویں سال میں انہوں نے بنیاد رکھی ہے بنیاد پر عمارت کب کھڑی ہوگی۔
فرائیڈے اسپیشل:2018 ء کے انتخابات میں کیا پنجاب میں بڑی تبدیلی کی توقع کررہے ہیں؟
محمود الرشید:میں یہ سمجھتا ہوں کہ پی ٹی آئی متبادل قوت کے طور لوگوں کے سامنے موجود ہے پیپلزپارٹی کے تین دور دیکھ لیے ان کا تو پانچواں دور ہے پرفارمنس تو اس قابل نہیں ہے کہ لوگ دوبارہ ان کو ووٹ دیں یہ جتنی بھی کوشش کرلیں میں دیانتداری کے ساتھ یہ سمجھتا ہوں یہاں اصل معرکہ پی ٹی آئی اور مسلم لیگ ن کے درمیان ہے پانام کا فیصلہ بھی آنے والا ہے۔
فرائیڈے اسپیشل: ماضی میں جو ضمنی انتچابات ہوئے میں ان کے نتائج تو نواز شریف حکومت کے حق میں ہی نکلتے رہے ہیں؟
محمود الرشید:آپ کی بات درست نہیں ہے آپ پاکستان کی 70 سالہ تاریخ میں دیکھ لیں برسراقتدار حکومت کے خلاف کسی پارٹی نے اتنے انتخابات نہیں جیتے جتنے پی ٹی آئی نے ان کی سیٹیں چھینی ہیں لاہور میں ضمنی الیکشن ہوا ان کی سیٹ تھی محسن لطیف کی پی ٹی آئی جیت جاتی ہے ۔فیصل آباد میں پی ٹی آئی اپنی سیٹ پر جیتی ہے جہانگیر ترین لودھراں جاکر جیتا ہے وہ مسلم لیگ ن کی سیٹ تھی پنڈی بھٹیاں میں نگہت انتصار پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر جیتی ہے ہم نے جہاں شکست کھائی وہاں بھی ووٹوں کا فرق بہت کم ہے۔ جہلم میں 74 ہزار وٹ لیے ہیں ضمنی الیکشن میں اپوزیشن پارٹی کے اتنے زیادہ ووٹ ‘ وہاڑی میں عائشہ نذیر جٹ کو نو سو ووٹ سے ہرایا۔ پاکستان کی تاریخ میں ایسی مثال نہیں ملتی کہ کسی اپوزیشن جماعت نے اتنی بڑی تعداد میں ووٹ لیے ہوں اور حکومتی پارٹی کی سیٹوں کو برقرار رہنے نہ دیا ہو بلکہ چھین لیا ہو حالات کا تجزیہ یہ ہے کہ حکومت کے باوجود ریاست کے تمام ادارے حکومتی نمائندے کو جتوانے کے لیے کوشش کررہے ہوں۔ سوئی گیس ہو‘ واپڈا ہو‘ اس کے باوجود پی ٹی آئی کا ن لیگ کی سیٹوں خو تن تنہا جیت لینا ہوا کا رخ بتاتا ہے ۔
فرائیڈے اسپیشل: پاکستان میں ووٹرآزاد نہیں ہے ایسے میں اصولی اور نظریاتی سیاست کرنے والے سیاست دانوں کے لیے کیا گنجائش رہ جاتی ہے؟
محمود الرشید:وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس میں کافی تبدیلی واقع ہورہی ہے جوں جوں تعلیم عام ہورہی ہے لوگوں میں آگاہی آرہی ہے میڈیا گھر گھر پہنچا ہوا ہے۔ اب حالات پہلے جیسے نہیں رہے جاگیرداروں کی گرفت اب اس طرح سے نہیں رہی جس طرح آج سے دس بیس سال پہلے ہوتی تھی اب اس کی میں مثال دیتا ہوں 2013 ء کے الیکشن میں پی ٹی آئی کے پاس الیکٹیبلز پانچ دس فیصد تھے باقی سارے نئے لوگ تھے یہ معجزہ تھا کہ پی ٹی آئی دوسری بڑی پارٹی بن کر ابھری یہ اس بات کی علامت ہے کہ حالات بدل رہے ہیں اور جوں جوں وقت گزرے گا اس میں بہتری پیدا ہوتی چلی جائے گی ان لوگوں سےُ وگ آزادی چاہتے بھی ہیں خاص طور پر میں ذکر کروں گا کہ جو نئی نسل ہے اس کے اندر بڑی بیداری ہے اس میں میڈیا کا بنیادی کروارہے۔ آئندہ اس میں اضافہ ہوگا۔
فرائیڈے اسپیشل: پی ٹی آئی پنجاب میں کس حکمت عملی کے ساتھ الیکشن میں جارہی ہے کسی اتحاد کا حصہ بنے گی یا پھر تنہا لڑے گی؟
محمود الرشید:دیکھیں سیاست میں کوئی چیز حتمی نہیں ہوتی ابھی انتخابات میں سال ڈیڑھ سال کا عرصہ ہے باقی آپشن ہمارے پاس کھلے ہیں میری ذاتی خواہش ہے اور پارٹی میں ہم بات کرتے ہیں کہ ہم خیال جماعتوں کو ساتھ لے کر چلنا چاہیے اگر اتحاد کی شکل نہ سہی لیکن سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی شکل میں ہمیں ایک دوسرے کا دست و بازو بننا چاہیے تاکہ اینٹی ن لیگ ووٹ تقسیم نہ ہو۔ جب وہ ووٹ اکٹھا ہوکر باہر نکلے گا اس سے ایک تاثر بھی بہتر ہوگا اور دوسرا وہ ووٹ جو مذبذب ہوتا ہے کہ کدھر جانا ہے اگر یہ پارٹیاں اکٹھی ہوتی ہیں تو پھر ان کے لیے فیصلہ کرنا آسان ہوگا اس کا بڑا مثبت نتیجہ نکل سکتا ہے۔
فرائیڈے اسپیشل:پنجاب میں کون سی پارٹیاں ہیں‘جن کے ساتھ آپ اتحاد کرسکتے ہیں؟
محمود الرشید:پنجاب کے اندر جماعت اسلامی ہے جو کے پی کے کے اندر ہماری اتحادی ہے‘ جب کے پی کے میں ان کے ساتھ اتحاد میں جاسکتے ہیں تو پنجاب اور دیگر صوبوں میں بات ہوسکتی ہے ایڈجسٹمنٹ ہوسکتی ہے ہماری ان کی سوچ نظریہ ساری چیزملتی ہیں اس طرح میں سمجھتا ہوں مسلم لیگ ق پر ہمارے بعض لوگوں کے اعتراضات ہیں لیکن جب ایک بڑا دشمن سامنے ہو تو سیاست میں کچھ نہ کچھ قربانیاں دینا پڑتی ہیں ق لیگ کے ساتھ بھی سیٹ ایڈجسٹمنٹ کرنی چاہیے۔
فرائیڈے اسپیشل:پاناما لیکس کے فیصلے کے مستقبل کی سیاست پر کیا اثرات پڑیں گے؟
محمود الرشید:پاناما کیس کے بڑے دوررس اثرات ہوں گے پاناما کیس کا فیصلہ جیسا لوگ توقع کررہے ہیں سماعت کے دوران شریف خاندان منی ٹریل نہیں دے سکا سوائے قطری شہزادے کے خظ کے ان کے پاس کچھ بھی نہیں ہے کہنے کو اس کا وہ اعتراف کرچکے ہیں خاندان کے تمام افراد مختلف انداز میں اگر شریف خاندان کے خلاف فیصلہ آتا ہے تو یہ پاکستان کی سیاست کے اندر ایک فیصلہ کن موڑ ہوگا۔ مجھے شریف خاندان کے اقتدار کا سورج مجھے ڈوبتا ہوا نظر آتا ہے اس کا فائدہ پی ٹی آئی کو ہوگا۔ جماعت اسلامی بھی مقدمے میں مدی تھی۔ اس لیے اس کے بعد جماعت اسلامی کوبھی فائدہ ہوگا۔
nn