(علاج کے نام پر ملٹی نیشنل کمپنیوں کو لوٹ مار کی اجازت (ڈاکٹر خالد مشتاق

امریکہ نے شام میں بچوں، عورتوں پر کیمیائی حملہ کرنے والوں کو سبق سکھادیا۔ مسلمان ممالک کے عقلمند ذمہ دار امریکہ کو اپنا نجات دہندہ سمجھنے لگے، اور امریکی حکومت کو انسانوں کا دوست قرار دے دیا۔
آپ کو یہ جان کر حیرانی ہوگی کہ امریکی حکومت پچھلے سو سال سے امریکہ کے بچوں، عورتوں، بزرگوں، نوجوانوں پر کتنا ظلم کررہی ہے۔ بلکہ مریضوں پر کیے جانے والے مظالم کے لیے تو قانون سازی بھی کی گئی ہے۔ اب اگر قانون کے مطابق ظلم کیا جائے تو اسے کسی عدالت میں بھی چیلنج نہیں کیا جاسکتا۔
امریکہ میں ایک بڑا ادارہ جو سوسال سے زائد عرصے سے کام کررہا ہے، FDAکہلاتا ہے۔فوڈ اور ڈرگ ایڈمنسٹریشن (FDA)کی بنیاد1848ء میں پڑی جب ایک سائنس دان لوئسن نے زرعی مصنوعات کے کیمیائی تجزیے کا آغاز کیا، لیکن اس کا باقاعدہ آغاز1906ء میں ہوا۔ اب تمام دوائیں، ٹوتھ پیسٹ، شیمپو وغیرہ کی تصدیق بھی FDA کرتی ہے۔
FDA کے کمپنیوں سے بھاری فیس لینے کے اختیار کو قانون بنادیا گیا ہے۔ اب FDA کسی کمپنی کی دوا کو دیکھنے، اپنے 15000 ملازمین کی ماہوار تنخواہ، 150دفاتر کے اخراجات سب ان کمپنیوں سے لے سکتی ہے جو اپنی دوا یا مصنوعات کی منظوری کرانے کے لیے درخواست دیں۔ PDUFA کاقانون 1992ء میں منظور کیا گیا، جس کے تحت دوا ساز کمپنیاں راضی ہوگئیں کہ وہ FDA کو بھاری رقم دیں گی۔ اس طرح اس ادارے کو سرمایہ دارانہ نظام نے سپورٹ کرنا شروع کیا۔ اس کے لیے قانون سازی شروع کی گئی۔ اگر کسی بھی کھانے پینے کی چیز یا کسی دوا کی FDA منظور کردے تو وہ ٹھیک ہے، چاہے وہ کتنی ہی آپ کو ناپسند ہو۔ FDA کا فرمان سب کو ماننا پڑتا ہے۔ آپ اپنی مرضی سے کوئی چیز نہ تو فروخت کرسکتے ہیں نہ خرید سکتے ہیں، نہ اپنی مرضی سے علاج کرا سکتے ہیں۔
آپ کو کسی چیز کے لیے FDA کی تصدیق چاہیے۔ تصدیق کے نام پر کس طرح انسانوں کو غلام بناکر ان سے رقم وصول کی جاتی ہے اور اس جدید ’’بھتا خوری‘‘ سے انسانوں کا مال لوٹا جاتا ہے۔ ڈاکا، وہ بھی عزت دار بن کر ڈالاجاتا ہے۔ آپ ڈاکوکو طے کردہ رقم دیں، وہ آپ کو سر ٹیفکیٹ دے دے گا۔ آپ عزت والے ہوگئے اور اس سر ٹیفکیٹ کی بنیاد پر آپ جو بھی لوٹ مار کریں، آپ کو اس کی اجازت ہے۔ ایسی اتھارٹی کا سرٹیفکیٹ دکھادیں۔جو ’’مہذب ڈاکو‘‘ بن گئی ہے۔
اس وقت یہ ہمارا موضوع نہیں لیکن ایسے بہت سے ادارے FDA کو دیکھ کر وجود میں آئے۔
امریکہ کے معروف صحافیوں اور مختلف یونیورسٹیوں، میڈیکل اداروں اور تحقیقی اداروں کے نمایاں سائنس دانوں نے اس صورت حال کو بے نقاب کیا ہے۔ مشہور مصنف اور ڈاکومنٹری ٹی وی ڈائریکٹر G Adward Grifin نے اپنی کتاب World without Cancer میں ان سازشوں اور امریکی ادارے FDA اور حکومت کے دیگر نمائندہ تحقیقی اداروں کی زیادتیوں کے خلاف آواز اٹھائی ہے کہ FDA کس طرح امریکی سرمایہ دارانہ نظام کو سپورٹ کرتی ہے اور امریکی نظام FDA کے ذریعے لوگوں کو غلام بناتا ہے۔
سرمایہ دارانہ نظام شیطان کا تخلیق کردہ نظریہ ہے۔ اس لیے FDA عمل سے یہ ثابت کرتی ہے کہ اللہ کی بنائی ہوئی چیزوں کی اہمیت نہیں۔ وہ قدرتی سادہ بنی ہوئی غذائی اشیاء پر جو آسان سستا طریقہ ہے جس سے انسان لاکھوں سال سے فائدہ اٹھا رہا ہے، پر پابندی لگاتی ہے۔ لوگوں کو مجبور کرتی ہے کہ وہ FDA سے تصدیق شدہ ادارے کی چیزیں خریدیں، ان ہی دواؤں اور طریقہ علاج کو اختیار کیا جائے جو FDA سے تصدیق شدہ ہیں۔
اس بات کو ایک مثال سے سمجھا جاسکتا ہے ‘ریسرچ کے بعد امریکہ میں یہ تھیوری پیش کی گئی کہ کینسر کی وجہ خاص وٹامن کی کمی ہوتی ہے، اور اگر اس وٹامن کی کمی کو پورا کردیا جائے تو کینسر کے مریضوں کو فائدہ ہوتا ہے، بیماری میں کمی آجاتی ہے اور مریض شفایاب ہوجاتے ہیں۔
اگر اس حقیقت کو صحیح مان لیا جائے تو کینسر کا علاج بہت سستا اور آسان ہوگیا۔ لیکن FDA نے اس تحقیق کو ماننے سے انکار کردیا۔ اس تحقیق کے نتائج کو صحیح تسلیم کرلیا جائے تو پھر تو کینسر کے علاج کے لیے قدرتی پھل دنیا بھر میں موجود ہیں۔ اور ان پھلوں سے وٹامن نکال کر مریضوں کو دینا آسان ہوجائے گا۔ اگر ایسا ہوجائے تو وہ بڑی فارما سیوٹیکل کمپنیاں جو ہر سال کروڑوں ڈالر FDA کو دیتی ہیں وہ نہیں دیں گی۔ FDA نے یہ شرط عائد کی کہ آپ ہمارے Protocolsکے مطابق تحقیق کرکے ثابت کریں تو ہم آپ کی درخواست پر غور کرسکتے ہیں۔
FDA کا طریقہ اتنا پیچیدہ ہے اور اتنی زیادہ رقم اس پر خرچ کرنی پڑتی ہے کہ کسی سائنس دان، کسی عام بزنس مین یا کسی ایک ملکی کمپنی کے لیے ممکن ہی نہیں کہ وہ اس طریقہ پر کام کرسکے۔ چوہوں پر ریسرچ کے لیے اتنی بڑی لیبارٹری ہو۔ پہلے 100 انسانوں پر، پھر 1000 پر تجربہ کریں۔ یہ بظاہر تو بہت اچھا طریقہ لگتا ہے، لیکن اس کے ساتھ جو شرائط وہ لگاتے ہیں، جتنا زیادہ لکھنے کا مواد (ہزاروں صفحے ہر مرحلے پر) لکھ کر جمع کرائیں، جتنا زیادہ اسٹاف اور پروٹوکول وہ دیتے ہیں اس کے لیے صرف کروڑوں ڈالر رکھنے والی کمپنی یا سرمایہ دار ہی کسی دوا کی منظوری کی درخواست FDA کو دے سکتے ہیں۔
یہ شرط یہ بھی ہے کہ ان 10 ہزار صفحات کی رپورٹس کو ہم اپنے معیار (Criteria) پر چیک کریں گے۔ اس مثال سے سمجھیں کہ اگر کوئی طالب علم یا ادارہ 10 ہزار صفحات پر مشتمل اپنی رپورٹ کسی بورڈ کو چیک کرنے کے لیے دے، اس کی تیاری پر وہ کئی کروڑ خرچ کرچکا، اب بورڈ کے ممتحن Examinersکو چیک کرنے کی فیس ملین ڈالروں میں دے تو نتیجہ کیا آئے گا۔ طالب علم کا رزلٹ/ادارہ کا رزلٹ منفی آنے کے کتنے امکان ہیں۔ ظاہر ہے مثبت آئے گا۔ اگر کوئی تعلیمی ادارہ ہمارے ملک میں یہ رویہ اختیار کرے تو اسے کرپشن یا رشوت نہیں کہیں گے تو اورکیا کہیں گے!
دوسری مثال:FDA سے کوئی کمپنی Natural Fruit (قدرتی پھل)، بیج، غذا کے ذریعے علاج کے حوالے سے منظور کرانے کی درخواست نہیں کرے گی۔ کیونکہ اگر ریسرچ کے بعد کسی سائنس دان یا کسی میڈیکل لیبارٹری نے یہ معلوم کرلیا کہ اس غذا کا یہ فائدہ ہے۔ مثال کے طور پر وٹامن B17 ماڈرن انسانوں کی غذا میں نہیں پایا جاتا۔ اس کے لیے ایک چیز Lactrile (دوا) بنائی گئی جسے کینسر کے علاج کے لیے استعمال کیا جانے لگا۔
اس کے لیے FDA کو درخواست دی لیکن اس نے نہ صرف یہ کہ درخواست کو مسترد کردیا بلکہ پابندی لگادی کہ کوئی فرد نہ تو اس دوا کو بیچ سکتا ہے نہ خرید سکتا ہے۔
امریکہ کے علاوہ دوسرے ممالک میں اس دوا کو استعمال کیا جانے لگا،FDA نے اس پر پابندی لگوا دی کہ علاج صرف ان دواؤں سے کروانا ہے جن کی FDA سے منظور شدہ ہیں۔ آپ اپنے بچے یا رشتہ دار مریض کا علاج امریکہ سے باہر لے جاکر بھی نہیں کرا سکتے۔ FDA نے قانونی طور پر لوگوں کی آزادی سلب کرلی ہے۔علاج پر اتنی سخت کی کہ لوگ مریضوں کے علاج کے لیے غیرقانونی طریقے اختیار کرنے لگے۔ مثال: 1977ء میں یہ واقعہ پیش آیا کہ Chad Green نامی فیملی کے ایک بچے کو لیوکیمیا تشخیص ہوا۔ میساچوسٹس کے ڈاکٹر نے اسے کیمو تھراپی دینے کا مشورہ دیا۔ Chad Green خاندان نیوٹریشن تھراپی سے علاج کرانا چاہتے تھے۔ FDA کا اتنا خوف تھا کہ انہوں نے اپنے بچے کو اغوا کیا اور اغوا کرکے میکسیکو لے گئے تاکہ اپنی مرضی سے اپنے بچے کا علاج کراسکیں۔
یہ کہانی اخبارات میں آئی کہ لوگ FDA کے ڈر سے اپنے بچوں کے اغوا کا ڈراما بھی رچاتے ہیں تاکہ وہ علاج اپنی مرضی سے کرا سکیں۔ قانونی طور پر وہ یہ کام نہیں کرسکتے۔
(جاری ہے)