بے وزن ماحول میں کم سے کم جگہ کا استعمال کرتے ہوئے پھل اور سبزیاں اگانے کے تجربات امریکی خلائی ادارہ ’’ناسا‘‘ نے بہت پہلے کر لیے تھے۔ ان ہی تجربات کو پیش نظر رکھ کر ایک امریکن کمپنی نے ایسی ٹیکنالوجی وضع کی ہے جس کی مدد سے ایسی الماریاں تیار کی گئی ہیں جن میں روزمرہ استعمال کی سبزیاں اور سلاد وغیرہ بہ آسانی اگائی جا سکتی ہیں۔ اسی مناسبت سے ان الماریوں کو ’’وال فارمز‘‘ یعنی دیوار گیر کھیت کا نام دیا گیا ہے۔ ان مختصر کھیتوں کی تیاری میں نینو ٹیکنالوجی کی مدد سے ایسے مادے تیار کیے گئے ہیں جو پودوں کو ضرورت کے مطابق پانی، کاربن ڈائی آکسائیڈ اور دوسرے اہم غزائی اجزا کی مطلوبہ مقدار فراہم کرتے رہتے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق وال فارمز میں اگائی گئی سبزیوں میں وٹامن (حیاتین) کی مقدار زیادہ ہوتی ہے اور وہ مٹی میں اگائی جانے والی سبزیوں سے 30 فیصد زیادہ تیزی سے نشوونما پاتی ہیں۔
(بحوالہ منصف، حیدرآباد، 2 اکتوبر 2016ء)
خوشامد
میں کار جہاں سے نہیں آگاہ، و لیکن
ارباب نظر سے نہیں پوشیدہ کوئی راز
کر تو بھی حکومت کے وزیروں کی خوشامد
دستور نیا اور نئے دور کا آغاز
معلوم نہیں ہے یہ خوشامد کہ حقیقت
کہہ دے کوئی الوکو اگر ’’رات کا شہباز‘‘
1۔ اگر چہ میں دنیا کے کاموں سے واقف نہیں، لیکن ظاہر ہے کہ اہل نظر سے کوئی بھید چھپا نہیں رہ سکتا۔
2۔ نیا دستورجاری ہو گیا۔ نیا دور آگیا۔ تو بھی وزیروں کی خوشامد کر کے کوئی عہدہ، منصب یا جاگیر یلے لے۔
یہ نظم 1935ء میں لکھی گئی تھی، جب وہ دستور منظور ہو چکا تھا، جسے ہمارے ہاں صوبائی خودمختاری کا دستور کہا گیا، لیکن اس کے لیے انتخابات 1936ء کے آخر میں ہوئے تھے اور اپریل 1937ء سے وہ جاری ہوا۔ یا تو یہ سمجھنا چاہیے کہ اقبال نے اسی دستور کو سامنے رکھ کر یہ شعر کہا یا یہ سمجھنا چاہیے کہ یہ شعر دو عملی کے نظام سے متعلق ہے۔ جو 1921ء سے اپریل 1937ء تک جاری رہا۔ اس میں بھی وزیر ہوتے تھے۔
3۔ البتہ یہ مجھے معلوم نہیں کہ اگر کوئی شخص الو کو رات کا شہباز قرار دے دے تو یہ خوشامد ہو گی یا حقیقت؟
مراد یہ ہے کہ وزیروں کو عہدے اور منصب کے لحاظ سے تو بہت بڑا سمجھا جاتا ہے، لیکن یہ امر غور طلب ہے کہ آیا انہیں حقیقت میں وزیروں کے سے اختیارات حاصل ہیں کہ نہیں؟ اقبال کے نزدیک ان کی کیفیت وہی ہے جیسے الو کو رات کے وقت کا شہباز کہہ دیا جائے۔ یہ بظاہر خوشامد ہو گی، اس لیے کہ بہت بڑا لقب دے دیا گیا۔ غور سے دیکھا جائے تو حقیقت ہو گی۔
کردار کے غازی
ایک مرتبہ حضرت عمرؓ گشت کرتے ہوئے مدینے سے تین میل دور نکل گئے۔ دیکھا کہ ایک عورت چولہے پر دیگچی رکھے کچھ پکار رہی ہے اور اس کے دو تین بچے بلک بلک کر رو رہے ہیں۔ آپ خیمے کے ایک طرف کھڑے دیکھتے رہے۔ جب کافی وقت گزر گیا تو آپ نے عورت سے پوچھا ’’بڑی بی! آپ اتنی دیر سے کیا پکا رہی ہیں؟‘‘ وہ بولی ’’یہ دیگچی خالی ہے، اس میں صرف پانی اور کنکریاں ہیں اور ان کو کھولا رہی ہوں تا کہ اس بہانے سے یہ بچے سو جائیں اور جب صبح ہو تو ان کے پیٹ بھرنے کی کوئی راہ نکالی جائے‘‘۔
یہ سن کر حضرت عمرؓ فوراً گھر کی طرف دوڑے۔ گھر پہنچ کر بیت المال میں سے کچھ آٹا، کھجوریں اور گھی ایک بوری میں بھرے اور کچھ نقد روپے لیے۔ بوری کمر پر لاد کر جنگل کی طرف جانے لگے تو آپ کے غلام اسلم نے کہا ’’لائیے حضرت میں پہنچا دوں‘‘۔
آپؓ نے فرمایا: ’’کیا تم کل قیامت کے دن میرا بوجھ اٹھا سکو گے؟ اگر تم کل میرا بوجھ نہیں اٹھا سکتے تو آج کیوں اٹھاتے ہو‘‘۔
اپنی پیٹھ پر بوری لاد کر اس خیمہ تک لے گئے۔ دیگچی صاف کر کے اس میں آٹا، کھجوریں اور گھی ڈال کر ملایا اور دیگچی چولھے پر رکھ دی۔ ایک ہاتھ سے دیگچی چلاتے جاتے اور ایک ہاتھ سے آگ جلاتے جاتے۔ دھواں آپ کی آنکھوں اور ناک کے نتھنوں میں داخل ہوتا مگر آپ بچوں کی بھوک کے خیال سے بہت جلد کھانا تیار کر کے انہیں کھلانا چاہتے تھے۔
کھانا تیار کر کے آپ نے اپنے ہاتھوں سے بچوں کو کھلایا، اطمینان کا سانس لیا اور پھر واپس جانے لگے۔
عورت نے کہا: ’’امیر المومنین تو آپ جیسا شخص ہونا چاہیے تھا جو لوگوں کی اس طرح خدمت کرتا ہے۔ نہ جانے عمرؓ کو کس نے خلیفہ بنا دیا۔ اس نے آج تک ہماری کوئی خبر ہی نہ لی‘‘۔
آپ نے خاموشی سے اس کی باتیں سنیں اور کہا ’’تم کل مدینے آجانا۔ میں خلیفہ سے تمہارا وظیفہ مقرر کرا دوں گا‘‘۔ یہ کہا اور چلے گئے۔
اگلے روز بڑھیا مدینے پہنچی۔ لوگوں سے معلوم کرتے کرتے خلیفہ کے گھر آئی اوریہ دیکھ کر حیران رہ گئی کہ کل انتہائی بے باکی کے ساتھ وہ جس شخص سے گفتگو کر رہی تھی، وہی سادہ مزاج انسان مسندِ خلافت پر متمکن ہے۔ عورت اپنے کیے پر گھبرانے لگی مگر آپ نے اس کی ڈھارس بندھائی اور اس کا روزینہ مقرر کر دیا۔
حاصل مطالعہ
تہذیب و ثقافت
حسن مثنی ندوی
ماضی میں ہر کام اور ہر اقدام تہذیب و اخلاق کے دائرے میں رہ کر کیا جاتا تھا، ہر کام، خواہ تجارت ہو، خواہ صحافت و سیاست، ہمیں ابتدا سے یہ تلقین کی جاتی تھی کہ تہذیب سیکھو خوش اخلاق بنو، اور تہذیب ہمیں سکھائی جاتی تھی، یہ خود سے نہیں آتی۔ خوش اخلاقی کی ہمیں تعلیم دی جاتی تھی، باادب بننے کی مشق کرائی جاتی تھی، مگر اب معلوم ہوتا ہے جیسے گردوپیش کے اچر سے اس کے مفہوم و معنی کی کڑیاں ٹوٹنے اور بکھرنے لگی ہیں، اور یہ کچھ آج کی بات نہیں ہے، قیام پاکستان سے پہلے، بہت پہلے، اصولوں کی گرفت ڈھیلی پڑنے لگی تھی، اکبر الہٰ آبادی نے 1921ء میں انتقال کیا تھا انہوں نے کہا تھا:
’’خرابی، بے اصولی، تفرقہ اس کا نتیجہ ہے، تماشائی ہیں’’وہ‘‘ ان کے لیے ’’ہم‘‘ اک تماشا ہیں اگر یہ کہا جاتا تھا کہ ’’وہ باادب ہے‘‘ ہنس مکھ ہے ملنے جلنے‘‘ میں اس کا انداز ’’اچھا ہے‘‘ تو اس کا مطلب یہ ہوتا تھا کہ وہ اگر اسی روش پر قائم رہا تو ’’آدمی‘‘ بن جائے گا۔ آدمی تو بہت ملتے ہیں مگر آدمی نہیں ملتا۔ یعنی ’’آدمی نما‘‘ تو ہے ’’آدمی‘‘ نہیں ہے۔ ’’آدمی‘‘ کو ’’مہذب‘‘ کہتے تھے ’’آدمی نما‘‘ کو نہیں۔ آج کل تہذیب اور ثقافت کے الفاظ رائج تو بہت ہیں۔ لیکن تہذیب اور ثقافت کے مفہوم و معنی کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ تہذیب کے معنی میں ’’سنور جانا‘‘ یعنی جو کیفیت اس کے ’’اندرون‘‘ میں پیدا ہوجانی چاہیے وہ پیدا ہو گئی، یہی مفہوم ثقافت کا ہے تہذیب اور ثقافت دونوں عربی زبان کے الفاظ ہیں، جس شخص کے اندر تہذیب و ثقافت پید اہو جاتی ہے اسے ’’مہذب‘‘ اور ’’مُشقَّف‘‘ کہتے ہیں، مگر اسے نہ بھولیے گاکہ تہذیب و ثقافت پید اکرنے سے پیدا ہوتی ہے۔ خودبخود پیدا نہیں ہو جاتی۔ اکبر الہٰ آبادی کا ایک طنزیہ شعر پھر یاد آیا:
ہوئے اس قدر مہذب، کبھی گھر کا منہ نہ دیکھا
کٹی عمر ہوٹلوں میں، مرے اسپتال جا کر
ثقافت کے اصل مفہوم کو سمجھیے، بانس کا ایک جنگل ہے جسے ’’بنواڑی‘‘ کہتے ہیں، وہاں سے ایک چھڑکاٹ کے لانی ہے اور ایک مضبوط نیزہ تیار کرنا ہے، اگر اس میں لوہے کا ایک خوبصورت سا چمکدار پھل لگاکر آپ نے سمجھ لیا کہ نیزہ تیار ہو گیا تو یہ میدان کارزار میں آپ کو صاف دغا دے جائے گا۔ آپ دشمن کا نشانہ بن جائیں گے، وہ چھڑ کسی نہ کسی گرہ سے ٹوٹ جائے گی۔ اس کی تہذیب و ثقافت کے لیے ضروری ہے کہ بنواڑی سے کاٹ لانے کے بعد اس کو پانی میں ڈال دیا جائے۔ پانی میں پڑے پڑے اس کے تمام ریشے بھگیں اور پھولیں اور پھول کر ایک دوسرے گتھ جائیں اس کی گرہیں مضبوط ہو جائیں، پھر اس کی گرہیں چھیلی جائیں پھر اس چھڑ میں تیل پلایا جائے اور آگ تپایا جائے۔ اس طرح مختلف مرحلوں سے گزرنے کے بعد ایک خاص انداز کی لچک اس چھڑ کے اندر پیدا ہو جاتی ہے اس کے تمام گرہیں مضبوط ہو جاتی ہیں اور میدان جنگ میں اس کو جس طرح بھی استعمال کریں یہ چھڑ کبھی آپ کو دغا نہیں دے گی۔ اوریہ کیفیت جب اس کے اندر پیدا ہو جاتی ہے تو اس کو ’’مُشقَّف‘‘ کہتے ہیں، اس طرح آدمی جب تہذیب کے مختلف مراحل سے گزرتاہے تب ’’آدمی‘‘ بنتا ہے اور اس کو ’’مہذب‘‘ کہا جاتا ہے، آدمی تہذیب کی نقل کر لینے سے مہذب ہیں ہوتا۔ نقال کو صرف منافق کہا جائے گا۔ بچے کو آپ نے دیکھا ہو گا وہ پیدا ہوتے ہی آدمی نہیں بن جاتا۔ وہ توانائیوں کا مجموعہ تو ہوتا ہے مگر توانائیاں اس کے اختیار میں نہیں ہوتیں، آنکھیں رکھتا ہے مگر دیکھنا نہیں جانتا۔ اس کی پتلیاں ناچتی رہتی ہیں، ماں اس کو بار بار اپنی متوجہ کرنے کے لیے جو اشارے کرتی ہے اس کی ناچتی ہوئی پتلیوں کو اپنے چہرے پر جمانے کے لیے کرتی ہے، اسے اپنی پتلیوں کو کسی چیز پر جمانا اور دیکھنا اسے خود ہی نہیں آتا سکھایا جاتا ہے اسی طرح سننا اور بولنا تک اسے سکھایا جاتا ہے بلکہ ہر بات اس کو سکھائی جاتی ہے، کپڑے پہننا، اٹھنا بیٹھنا، کھانا پینا اور چلنا پھرنا اور تمام آداب اس کو سکھائے جاتے ہیں تب وہ آدمی بنتا ہے، اسی کا نام تہذیب ہے، تثقیف ہے، تادیب، اعمال کی اچھائیوں کا اسے عادی بنایا جاتا ہے۔ ادب کہتے ہی نفس کی اس مشق و ریاضیت کو ہیں جو تعلیم و تربیت اور تہذیب و تادیب کے ذریعے سے آتی ہے۔ ’’ریاض‘‘ کے لفظ سے آپ واقف ہیں، اس نے بڑا ریاض کیا ہے تب اس کو گانے کے قواعد پر گرفت حاصل ہوئی ہے۔ ستار بجانے کا فن اس کو آیا اور اس میں مہارت پیدا ہوئی ہے آپ جانتے ہیں کہ کوئی آدمی موسیقی کا یا ستار بجانے کا ماہر پیدا نہیں ہوتا، اسی طرح تہذیب بھی ریاض کے بغیر حاصل نہیں ہوتی۔ سنورنے اور سنوارنے کی مشق کی جاتی ہے تب حسن ’’نکھرتا‘‘ ہے، یہی حال شعر گوئی کا اور مضمون نویسی کا ہے۔
[کچھ یادیں کچھ باتیں/ شعبہ ابلاغ عامہ کاجریدہ ’’ابلاغ‘‘ ماہ اشاعت مئی 1996]
’’سب سے پہلے میرے لیے ضروری ہے کہ میں مصر کے قانون ملکی کے بارے میں اپنا موقف واضح کر دوں۔ اس میں شک نہیں کہ بحیثیت ایک جج کے میں اس قانون کی محافظت، مدافعت اور تنقفیذ کا ذمہ دار ہوں اور مجھ سے توقع یہ کی جاتی ہے کہ میں اس قانون کی جیسا کچھ بھی یہ ہے، صرف تعبیر و تطبیق کروں۔ لیکن قانون ہی کی خاطر میں موجودہ قوانین پر تنقید کرنے پر مجبور ہوں۔ کیا ایک جج اس بات کو ٹھنڈے پیٹوں برداشت کر سکتا ہے کہ ایک ملک کے دستور میں تو یہ دفعہ درج ہو کہ ریاست کا دین اسلام ہے لیکن اس کی حکومت اور حکمران اسلام کی کھلم کھلا خلاف ورزیاں کریں۔ خامانِ اسلام کے خون کے پیاسے بن جائیں، تعاون علی البروالتقوی کی خواہش رکھنے والوں کو نشانہ ستم بنائیں۔ جج ایسے حالات میں غیر جانبدار رہ سکتا ہے جب کہ پورا ملک اخلاقی فضائل و محاسن سے عاری ہوتا جارہا ہو، اور دیانت اور حسن اخلاق کا نام و نشان مٹ رہا ہو۔ اگر میں ایک غیر مسلم جج ہوتا تو میری زبان قوانین حاضرہ کی حمد میں اسی طرح تر ہوتی جس طرح یورپ والوں کی زبانیں ہیں۔ اگر میں جاہل مسلمانہ وتا، تب بھی میں مغربی اقوام کی تقلید کیے جاتا۔ لیکن مجھ پر اللہ تعالیٰ کا یہ فضل ہے کہ میں ایک مسلمان جج ہوں جسے اسلام کا علم بھی حاصل ہے اور جو موجودہ قوانین اور قوانین ؟؟؟ کے فرق کو بھی جانتا ہے‘‘۔
عبدالقادر عودہ شہیدؒ
ایک کہانی
حد نگاہ تک پھیلی ہوئی زمین سامنے موجود تھی۔ کہیں ہریالی، کسی جگہ خش زمین، درخت ادھر ادھر بکھرے ہوئے، پرندے محو پرواز، ہوا اٹھکیلیاں کرتی ہوئی، نیلا آسمان، رو پہلی دھوپ، صاف اور روشن دان۔ اللہ کا ایک بندہ یہ سب کچھ دیکھتا ہوا اپنے سفر پر جارہا تھا۔ ایک لاٹھی اور ایک پوٹلی ہمراہ تھی۔ فطرت کا حسن آنکھوں کو ٹھنڈک پہنچا رہا تھا اور اللہ تعالیٰ کی بے حد و حساب نعمتوں کا احساس دل میں گداز پیدا کر رہا تھا۔
ایسے عالم میں اس نے دیکھا کہ ایک جگہ دو انسان آپس میں جھگڑ رہے ہیں۔ وہ انک ی طرف بڑھا۔ انہیں سلام کہا۔ انہوں نے اسے دیکھا وعلیکم السلام کہا، اور پھر اپنی بحث میں لگ گئے۔
’’زمین کا یہ ٹکرا میرا ہے۔ تم ادھر سے ناپ دیکھو، یہ زمین میرے حصے میں آئی ہے‘‘۔ ایک کہہ رہا تھا۔
’’تم غلط کہتے ہو، یہ ٹکڑا میرے حصے میں آرہا ہے‘‘۔ دوسرے کا لہجہ بھی سخت تھا۔
وہ چپ چاپ کھڑا ان کی گفتگو سنتا رہا۔ جب رات طول کھینچنے لگی تو اس نے کہا :’’کیا میں آپ کی کچھ مدد کر سکتا ہوں؟‘‘
’’آپ؟ آپ کیا مدد کریں گے؟ جھگڑا ہمارا ہے‘‘۔ ایک نے کہا۔ دوسرے کا انداز ایسا تھا کہ اگر وہ کچھ کہتا تو شاید وہ بھی یہی کہتا۔
’’میرا خیال ہے، اگر آپ مجھے اجازت دیں تو کوشش کر سکتا ہوں‘‘۔ مسافر نے دوبارہ کہا۔
دونوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔ پھر جیسے دونوں کسی حد تک قائل ہو گئے۔ ایک کہا ’’چلیے، آپ فیصلہ کریں‘‘۔
دوسرے نیبھی سر ہلایا: ’’ٹھیک ہے۔ آپ کچھ فرمائیں۔
مسافر نے اپنی پوٹلی نیچے رکھتے ہوئے کہا: ’’کیوں نہ ہم زمینہی سے اس بارے میں دریافت کر لیں‘‘۔
دونوں حیرت سے ایک دوسرے کو دیکھنے لگے۔ مسافر نے اپنی لاٹھی سے زمین پر دستک سی دی اور کہا: ’’اے زمین! تیری وجہ سے خدا کے دو بندوں میں لڑائی کا خدشہ ہے۔ تو بتا تو ان دونوں میں سے کی ملکیت ہے؟‘‘
اس کے ساتھ ہی ہو جھکا اور اپنے کان زمین سے لگا دیے، جیسے کچھ سن رہا ہو۔ تھوڑی دیر بعد سر اس طرح ہلایا جیسے بات سمجھ میں آگئی ہے۔ پھر وہ اٹھ کھڑا ہوا۔
’’بھائیو‘‘! اس نے کہا: ’’زمین کہتی ہے کہ میں دونوں میں سے کسی کی نہیں، بلکہ یہ دونوں میرے ہیں۔ ہر انسان کو میرے اندر آنا ہے، میں کسی کی جیب میں نہیں جاؤں گی‘‘۔
یہ کہہ کر مسافر نے اپنی پوٹلی اٹھائی، انہیں سلام کہا اور اپن لاٹھی لیے سفر پر چل پڑا۔
نیلا آسمان دور دور تک پھیلا ہوا تھا۔ پرندے محو پرواز تھے۔ دھوپ خوشگوار تھی اور ہوا متوازن۔ اللہ کا ایک بندہ اپنے سفر پر جارہا تھا۔ اور ایک جگہ دو انسان بیٹھے آپس میں باتیں کر رہے تھے۔ ان کی لہجوں میں نرمی اور محبت تھی۔ وہ یوں مصروف گفتگو تھے جیسے بات ان کی سمجھ میں آگئی ہے۔
[آئین، لاہور۔ شمارہ دسمبر 1987ء]