(پیپلز پارٹی کی قیادت نے لاہور میں ڈیرے ڈال لیے ہیں(سید تاثیر مصطفی

اپریل کا پہلا عشرہ پیپلزپارٹی کی مرکزی قیادت نے پنجاب میں گزارا۔ سابق صدر آصف علی زرداری، پیپلزپارٹی کی مستقبل کی واحد امید بلاول بھٹو زرداری اور اُن کی بہنیں لاہور میں موجود رہیں۔ اس دوران آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو عوامی تقریبات سے بھی خطاب کرتے رہے، پریس کانفرنسوں میں بھی اپنا نقطہ نظر بیان کرتے رہے اور میڈیا/ پریس ٹاکس میں بھی خاصے سرگرم نظر آئے۔ بلاول بھٹو نے کھاریاں میں پیپلزپارٹی کے رہنما قمر زمان کائرہ کی بیٹی کی شادی میں بھی شرکت کی۔ اس عرصے کے دوران آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو نے پارٹی کے مقامی رہنماؤں سے بھی ملاقاتیں کیں اور اُن سے پنجاب میں پارٹی صورتِ حال کو سمجھنے کی کوشش کی۔ یہ تو معلوم نہیں ہوسکا کہ آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو نے پنجاب کا دورہ پارٹی کی اعلیٰ قیادت کے مشورے پر کیا، یا ازخود انہوں نے اس کی ضرورت محسوس کی، لیکن لگتا یہ ہے کہ پنجاب میں قیادت کی تبدیلی کے بعد پیپلزپارٹی عوامی سطح پر کچھ سرگرم ہوئی ہے۔ قمر زمان کائرہ اور ان کے ساتھی پارٹی کی سابقہ ساکھ بچانے اور اس کا امیج بہتر بنانے کے لیے خاصی محنت کررہے ہیں اور شاید آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو کا دورۂ پنجاب اُن ہی کی محنتوں کا نتیجہ ہے۔ اِس بار بھی اگرچہ بلاول اور آصف علی زرداری نے لاہور میں طویل قیام کیا اور یہاں بہت سا وقت گزارا، لیکن پیپلزپارٹی کا عام کارکن اِس بار بھی اپنی قیادت سے ملاقات سے محروم رہا۔ اگرچہ پارٹی میں تین بار اقتدار میں رہنے کے بعد بہت سے دیہاڑی باز بھی گھس آئے ہیں، جن میں سے کچھ نے مقامی قیادتوں پر بھی قبضہ کرلیا ہے، لیکن پارٹی کا عام کارکن آج بھی اس انتظار میں ہے کہ اسے پکارا جائے تو وہ پھر میدان میں اتر آئے گا۔ لیکن شاید پارٹی کی مرکزی قیادت کو اس بات کا ادراک نہیں ہے۔ اگر زرداری اور بلاول نے اپنے ناراض کارکنوں کو منا لیا اور گھر بیٹھ جانے والے کارکنوں کو میدان میں لے آئے تو یہ پارٹی ایک بار پھر اپنی حیثیت منوا سکتی ہے۔ اس بات پر تو بحث ہوسکتی ہے کہ کیا اس مشق کے نتیجے میں پارٹی دوبارہ ملک پر یا پنجاب پر حکومت قائم کرسکے گی؟ لیکن یہ بات طے ہے کہ اس کے ایسے کارکن جو پارٹی چھوڑ رہے ہیں وہ کہیں اور جانے سے رک جائیں گے۔
آصف زرداری اور بلاول بھٹو کی پنجاب میں موجودگی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے پیپلزپارٹی نے اپنے بانی ذوالفقار علی بھٹو کی سالگرہ لاہور میں منائی۔ اس موقع پر ایک اجتماع کا بندوبست کیا گیا جس سے خطاب کرتے ہوئے آصف زرداری نے دعویٰ کیا کہ اِس بار پنجاب میں بھی ہماری حکومت ہوگی اور وفاق میں بھی وزیراعظم پیپلزپارٹی کا ہوگا۔ اسی طرح کا دعویٰ بلاول بھٹو نے لاہور میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔ اُن کا کہنا تھا کہ گزشتہ انتخابات میں ہم طالبان کی وجہ سے انتخابی مہم نہیں چلاسکے تھے لیکن اِس بار گھر گھر پارٹی کا پیغام پہنچائیں گے۔ اگرچہ انہوں نے وضاحت نہیں کی کہ یہ پیغام وہ کس طرح پہنچائیں گے، ورکرز کے ذریعے یا میڈیا کے ذریعے؟ لگتا یہ ہے کہ وہ میڈیا کا استعمال کرکے ہی اپنا پیغام پہنچانا چاہتے ہیں جس کا اظہار انہوں نے ذوالفقار علی بھٹو کی سالگرہ کے موقع پر کردیا۔
اِس بار پیپلزپارٹی نے اہتمام کرکے ذوالفقار علی بھٹو کے بڑے بڑے سپلیمنٹ اخبار میں شائع کرائے۔ اس مقصد کے لیے اخبارات کو بڑے بڑے اشتہارات دیے۔ زیادہ تر اشتہارات سندھ حکومت کے تھے۔ بدقسمتی سے اس ملک میں کوئی ادارہ ایسا نہیں جو سیاسی جماعتوں سے پوچھے کہ وہ اپنی پارٹی کی تشہیر کے لیے سرکاری اشتہارات کیسے استعمال کرتی ہیں۔ حالانکہ اس صریح جرم پر ان کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے، لیکن نہ تو الیکشن کمیشن اس بارے میں پوچھتا ہے، نہ کوئی دوسرا ادارہ اس کا نوٹس لیتا ہے، اور نہ مخالف سیاسی جماعتیں اس پر پارلیمنٹ میں سوالات اٹھاتی ہیں۔ شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ خود بھی یہی کام کرتی ہیں۔ پنجاب میں مسلم لیگ (ن) سرکاری اشتہارات کے ذریعے اپنی پارٹی اور شریف خاندان کی تشہیر کررہی ہے۔ ہر سرکاری اشتہار پر نوازشریف اور شہبازشریف کی تصاویر ہیں۔ صوبائی حکومت کے اشتہارات پر وزیراعلیٰ شہبازشریف کی تصویر کا تو کوئی جواز دیا جاسکتا ہے لیکن نوازشریف کی تصاویر کا کیا مقصد ہے؟ یہ واضح طور پر مسلم لیگ (ن) کی تشہیر ہے، لیکن کوئی اس پر گرفت نہیں کرتا۔ کبھی کبھی عمران خان اس کا تذکرہ کردیتے ہیں، وہ بھی سنجیدگی سے اس پر کوئی کارروائی نہیں کرتے۔ شاید صوبہ خیبر پختون خوا میں ان کی حکومت بھی ایسا ہی کررہی ہو۔
موجودہ صورتِ حال میں پنجاب میں انتخابی مہم تیز ہوتی جارہی ہے۔ پیپلزپارٹی کی قیادت کے لاہور میں ڈیرے اور پنجاب بھر کے دورے اسی سلسلے کی کڑی ہیں، اور اس کے نتیجے میں پیپلز پارٹی کے کچھ کارکن باہر بھی آئے ہیں۔ دوسری جانب تحریک انصاف کا کارکن پنجاب میں بہت زیادہ متحرک ہے۔ خود عمران خان، چودھری سرور اور دیگر رہنما بھی صوبے کے مختلف شہروں میں ورکرز کنونشن کرکے اپنے کارکن کو متحرک کررہے ہیں۔ اگرچہ گزشتہ عام انتخابات اور حالیہ بلدیاتی انتخابات میں تحریک انصاف کو پنجاب میں کوئی قابلِ قدر کامیابی حاصل نہیں ہوسکی اور بیشتر ضمنی انتخابات میں بھی اسے ناکامی سے دوچار ہونا پڑا، لیکن عمران خان اور ان کے ساتھی اپنے کارکنوں کو یہ باور کرانے میں کامیاب رہے ہیں کہ ان انتخابات میں حکومتی مشینری کے ذریعے دھاندلی کرکے انہیں ہرایا گیا۔ اس مقصد کے لیے اسٹیبلشمنٹ نے بھی اپنا کردار ادا کیا۔ دراصل وہ اپنے کارکنوں کو یہ یقین دلانے میں کامیاب رہے ہیں کہ پورے ملک کا کرپٹ مافیا عمران خان اور ان کی پارٹی کو انتخابات میں کامیاب نہیں دیکھنا چاہتا، وہ سمجھتا ہے کہ تحریک انصاف کی کامیابی اس کی موت ہے۔ یہ بات درست ہو یا غلط، لیکن عمران خان اپنے کارکنوں کو یہ باور کرا چکے ہیں، چنانچہ وہ مایوس ہونے کے بجائے زیادہ متحرک ہوگئے ہیں اور اسی جذبے کے تحت تحریک انصاف کے کارکنوں نے کنٹونمنٹ بورڈ لاہور کی ایک نشست کا حالیہ ضمنی انتخاب جیت لیا ہے، جس سے انہیں کچھ حوصلہ ملا ہے۔ تیسری جانب حکمران مسلم لیگ (ن) بھی اپنے انداز میں انتخابی تیاریاں کررہی ہے۔ اس کا اصل انحصار اپنے کارکن پر نہیں ہے۔ وہ زیادہ تر انتخاب جیتنے والے امیدواروں کو تلاش کررہی ہے اور اس سلسلے میں اس نے اپنا بیشتر ہوم ورک مکمل کرلیا ہے۔ اِن طاقتور، بااثر امیدواروں (Electables) کے ساتھ وہ میدان میں اترے گی اور انتخابی تکنیک کے ذریعے انتخاب جیتنے کی کوشش کرے گی۔ ماہرین کے مطابق جو پارٹی انتخابی تکنیک کی بنیاد پر انتخاب لڑتی ہے اسے کارکنوں کی کم سے کم ضرورت ہوتی ہے۔ مسلم لیگ(ن) اس وقت میڈیا کو غیرضروری طور پر نواز رہی ہے، بیوروکریسی میں اپنے حامیوں کو تلاش کررہی ہے، عام ووٹروں کو رام کرنے کے لیے مریم نواز ٹوئٹر پر بیٹھ گئی ہیں تاکہ جہاں کہیں لوڈشیڈنگ کی اطلاع ملے وہاں بیوروکریسی کے ذریعے کچھ ریلیف دلوا سکیں۔ وفاقی اورپنجاب حکومت نے ترقیاتی کاموں کی رفتار بھی تیز کردی ہے۔ وہ ضرورت کے مطابق جن کارکنوں کو متحرک کرنا چاہے گی انہیں نواز کر میدان میں لے آئے گی۔ اس ماحول میں جب پیپلزپارٹی کی قیادت کارکنوں کو متحرک کرنے کے بجائے دوروں اور تقریروں کے ذریعے کام چلانا چاہتی ہے اور حکمران مسلم لیگ (ن) تکنیک کی بنیاد پر الیکشن لڑنے کی تیاریاں کررہی ہے، پنجاب میں پیپلزپارٹی کوئی حیرت انگیز نتائج نہیں دے سکے گی۔