ایک مرتبہ حضرت عمرؓ گشت کرتے ہوئے مدینے سے تین میل دور نکل گئے۔ دیکھا کہ ایک عورت چولہے پر دیگچی رکھے کچھ پکا رہی ہے اور اس کے دو تین بچے بلک بلک کر رو رہے ہیں۔ آپؓ خیمے کے ایک طرف کھڑے دیکھتے رہے۔ جب خاصا وقت گزر گیا تو آپؓ نے عورت سے پوچھا ’’بڑی بی! آپ اتنی دیر سے کیا پکا رہی ہیں؟‘‘ وہ بولی ’’یہ دیگچی خالی ہے، اس میں صرف پانی اور کنکریاں ہیں اور ان کو کھولا رہی ہوں تاکہ اس بہانے سے یہ بچے سوجائیں اور جب صبح ہو تو ان کے پیٹ بھرنے کی کوئی راہ نکالی جائے‘‘۔
یہ سن کر حضرت عمرؓ فوراً گھر کی طرف دوڑے۔ گھر پہنچ کر بیت المال میں سے کچھ آٹا، کھجوریں اور گھی ایک بوری میں بھرے اور کچھ نقد روپے لیے۔ بوری کمر پر لاد کر جنگل کی طرف جانے لگے تو آپؓ کے غلام اسلم نے کہا ’’لائیے حضرت میں پہنچا دوں‘‘۔
آپؓ نے فرمایا: ’’کیا تم کل قیامت کے دن میرا بوجھ اٹھا سکو گے؟ اگر تم کل میرا بوجھ نہیں اٹھا سکتے تو آج کیوں اٹھاتے ہو‘‘۔
اپنی پیٹھ پر بوری لاد کر اس خیمے تک لے گئے۔ دیگچی صاف کرکے اس میں آٹا، کھجوریں اور گھی ڈال کر ملایا اور دیگچی چولہے پر رکھ دی۔ ایک ہاتھ سے دیگچی چلاتے جاتے اور ایک ہاتھ سے آگ جلاتے جاتے۔ دھواں آپؓ کی آنکھوں اور ناک کے نتھنوں میں داخل ہوتا مگر آپؓ بچوں کی بھوک کے خیال سے بہت جلد کھانا تیار کرکے انہیں کھلانا چاہتے تھے۔
کھانا تیار کرکے آپؓ نے اپنے ہاتھوں سے بچوں کو کھلایا، اطمینان کا سانس لیا اور پھر واپس جانے لگے۔
عورت نے کہا: ’’امیرالمومنین تو آپ جیسا شخص ہونا چاہیے تھا جو لوگوں کی اس طرح خدمت کرتا ہے۔ نہ جانے عمرؓ کو کس نے خلیفہ بنادیا۔ اس نے آج تک ہماری کوئی خبر ہی نہ لی‘‘۔
آپؓ نے خاموشی سے اس کی باتیں سنیں اور کہا ’’تم کل مدینے آجانا۔ میں خلیفہ سے تمہارا وظیفہ مقرر کرا دوں گا‘‘۔ یہ کہا اور چلے گئے۔
اگلے روز بڑھیا مدینے پہنچی۔ لوگوں سے معلوم کرتے کرتے خلیفہ کے گھر آئی اور یہ دیکھ کر حیران رہ گئی کہ کل انتہائی بے باکی کے ساتھ وہ جس شخص سے گفتگو کررہی تھی، وہی سادہ مزاج انسان مسندِ خلافت پر متمکن ہے۔ عورت اپنے کیے پر گھبرانے لگی، مگر آپؓ نے اس کی ڈھارس بندھائی اور اس کا روزینہ مقرر کردیا۔
شعبی بیان کرتا ہے کہ میں حجاج کے عہدِ امارت میں اس کی عنایت کی بدولت بہت آسودہ حال ہوگیا تھا اور خلفا اور ملوک کے حلقوں میں مشہور۔
جب عبدالرحمن بن اشعث مغلوب اور حجاج فتح یاب ہوا تو میں اس کے انتقام کے ڈر سے مخفی ہوگیا اور دنیا مجھ پر تنگ ہوگئی۔ آخر اس کے سوا کوئی صورت نہ رہی کہ حجاج ہی کی خدمت میں جاؤں اور اس کی ہیبت سے اسی کے دامن میں پناہ لوں۔ یہ سوچ کر میں یزید کے پاس گیا جس سے میرے دوستانہ تعلقات تھے، اس کو سارا حال سناکر امداد چاہی۔ اُس نے مشورہ دیا اور امداد کا وعدہ بھی کیا۔
ایک دن جب حجاج بارگاہ میں بیٹھا تھا، میں نے جا کر سلام کیا۔ اس نے مجھے دیکھا توکہا ’’اے شعبی تُو ایک حقیر آدمی تھا، میں نے تجھے بلند مرتبہ پر پہنچایا، تُو فقیر تھا، میں نے تجھے دولت مند بنایا۔ پھر کیا وجہ ہوئی کہ تُو نے مجھ سے روگردانی اختیار کی، میرے دشمنوں سے جا ملا اور میری حکومت کا تختہ الٹنے کی کوششوں میں حصہ لینے لگا۔ کیا حقِ نعمت اسی طرح ادا کیا جاتا ہے؟‘‘
میں نے عرض کی ’’یا امیر! جان جانے کا خوف ہے اس لیے جو کچھ کہوں گا سچ کہوں گا۔ واقعی میں ایک حقیر شخص تھا اور گوشہ نشین، جسے امیر کی تربیت اور عنایت کے ہاتھ نے اٹھایا اور دنیا میں سربلند کردیا۔ جب میں فقروفاقے کی مصیبت سے چھوٹا تو امیر کی ہیبت و سطوت حد سے زیادہ پھیل رہی تھی۔ مجھ پر خوف طاری ہوا اور میں بے اختیاری کے عالم میٰں لشکر گاہ سے باہر نکل آیا اور اتفاق سے ان لوگوں میں جا پھنسا۔ مخلصی کی کوئی صورت نظر نہ آئی تو وہیں رہ پڑا۔ گو میں نے امکانی حد تک اپنے اخلاص سے امیر کو مطلع کرنے کی کوشش کی اور امیر کے نام رقعہ لکھا جس کا حال غالباً یزید کو بھی معلوم ہوگا‘‘۔ اس پر یزید نے کہا ’’ٹھیک ہے یہ اُس حال میں بھی ہم تک پہنچنے کی کوشش کرتا رہا ہے‘‘۔
حجاج ہنس پڑا اور بولا ’’کیسی عجیب بات ہے۔ کل تو شعبی ہمارے سینے میں خنجر گھونپ رہا تھا اور آج عذر پیش کررہا ہے۔ بہرحال چوں کہ اپنے جرم کا معترف ہے اور سچ کی قدر کرنا بزرگوں کا شیوہ ہے اس لیے معاف کرتا ہوں‘‘۔
چنانچہ اس نے میرا قصور معاف کردیا اور میں حسبِ سابق اس کا مصاحب خاص بن گیا۔
جوامع الحکایات و الوامع الروایات/ اختر شیرانی