(حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سے اعراض کرنے والا آپ کی جماعت میں سے نہیں(پروفیسر عبدالحمید ڈار

سنت کیا ہے؟
اللہ رب العزت نے انسانوں کی رہنمائی کے لیے آسمانی کتب نازل فرمائیں، اور ان کتب میں مذکور ہدایات اور احکامات کی تعبیر و تشریح کے لیے انبیاء علیہم السلام کو مبعوث فرمایا تاکہ وہ اپنی زندگی کے عملی نمونے سے ان کے مفہوم و مدعا کو اس طرح واضح کردیں کہ ہر سطح کی عقل اور سمجھ رکھنے والے شخص کو مرضئ الٰہی معلوم کرنے میں کوئی مشکل اور دقت محسوس نہ ہو، اور دنیا اور آخرت میں کامیابی کی منزل تک پہنچنا اس کے لیے آسان ہوجائے۔ قرآن پاک اللہ کی آخری کتاب ہے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے آخری رسول ہیں۔ اب قیامت تک نہ تو کوئی کتاب اور نہ ہی کوئی اور رسول انسانوں کی ہدایت کے لیے آئے گا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے تمام جہانوں کے لیے رحمت بناکر بھیجا ہے۔ کامیابی اور رحمت و عافیت اب آپؐ کے دامنِ عمل سے وابستہ ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے 23 سالہ نبوی زندگی میں مروجہ کافرانہ اور مشرکانہ نظام زندگی کو بدلنے اور اس کی جگہ قرآن پاک کی ہدایات اور تعلیمات پر مبنی دین کو قائم اور غالب کرنے کے لیے روز و شب انتھک جدوجہد کی۔ اس مقصدِ جلیلہ کے حصول کے لیے آپؐ نے اپنے اصحاب کے فکر و عمل کی تطہیر کی۔ ان کے عقائد و نظریات کو بدلا اور ان کی سیرت و کردار کو مضبوط اور مستحکم بنیادوں پر استوار کرنے کے لیے عبادات کا ایک مربوط نظام عطا کیا۔ اور ان کی اجتماعی زندگی کے ہر شعبے یعنی معاشرت، معیشت، سیاست، اخلاق، فصلِ خصومات یعنی تنازعات کے فیصلے اور بین الاقوامی تعلقات وغیرہ کی منصفانہ قوانین و ضوابط کے ذریعے اصلاح کرکے ایک مستحکم ریاست اور فتنہ و فساد سے پاک ایک مہذب و متمدن معاشرے کو ظہور بخشا۔ اقامتِ دین اور غلبۂ اسلام کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ جدوجہد جو انسانی زندگی کے انفرادی اور اجتماعی ہر دائرے پر محیط ہے، اس جدوجہد کے دوران آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوۂ حسنہ یعنی عملی نمونہ ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے، جس کی پیروی کرنا ہمارے لیے لازم قرار دیا گیا ہے اور اس سے اعراض اور روگردانی وہ سنگین جرم ہے جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ہمارے تعلق کو منقطع کرنے کا باعث بن سکتا ہے۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادِ گرامی ہے: ’’جس نے میری سنت سے محبت کی اس نے مجھ سے محبت کی، اور جس نے مجھ سے محبت کی وہ جنت میں میرے ساتھ ہوگا۔‘‘ (تزکیۂ نفس (اوّل) از مولانا امین احسن اصلاحی، بحوالہ ترمذی)
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سے محبت کا مطلب صحیح معنوں میں پورے خلوص اور وفورِ عقیدت کے ساتھ آپؐ کے طریقے کی پیروی کرنا ہے۔ پیروی اور اتباع کے بغیر محبت محض ایک کھوکھلا دعویٰ بن کر رہ جاتی ہے۔
صحابہ کرامؓ کی اتباعِ سنت محض احکامات اور اوامر ونواہی کی اطاعت کرنے تک ہی محدود نہ تھی، بلکہ وہ نوافل اور مستحبات کے دائرے میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی کامل اتباع کو حرزِ جاں بنائے ہوئے تھے۔ ان کے اس ذوق و شوق اور حسنِ عقیدت سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے ان گنت پہلو اور فضائل و عادات اور معمولات زندۂ جاوید بن گئے ہیں اور سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک حسین گلدستہ اس امت کا نصیب بن گیا ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی وفات سے پہلے بطور وصیت کے فرمایا تھا: ’’میں نے تم میں دو چیزیں چھوڑی ہیں، جب تک تم ان دونوں پر مضبوطی سے قائم رہو گے اُس وقت تک گمراہ نہیں ہوگے‘‘۔ (تزکیۂ نفس (اوّل)، بحوالہ بخاری۔ کتاب الاحکام)
گمراہی کا انجام تباہی و بربادی اور ذلت و رسوائی ہے، اور قرآن و سنت کو مضبوطی سے پکڑنا اور اس پر اس کی روح کے مطابق عمل پیرا ہونا عظمت و عروج کی یقینی ضمانت ہے۔ انسانی تاریخ اس امرِ واقع کی صداقت کا ناقابلِ تردید ثبوت فراہم کرتی ہے۔ اس متاعِ بے بہا کی موجودگی میں افلاس و ادبار اور اخلاقی و معاشی زبوں حالی کا سبب اس کے سوا کچھ نہیں کہ ہم اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی امانت یعنی قرآن پاک اور سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا حق ادا کرنے میں ناکام ہوچکے ہیں۔ صورتِ حال یہ ہوچکی ہے کہ غیر مسلم ملکوں میں ہی نہیں مسلمان ملکوں اور معاشروں میں ہماری کوئی پہچان نہیں رہی۔ شکل و صورت اور وضع قطع کا کوئی تشخص باقی نہیں رہا۔ (الاماشاء اللہ)۔ معاملات میں امانت، دیانت اور صداقت جیسی اعلیٰ اقدارکا ہر جگہ فقدان نظر آتا ہے۔ عہد کی پاسداری جس کے بغیر فرمانِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق دین ہی غیر معتبر بن جاتا ہے، بے وقعت ہوگئی ہے۔ رسومات کے طوق و سلاسل نے ہمیں خمیدہ کمرکردیا ہے۔ پیسہ کمانے میں تو بال کی کھال اتارتے ہیں لیکن اسے رسم و رواج کی دیوی کے قدموں میں اسراف و تبذیر کی صورت میں ڈھیر کردیتے ہیں اور پھر اس پر شادیانے بجاتے ہیں۔ بیاہ شادی، پیدائش اور مرگ وغیرہ کی لامتناہی رسومات نے ہر کس و ناکس کی رگوں سے زندگی کا خون نچوڑ کر اسے بے دست و پا کردیا ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جو طریقۂ عمل ہمارے لیے چھوڑا تھا وہ فطری سادگی کی بنا پر ہر فردِ معاشرہ کے لیے قابلِ برداشت تھا۔ اس کے فطری حسن میں غیر مسلموں کے لیے بھی کشش تھی اور وہ جوق در جوق دائرۂ اسلام میں داخل ہوتے تھے۔ لیکن اب ہم نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سے منہ موڑ کر اور اپنے خودساختہ طور طریقوں کی بھرمار سے اس دین کو اتنا بوجھل بنادیا ہے کہ غیر مسلم اس سے متوحش ہونے لگے ہیں۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کی عدم اتباع پر اللہ کے حضور توبہ کی جائے اور ازسرِنو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوۂ حسنہ کی پیروی کو اپنی زندگی کا مشن بناکر اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی کی شیرازہ بندی کی جائے، اور اقامتِ دین کے ذریعے ایک مضبوط و مستحکم ریاست وجود میں لائی جائے جو اپنی طاقت اور وسائل کے ذریعے پُرامن طریقے سے ایک متمدن و مہذب معاشرے کی تشکیل کرے، تاکہ دنیا میں اسلام کا بول بالا ہو اور دکھی انسانوں کو امن و سکون کی راحتیں نصیب ہوں۔
nn