(دنیائے مغرب کے ذرائع ابلاغ کا ’’بیمار‘‘(بیانیہ عمر ابراہیم

مغرب پر اسلام کا خوف طاری ہے۔ اس خوف کے دو پہلو ہیں۔ ایک پہلو مسلمانوں کی افزائشِ نسل اور یورپی اقوام کی نسلی خودکشی ہے۔ دوسرا پہلو اسلام کا نظریاتی غلبہ ہے۔ خوف کے دونوں رنگ مغرب کے چہرے پرآتے جاتے صاف نظر آرہے ہیں۔ حال کی دو منتخب مثالوں میں خوف کا جواز اور نفسیات قدرے نمایاں ہے۔
اسرائیل کے معروف اخبارArutz Sheva میں اطالوی کالم نگار Giullio Meotti نے Europe fears Islamکی تفصیل میں لکھا ہے :
’’مسلمان اور اسلام پسند ایک ایسے براعظم میں جمع ہورہے ہیں، جس کی مقامی آبادی اور تہذیب ختم ہورہی ہے۔ یورپ کو ہتھیار نہیں ڈالنے چاہئیں، بصورتِ دیگر یورپ میں خلافتِ اسلامیہ کا دیرینہ خواب پورا ہوجائے گا۔ یورپ نے جو تہذیب صدیوں تک تشکیل دی، وہ سیکولرائزیشن کے ہاتھوں مسمار ہورہی ہے۔ ہر جگہ گرجاگھر ویران ہیں۔ برسلز، میلان، لندن، ایمسٹرڈیم، اسٹاک ہوم، اور برلن سب ہی زد میں ہیں۔ یہاں تک کہ پوپ فرانسس نے یورپ پر بات کرنے سے انکارکردیا ہے، گویا وہ یورپ سے مایوس ہوچکے۔ لوگوں کو جنسی لذت، باڈی کیئر، اور مادی آسائشات کی افیون دے دی گئی ہے۔ عرب دنیا میں 2015ء تک مسلمان آبادی 37 کروڑ80 لاکھ ہوچکی تھی۔ صرف افریقہ میں 2050ء تک مسلمان 95 کروڑ سے تجاوز کرجائیں گے۔ اس دوران یورپ میں ضبطِ ولادت اور طبعی اموات سے ہی کروڑوں کی آبادی گھٹ جائے گی۔ اسلام بحیرہ روم کے دونوں جانب سرعت سے پھیل رہا ہے، یورپ کو دوبارہ اپنے اندر سمورہا ہے۔ ہم اسلام سے سنجیدہ جنگ نہیں لڑرہے، ہم الٹا اپنے لوگوں کو سمجھا رہے ہیں کہ دہشت گردی (اسلام) کے ساتھ جینا سیکھو۔ بلاشبہ، یورپ اسلام سے خوفزدہ ہے، اور اپنی ذمے داری سے راہِ فرار اختیارکررہا ہے۔‘‘
گو اقتباس طویل ہے، مگر انتہائی اہم ہے۔ مفکرِ اسلام سید مودودیؒ بے مثال تصنیف ’’اسلام اور ضبطِ ولادت‘‘ میں مستقبل کے مغرب کا من وعن مشاہدہ اُس وقت پیش کرچکے تھے، جب یورپ اپنے اوجِ کمال پر تھا۔ سید صاحب تیقن سے فرما رہے تھے کہ ضبطِ ولادت مغربی تہذیب کی جڑیں خاموشی سے کاٹ رہا ہے۔ غرض مذکورہ اقتباس صورت حال صاف کررہا ہے۔ دینِ فطرت یورپ کو وقت کے پھیر میں لے آیا ہے۔
دوسری مثال خوف کا دوسرا رنگ سامنے لارہی ہے۔ امریکہ کے معروف جریدے نیشنل ریویو میں پالیسی سینئر فیلو اینڈریو مک کارتھی نے لندن واقعہ کی توجیح اور توضیح میں لکھا ہے کہ:
’’یہ الفاظ کا انتہائی محتاط چناؤ تھا، جب اسلام کے ماہر برنارڈ لوئیس نے مشہور جرمن اخبارDie Welt کو انٹرویو میں کہا ’’یورپ اکیسویں صدی کے آخر تک اسلامی ہوجائے گا‘‘۔ غور کیجیے، لوئیس نے یہ نہیں کہا کہ یورپ میں مسلمانوں کی آبادی سب سے زیادہ ہوجائے گی۔ نہیں، پروفیسر لوئیس نے کہا کہ یورپ اسلامی ہوجائے گا۔ ہم یہاں مسلمانوں کی نہیں، اسلام کی بات کررہے ہیں۔ انفرادی سطح پر بہت سارے مسلمان امن وامان کے ساتھ زندگی گزارنا چاہتے ہیں۔ مگر اسلام کامل غلبہ چاہتا ہے۔۔۔ لہٰذا، اب ایک اور جہادی کی قتل وغارت گری سامنے آچکی، اس بار نشانہ لندن بنا۔ خالد مسعود، جو واضح آسمانی احکامات پر غیر مسلموں سے جنگ کررہا تھا، تیز رفتارگاڑی لے کر ویسٹ منسٹر پُل سے گزرتے راہ گیروں پر چڑھ دوڑا۔ تقریباً پچاس افراد زخمی ہوئے، چارہلاک ہوئے۔ باون سال کا ویٹ لفٹر مسعود جرائم کا ریکارڈ رکھتا تھا، خنجر سے حملوں کی کئی وارداتوں میں جیل کی ہوا کھا چکا تھا۔ مسعود طویل عرصہ برمنگھم میں مقیم رہا، ایک ایسا شہر جہاں اسلامی شریعت تیزی سے کئی علاقوں کو محصورکررہی ہے، یہ علاقے غیر مسلموں کے لیے نوگو زون بن چکے ہیں۔ جب ہم اسلام کی بات کرتے ہیں، تو یہ محض چند مذہبی رسومات کا نظام نہیں۔ اسلام ایک مکمل تہذیب ہے، جو اسلام کی عالمگیر شناخت سے متعلق ہے۔ اس کی اپنی تاریخ ہے، اصول ہیں، اقدار ہیں، اور قوانین ہیں۔ یہ غیر مغربی نہیں بلکہ مغرب مخالف ہے۔ اسلام کا منہاج، جیسا کہ اخوان المسلمون کے بانی حسن البنا کہتے تھے، سیاسی اور تہذیبی غلبہ ہے۔ مغرب کے سیاسی اور اشرافیہ دانشور (اسلامی غلبے کی) سچائی سے آنکھیں چراتے رہے۔ ان کے ذہنوں میں مسلمان سماجی گروہ دیگر سماجی گروہوں کی مانند ہے۔ نہیں، اسلام مکمل حاکمیت چاہتا ہے۔ یہ آج معاشروں میں شریعت مسلط کرتا ہے، اورکل کے جہادی پیدا کرتا ہے، جس کی ایک مہم جوئی ویسٹ منسٹرپُل پر دیکھی گئی۔‘‘ (Islam and the Jihad in London by Andrew C. McCarthy)۔
مذکورہ بیانیہ خوف کا دوسرا رنگ ہے۔ اس کیفیت کی ہیئت ارتقاء یافتہ ہے، اسے ترقی یافتہ نہیں کہنا چاہیے۔ یہ حسبِ روایت ہیجان انگیز اور مبالغہ آرائی کا ملغوبہ ہے۔ اس کا سادہ اور قابلِ تشفی تجزیہ یہ ہوسکتا ہے کہ پہلے ایڈریان اجاؤ عرف خالد مسعود صاحب کو اسلام سے الگ کردیا جائے۔ خالد مسعود کی زندگی اور موت کا قصہ تمام کردیا جائے۔
یہ سفید فام (سنگل) ماں کا سیاہ فام بیٹا تھا، والد کا کہیں ذکر نہیں ملا۔ سترہ سال کی ماں نے دو سال بعد دوسری شادی کرلی۔ ایڈریان سیاہ فام پکارے جانے پرغم و غصہ کا شکار ہوجایا کرتا تھا۔ برطانوی اخبار دی سن رپورٹ کرتا ہے کہ خالد مسعود کی سابق لینڈ لارڈ شدید نالاں تھی، کیسی ہارورڈ کہتی ہے کہ خالد مسعود باعمل مسلمان نہیں تھا، وہ زانی اور نشئی تھا، اور لوگوں کو ڈرانا دھمکانا اُس کی عادت تھی۔ مسعود بازاری عورتوں کا رسیا تھا، اور چاقوکے وار سے کئی افراد کو زخمی کرچکا تھا۔ وہ پیشہ ور مجرم اور سزا یافتہ تھا۔ غرض تادم حیات ایڈریان اجاؤ صاحب کی زندگی کا لب لباب مذکورہ صفات واعمال پر مبنی ہے۔ رہ گیا موت کا واقعہ۔۔۔ یہ گزشتہ زندگی کے تناظر میں ذرا بھی چونکا دینے والا نہیں۔ ایڈریان اجاؤ جیسا کوئی نفسیاتی اور تشدد پسند شخص ہی ایسی حرکت کرسکتا تھا۔ گاڑی لے کر لوگوں پر چڑھ دوڑنے کا عمومی رجحان نشے میں ڈوبے ڈرائیوروں میں پایا جاتا ہے، اور اگر وہ تشدد پسند جرائم کا ریکارڈ رکھتے ہوں، تو خدشے کی شرح یقینی خطرے کی گھنٹی ہے، مگر برطانوی انٹیلی جنس کے کانوں پر جوں تک نہ رینگی۔ ایک جرائم پیشہ پاگل شخص کو لوگوں کے بیچ کھلا چھوڑکر کس وقت یا واقعہ کا انتظارکیا جارہا تھا؟ مغرب کی پولیس اور سیکورٹی ادارے دہشت گرد کی پوری زندگی پر گہری نظر رکھتے ہیں، پوری خبر رکھتے ہیں، پوچھ گچھ بھی کرلیتے ہیں، مگر اسے روکنے کی جسارت نہیں کرتے، یہاں تک کہ وہ قتل وغارت کرگزرتا ہے۔ اس کے بعد پولیس اور سیکورٹی ایجنسیوں میں جیسے بجلی بھرجاتی ہے۔ دہشت گرد تو زندہ رہتا نہیں۔ چنانچہ پولیس اور سیکورٹی انتظامیہ
(باقی صفحہ 41پر)
دنیا کو دہشت گرد کی نیت، ارادے، منصوبے، اور عزائم سے آگاہ کرتے ہیں، جوکہ بڑے ہی ظالمانہ ہوتے ہیں۔ یکایک دہشت گرد کی سرپرست تنظیم واقعہ کی ذمے داری رضاکارانہ بنیادوں پر قبول کرلیتی ہے، خواہ زندگی میں مبینہ تنظیم سے دہشت گرد کا دور کا بھی واسطہ نہ رہا ہو۔ قریب قریب یہی گھسی پٹی کہانی خالد مسعود کی ہے۔ وہ زندہ نہیں، اور مُردے کچھ بولتے نہیں۔ لہٰذا برطانوی حکام جو چاہیں سو خالد مسعود کریں۔ اب نیشنل ریویو کے اینڈریو مک کارتھی پر اسلاموفوبیا کا جائزہ لے کر مضمون سمیٹتے ہیں۔
معروف مؤرخ برنارڈ لوئیس کا حوالہ اور قول صد فی صد درست ہے، تاہم یہ خیال نیا نہیں۔ ’اسلامی یورپ‘ کی پیش گوئی معروف ادیب جارج برنارڈ شا 1936ء میں کرچکے تھے۔ اس سے بھی پہلے علامہ محمد اقبالؒ اورسید ابوالاعلیٰ مودودیؒ مغرب میں اسلام کا سورج ابھرتا ہوا دیکھ رہے تھے۔ یورپ پر اسلامی غلبہ نظریاتی، تہذیبی، علمی، الٰہیاتی، اور نفسیاتی نوعیت کا ہے۔ اسلام یورپ میں علوم کی پہلی عظیم ترویج کا بھی محرک و معلم رہا ہے۔
مذکورہ اقتباس بیمار بیانیہ ہے، اور یہ پورے مغرب کا بیانیہ ہے، بلکہ دنیا بھرکے ذرائع ابلاغ کا بیانیہ ہے۔ کبھی کوئی تہذیب کسی بھی براعظم پر فرد کی سطح پر چاقو لہراکر غالب وحاکم ہوئی ہے؟ برنارڈ لوئیس کے ذہن میں کیا کسی خالد مسعود جیسے جہادی کا تصورِ خام بھی موجود ہوسکتا ہے؟ واضح اسلامی تعلیمات کی بنیاد پرکوئی مسلمان راہ گیروں پرگاڑی چڑھاکر جہاد فی سبیل اللہ کرسکتا ہے؟ بالکل نہیں، یہ شکست خوردہ مؤقف کی کج بحثی سی لگتی ہے۔
غرض، یہ سچ ہے۔ یورپ اسلام سے خوفزدہ ہے۔ یہ خوف بے سبب نہیں۔ بہت کچھ مکافاتِ عمل ہے۔ بہت کچھ دینِ فطرت کا تقاضا ہے۔
اس خوف کا آسان سا آزمودہ حل ہے۔ یورپ نسلی خودکشی ترک کردے، دینِ فطرت سے رجوع کرلے، اسلامی منہاج پرحیاتِ نو پالے، سلامتی میں آجائے گا۔