(جہانگیر سید)

کراچی میں ’کے۔ الیکٹرک‘ کا ’’سرطان‘‘ لاعلاج ہوگیا ہے۔ لوڈشیڈنگ گرمی کے آغاز میں ہی بدترین سطح پر پہنچ چکی ہے۔ رواں ہفتے آدھا شہر بجلی سے محروم رہا، اور اب یہ معمول کی بات ہوگئی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ’کے۔ الیکٹرک‘ کی ابراج انتظامیہ مکمل طور پر ناکام ہوچکی ہے، اس کے جرائم کی فہرست میں روزانہ کی بنیاد پر اضافہ ہوتا جارہا ہے اور عوامی چارج شیٹ انتہائی المناک اور ہوشربا حقائق پر مشتمل ہے۔ اس چارج شیٹ کے بھیانک نکات کا جائزہ لینے پر ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ عوام کے ووٹوں سے کامیاب ہونے والے حکمران قومی مفادات کو ذاتی اور پارٹی مفاد پر قربان کرکے کیا گل کھلا رہے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ ’کے۔ الیکٹرک‘ اور سندھ حکومت گٹھ جوڑ کرکے کراچی کے عوام کو لوٹ رہے ہیں، اور کراچی کا ایک ایک شہری ان کی اذیت کا شکار ہے۔ ’کے۔ الیکٹرک‘ اور سندھ حکومت کے گٹھ جوڑ کی جب بات کی جاتی ہے تو یہ صرف سیاسی نعرے کی حد تک کوئی پروپیگنڈہ نہیں ہے، بلکہ ریاست کا طرزعمل اس کی عکاسی کررہا ہوتا ہے۔ اس پس منظر میں سندھ کے بڑے بڑے سرمایہ داروں، سیاست دانوں و دیگر کے نام بہت عرصے سے گردش کررہے تھے، تاہم اس بات کی مکمل تصدیق اُس وقت ہوئی جب جماعت اسلامی نے ’کے۔ الیکٹرک‘ کے خلاف مزاحمت کا اعلان کیا اور جواب میں ریاست کی طرف سے شدید ردعمل سامنے آیا۔ جماعت اسلامی کی جانب سے ’کے۔ الیکٹرک‘، نیپرا اور حکومتی گٹھ جوڑ کے خلاف جمعہ کے روز شارع فیصل پر ہونے والے احتجاجی دھرنے کو روکنے کے لیے پولیس کی بھاری نفری نے ادارۂ نورحق کا گھیراؤ کرلیا اور چاروں طرف پولیس موبائلیں اور پانی کے ٹینکر لا کر کھڑے کردیے۔ ادارۂ نورحق سے کسی کو بھی باہر جانے کی اجازت نہیں دی گئی۔ امیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمن ودیگر رہنماؤں اور کارکنوں کو گرفتار کرلیا گیا۔ یعنی ابھی احتجاج شروع بھی نہیں ہوا اور اتنا سخت ردعمل۔۔۔ چہ معنی دارد؟ پھر بات یہیں پر ختم نہیں ہوگئی بلکہ اس کے ساتھ ہی شارع فیصل پر ہونے والے احتجاجی دھرنے کو روکنے کے لیے پولیس نے بدترین ریاستی دہشت گردی کا مظاہرہ کیا زہریلی آنسو گیس کی شیلنگ کے ساتھ براہ راست فائرنگ بھی کی گئی اور جماعت اسلامی کے کئی رہنماء وکارکنا ن زخمی ہوئے جن میں بزرگ کارکن بھی شامل ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ ایک پُرامن احتجاج کے اتنی بہیمانہ طاقت کے استعمال کی کیا وجہ تھی؟ جماعت اسلامی، کراچی کے شہریوں کا یہی مطالبہ تو لے کر سامنے آئی تھی کہ ایک سے 300 یونٹ کے بلوں میں ظالمانہ اضافہ واپس لیا جائے۔ ایک مطالبہ یہ تھا کہ اووربلنگ اور لائن لاسز کے نام پر لوٹے گئے اربوں روپے واپس کیے جائیں۔ پھر آپ نے جن مختلف عنوانات سے کراچی کے شہریوں کو لوٹا ہے اس کی رقم بھی واپس کی جائے جس میں میٹر رینٹ 11 ارب روپے، ڈبل بینک چارجز 13 ارب روپے، کلاء بیک (Claw Back) 7 ارب روپے، فیول ایڈجسٹمنٹ چارجز 62 ارب روپے، ملازمین کے نام پر 35 ارب روپے (15 پیسے فی یونٹ کے حساب سے) شامل ہیں۔ یہ رقم کراچی کے شہریوں کی امانت ہے جس کو دلوانے کے لیے جماعت اسلامی نے آواز اٹھائی ہے۔ جماعت اسلامی کا یہی تو کہنا تھا کہ نئے میٹر 35 فیصد تک تیز چلتے ہیں، اس حوالے سے شکایات کے ازالے کے لیے غیر جانب دار ادارہ بنایا جائے اور عوام کو دھوکا دے کر لوٹنے والا SLAB سسٹم ختم کیا جائے۔ میٹر ریڈنگ کے فراڈ کے طریقے کو بدل کر بلوں میں Snapshots (تصویری میٹر ریڈنگ ) دیا جائے، شکایات کے فوری ازالے کے لیے ’کے۔ الیکٹرک‘ کے ہر کسٹمر سینٹر پر وفاقی محتسب کا نمائندہ مقررکیا جائے، تانبے کے تار بیچ کر ہڑپ کیے جانے والے اربوں روپے کا حساب دیا جائے۔
KESC کو حکومت 5 ارب روپے سالانہ زرتلافی دیتی تھی جس کی وجہ سے اس ادارے کو پرائیویٹائز کیا گیا، لیکن آج ’کے۔ الیکٹرک‘ کو 75 ارب روپے سالانہ زرتلافی دیا جارہا ہے جو کہ کرپشن کا شاہکار ہے، لہٰذا ’کے۔ الیکٹرک‘ کو قومی تحویل میں دیا جائے۔ اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ کراچی کو لوڈشیڈنگ فری کیا جائے، کیونکہ مطلوبہ پیداواری صلاحیت کے باوجود یہ ادارہ لوڈشیڈنگ کے ذریعے اپنا منافع بڑھاتا ہے۔ اور جن پارٹیوں سے آپ کا گٹھ جوڑ ہے اُن پارٹیوں کے دہشت گرد عناصر کو ریکوری افسر بناکر شہریوں کو دہشت زدہ کرنے کا سلسلہ بند کیا جائے۔ لیکن ان