(حج مالی اور بدنی عبادت کا مجموعہ ہے(طاہرحسین

حج مالی اور بدنی عبادت کا مجموعہ ہے۔ یہ ایک عظیم عبادت ہے جو صاحبِ حیثیت مسلمان پر زندگی میں ایک دفعہ فرض کی گئی ہے۔ فرمانِ باری تعالیٰ ہے:
ترجمہ:’’اللہ کے واسطے بیت اللہ کا حج کرنا اُن لوگوں پر فرض ہے جو اس کی استطاعت رکھتے ہوں۔‘‘ (آل عمران 97:3 )
اس آیت کی تفسیر بیان کرتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’جس کے پاس سفرِ حج کا ضروری سامان ہو اور اس کو سواری میسر ہو جو بیت اللہ تک پہنچاسکے اور پھر حج نہ کرے تو کوئی فرق نہیں کہ وہ یہودی ہوکر مرے یا نصرانی ہوکر۔ اور یہ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:’’بیت اللہ کا حج اُن لوگوں پر فرض ہے جو اس کی استطاعت رکھتے ہوں۔‘‘ (ترمذی، ابواب الحج، باب نمبر 33، حدیث نمبر812)
حج صرف ایک سفر و زیارت کا نام نہیں ہے اور نہ یہ محض اپنے اوپر کچھ پابندیاں عائد کرلینے، طواف وسعی اور سرمنڈانے کا نام ہے، بلکہ یہ چند اعلیٰ مقاصد کے حصول کا ذریعہ ہے تاکہ ان مناسکِ حج کے ذریعے سے اس عظیم عبادت کی اصل روح تک پہنچا جائے جو اس سے مطلوب ہے، اور اس کو صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی خوشنودی اور رضا کے لیے کیا جائے، نام و نمود اور ریاکاری کا عنصر اس میں موجود نہ ہو۔
(1) اعترافِ بندگی و شکر
حج اعترافِ بندگی کا بہترین انداز ہے۔ جب ایک حاجی رب کے حکم کی تعمیل کے لیے جسم پر دو سفید چادریں لپیٹ کر گھر سے نکلے تو وہ زبانِ حال اور زبانِ قال سے اس بات کا عنوان بنا ہوکہ اللہ ہی رب ہے، وہی حقیقی مالک و رازق ہے، وہی عبادت کے لائق ہے۔ اس کے سوا سب جھوٹے دعویدارِ خدائی فنا ہونے والے ہیں، صرف اللہ ہی ہمیشہ اور باقی رہنے والا ہے۔ یہ اعترافِ بندگی اور رب کے شکر کا ایک انداز ہی تو ہے کہ رب کے فرمان :’’ولیطوفوابالبیت العتیق‘‘ (الحج:29 ) کہ ’’(حاجی) اللہ کے قدیم گھر کا طواف کریں‘‘ کی تعمیل میں ایک مسلمان خشیتِ الٰہی سے سرشار کبھی کعبہ کا طواف کررہا ہوتا ہے تو کبھی صفا اور مروہ کے درمیان دوڑ رہا ہوتا ہے، کبھی وقوفِ عرفات کے دوران میں اپنے مالک سے استغفار و مناجات میں مصروف ہے، تو کبھی سنتِ ابراہیمی کی پیروی کرتے ہوئے اپنی قربانی اللہ کے حضور پیش کررہا ہوتا ہے اور زبان پر تلبیہ کے ان لفاظ کا ورد ہوتاہے:
لبیک اللھم لبیک، لبیک لاشریک لک لبیک ان الحمد و النعمۃ لک والملک لاشریک لک
’’اے اللہ میں حاضر ہوں، اے اللہ میں حاضر ہوں، تیرا کوئی شریک نہیں، تیرے پاس حاضر ہوں، بے شک تعریف، نعمت اور بادشاہی تیرے ہی لیے ہے اور تیرا کوئی شریک نہیں ہے۔‘‘
(2) اللہ کا ذکر
اسلام کی تمام عبادات حقیقت میں اللہ تعالیٰ کے ذکر ہی کی مختلف شکلیں ہیں۔ تلاوتِ قرآن، نماز، روزہ، قربانی اور حج سب اللہ کی کبریائی بلند کرنے کے مختلف طریقے ہیں۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے جن آیات میں حج کے احکامات بیان کیے ہیں ان میں خاص طور پر ذکر کرنے کی تاکید فرمائی ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
(ترجمہ)’’تم پر اپنے رب کا فضل تلاش کرنے میں کوئی گناہ نہیں۔ جب تم عرفات سے لوٹو تو مشعرحرام کے پاس ذکرِ الٰہی کرو اور اس کا ذکر کرو جیسے کہ اس نے تمہیں ہدایت دی حالانکہ تم اس سے پہلے راہ بھولے ہوئے تھے۔ پھر تم اس جگہ سے لوٹو جس جگہ سے سب لوگ لوٹتے ہیں اور اللہ تعالیٰ سے بخشش طلب کرتے رہو۔ یقیناًاللہ تعالیٰ بخشنے والا مہربان ہے۔ پھر جب تم ارکانِ حج ادا کرچکو تو اللہ کا ذکر کرو جس طرح تم اپنے باپ دادا کا کرتے تھے بلکہ اس سے بھی زیادہ۔ بعض لوگ وہ بھی ہیں جو کہتے ہیں اے ہمارے رب ہمیں دنیا میں دے، ایسے لوگوں کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں ہے، اور بعض لوگ وہ ہیں جو کہتے ہیں اے ہمارے رب ہمیں دنیا میں بھی بھلائی اور آخرت میں بھی بھلائی عطا فرما اور ہمیں عذابِ جہنم سے نجات دے۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کے لیے ان کے اعمال کا حصہ ہے اور اللہ تعالیٰ جلد حساب لینے والا ہے۔ اور اللہ کا ذکر گنتی کے ان چند دنوں (یعنی ایامِ تشریق) میں کرو، دو دن کی جلدی کرنے والے پر بھی کوئی گناہ نہیں اور جو پیچھے رہ جائے اس پر بھی کوئی گناہ نہیں۔ یہ اللہ تعالیٰ سے ڈرنے والے کے لیے ہے، اس لیے اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو اور جان رکھو کہ تم سب اسی کی طرف جمع کیے جاؤ گے۔‘‘
(البقرۃ:203-198)
ان آیات میں اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنے کی پانچ بار تاکید آئی ہے اور مزید زور دے کر اس بات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ اللہ کا ذکر اس طرح کرو جس طرح تم اپنے آباو اجداد کے اوصاف بیان کرتے ہو، بلکہ خاندانی مفاخر کے اظہار سے بھی زیادہ شدومد کے ساتھ اللہ کا ذکر اور بڑائی بیان کرو۔ اس کا پس منظر بیان کرتے ہوئے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ اہلِِ عرب جاہلیت میں حج سے فارغ ہونے کے بعد منیٰ میں ٹھیر جاتے تھے اور اپنے اپنے آباو اجداد کی سخاوت، دریا دلی، شجاعت و بہادری کے واقعات سناتے ہوئے ایک دوسرے پر فخر و غرور کرتے تھے۔ اسلام آنے کے بعد اس سے منع کیا گیا اور صرف اللہ کی بزرگی، بڑائی اور عظمت بیان کرنے کا حکم دیا گیا۔ اسی لیے مسلمانوں کو تاکید کی گئی ہے کہ حج کے دوران میں تلبیہ پڑھتے رہیں کیونکہ یہ اللہ کی بزرگی، بڑائی اور بادشاہی کا اقرار ہے۔
(3) گناہوں سے نجات
حج گناہوں سے نجات حاصل کرنے کا بھی ایک ذریعہ ہے، کیونکہ حج ایک ایسی عظیم عبادت ہے جو مسلمان کے تمام گناہوں کو دھو ڈالتی ہے۔ جس طرح جب کوئی شخص اسلام قبول کرتا ہے تو اس سے سابقہ گناہوں پر مواخذہ نہیں کیا جاتا، ایسے ہی خلوصِِ نیت سے کیے ہوئے حج سے مسلمان کا نامۂ اعمال برائیوں سے بالکل پاک ہوجاتا ہے۔ صلح حدیبیہ کے بعد جب حضرت عمروبن العاص رضی اللہ عنہ نے اسلام قبول کیا اور بیعت کرنے سے پیشتر ایک لمحے کے لیے توقف کیا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنے سابقہ گناہوں کے متعلق استفسار کیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’اے عمرو کیا تم نہیں جانتے کہ اسلام سابقہ (گناہوں)کو ختم کردیتا ہے اور (اللہ کی راہ میں کی گئی) ہجرت سابقہ معاصی کو دھو ڈالتی ہے اور حج بھی سابقہ (برائیوں) کو زائل کردیتا ہے۔‘‘(مسلم، کتاب الایمان)
ایک مشہور حدیث میں حج سے فارغ ہونے والے شخص کو نومولود بچے سے تشبیہ دی گئی ہے کہ جس طرح ایک نومولود گناہوں سے بالکل پاک صاف ہوتا ہے، اسی طرح اللہ تعالیٰ کے احکامات کے مطابق کیے گئے حج سے انسان برائیوں سے بالکل پاک ہوجاتا ہے۔
حضرت ابوہریرہؓ فرماتے ہیں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا:
’’جس شخص نے اللہ کے لیے حج کیا، اور فحش باتوں اور گناہوں کا ارتکاب نہ کیا تو اُس کے گناہ اس طرح معاف ہوجاتے ہیں جیسے وہ آج ہی پیدا ہوا ہے۔‘‘(بخاری، کتاب الحج)
ایک اور فرمانِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں بار بار حج اور عمرہ کرنے والے کے لیے گناہوں اور فقر و فاقہ سے نجات کی خوشخبری سنائی گئی ہے۔
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’حج اور عمرے ایک دوسرے کے بعد کرتے رہو کیونکہ یہ دونوں محتاجی اور گناہ کو اس طرح دور کرتے ہیں جس طرح بھٹی لوہے، سونے اور چاندی کی میل کچیل کو دور کرتی ہے، اور حج مبرور کا ثواب تو بلاشبہ جنت ہے۔‘‘
(4) صبر
حج ایک درس گاہ ہے جہاں سے انسان آزمائش پر صبر کرنا سیکھتا ہے، نہ صرف آزمائش پر بلکہ اللہ تعالیٰ کی حلال کردہ اشیا کو دورانِ احرام میں استعمال نہ کرنے اور اپنی نفسانی خواہشات پر صبر کرنا۔ درحقیقت حج سے ایک ایسا ماحول اور معاشرہ قائم کرنا مقصود ہے جس میں بسنے والے انسانوں کے اندر صبر اور برداشت کا مادہ بہت زیادہ ہو۔ اللہ تعالیٰ نے حج کا ارادہ کرنے والے شخص کے لیے قرآن مجید میں چند ہدایات دیتے ہوئے فرمایا:
(ترجمہ) ’’حج کے مہینے مقرر ہیں۔ جو شخص ان میں حج کے لیے جانے کا ارادہ کرے تو اپنی بیوی سے میل ملاپ کرنے، گناہ کرنے اور لڑائی جھگڑا کرنے سے بچتا رہے، تم جو نیکی بھی کرو گے اس سے اللہ تعالیٰ باخبر ہے، اور اپنے ساتھ سفرِ خرچ لے لیا کرو، سب سے بہتر توشہ اللہ تعالیٰ کا ڈر ہے، اور اے عقل مندو مجھ سے ڈرتے رہا کرو۔‘‘ (البقرۃ:197)
اگر حاجی کے دل میں اللہ کا خوف نہ ہو، اس میں صبر و برداشت کا مادہ نہ ہو تو حج کا یہ سفر اس کے لیے انتہائی کٹھن ہوسکتا ہے، کیونکہ حج میں حاجی کو گھر جیسا آرام و سکون میسر نہیں ہوتا، ازدحام اور بھیڑ کی وجہ سے چلنے، بیٹھنے اور آرام کرنے کی جگہ نہیں ملتی، منٹوں کا سفر گھنٹوں میں طے ہوتا ہے۔ طواف و سعی کے دوران میں کندھے سے کندھا چھل رہا ہوتا ہے، اس لیے امکان ہے کہ حاجی اپنے ساتھی حاجیوں کے ساتھ الجھ پڑے، لیکن فرمانِ ربی کی روشنی میں اگر حاجی صبر و برداشت اور درگزر سے کام لے، نیز اپنی ساری توجہ عبادت اور مناسکِ حج کی ادائیگی میں رکھے تو یہ اس کے لیے حجِ مبرور ثابت ہوسکتا ہے جس کی جزا جنت ہے۔
(5) انبیاء کے احوال کی تذکیر
حج کی عبادت دراصل حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کے اسوہ کی طرف رہنمائی ہے، ان کی ثابت قدمی اور اللہ کے وعدے پر مکمل یقین کی تذکیر اور یاددہانی ہے، خصوصاً حضرت ابراہیم علیہ السلام کا اسوہ ایک مومن کو ہر طرح کی آزمائش و مشکلات میں ثابت قدم رہنا سکھاتا ہے۔ حج کا یہ مقصد ہے کہ ہر حاجی اور معتمر خود اپنی آنکھوں سے اللہ تعالیٰ کی ربوبیت اور حاکمیت کا مشاہدہ کرے۔ نیز حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کی دعا میں برکت کا نظارہ کرے جو انہوں نے بیت اللہ کی تعمیر کے وقت کی تھی:
(ترجمہ)’’جب ابراہیم ؑ نے کہا: اے پروردگار! تُو اس جگہ کو امن والا شہر بنا اور یہاں کے باشندوں کو جو اللہ پر اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتے ہوں، پھلوں کی روزیاں دے۔‘‘ (البقرۃ:126 )
بیت اللہ کی تعمیر کے بعد اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو حج کا اعلان کرنے کا حکم دیا اور فرمایا:
(ترجمہ)’’اور لوگوں میں حج کے لیے ندا دو، تاکہ لوگ تمہارے پاس آئیں۔‘‘ (الحج:27 )
اس حکم کے ملنے کے بعد حضرت ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا: ’’الٰہی میری آواز کہاں تک پہنچے گی۔‘‘ تو اللہ تعالیٰ نے جواب دیا: ’’تم اعلان کرو، پہنچانا ہمارے ذمے ہے۔‘‘ (تفسیر ابن کثیر3/470))
اللہ تعالیٰ نے مکہ سے بلند ہونے والی اس نحیف سی صدا میں اتنی برکت دی کہ دنیا کے کونے کونے تک پہنچ گئی، اورآج دنیا کے ہر گوشے سے مسلمان سرزمینِ حرمین میں اتنی تعداد میں جمع ہوتے ہیں جس کا آج سے ساڑھے چار ہزار سال قبل تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا۔ شارحینِ حدیث نے لکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے خلیل ابراہیم علیہ السلام کے ذریعے سے اپنے بندوں کو حج یعنی اپنے دربار میں حاضری کا بلاوا دلوایا تھا تو حج پر جانے والا بندہ جب احرام باندھ کر تلبیہ پڑھتا ہے تو گویا وہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اس پکار اور اللہ تعالیٰ کو جواب دیتے ہوئے کہتا ہے کہ اے اللہ میں حاضر ہوں۔
پھر حج کا یہ مقصد بھی ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی زندگی پر نگاہ ڈالی جائے کہ وہ کس طرح اللہ تعالیٰ کے حکم کی تعمیل میں اپنے بچے اور بیوی کو وادیِ غیر ذی زرع میں اکیلا چھوڑ آئے اور اللہ تعالیٰ کے اس حکم کی تعمیل میں اہل و عیال کی محبت کو آڑے آنے نہیں دیا۔ جب بھی اللہ تعالیٰ نے انہیں آزمایا تو وہ ہر آزمائش پر پورا اترے، آگ میں کودنے کا حکم ہوا تو اس کے لیے تیار تھے، گھر بار چھوڑنے کے لیے بھی تیار، بیوی بچے کو تنہا چھوڑنے کے لیے بھی آمادہ، جوان بیٹے کو قربان کرنے کا حکم ہوا تو اس کی تعمیل کرنے میں بھی ذرا تامل نہ کیا۔ اللہ تعالیٰ نے ان تمام امتحانات میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی کامیابی کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:
(ترجمہ)’’اور جب ابراہیم ؑ کو ان کے رب نے کئی باتوں سے آزمایا تو انہوں نے سب کو پورا کردیا۔‘‘ (البقرۃ:124)
نیز فرمایا:
(ترجمہ) ’’اور جب ان (ابراہیم علیہ السلام) کے رب نے (ان سے) سرِ تسلیم خم کرنے کو کہا تو انہوں نے فرمایا میں اللہ رب العالمین کا مطیع و فرماں بردار ہوں۔‘‘ (البقرۃ131)
حج میں نہ صرف حضرت ابراہیم علیہ السلام پر آنے والی آزمائشوں کی تذکیر ہے بلکہ حضرت ہاجرہ علیہ السلام پر آنے والی آزمائش کی بھی یاددہانی ہے کہ جب انہوں نے ننھے اسماعیل ؑ کی پیاس بجھانے کے لیے پانی کی تلاش میں صفا و مروہ کے درمیان دوڑ دھوپ کی تو اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت سے حضرت اسماعیل علیہ السلام کے قدموں سے ایسا چشمہ جاری کردیا جو آج تک بہہ رہا ہے۔ یہ تمام باتیں اس بات کا پختہ شعور دلاتی ہیں کہ اللہ کا وعدہ برحق ہے اور حالات کیسے ہی کٹھن کیوں نہ ہوں ایک مومن اللہ تعالیٰ کے حکم کی تعمیل میں دین کی دعوت کو جاری رکھتا ہے اور باطل کی رخنہ اندازیاں اس کے پایۂ استقلال میں کسی قسم کی لغزش پیدا نہیں ہونے دیتیں۔
nn