(پاکستانی اشرافیہ اور قائداعظم کا انتباہ (پروفیسر خورشید احمد

سیاسی عدم استحکام پاکستان کے قیام کے وقت سے جاری ہے۔ سیاسی عدم استحکام کی وجہ یہ ہے کہ جن نظریاتی‘ آئینی اور دستوری تصورات کی بنیاد پر برعظیم میں مسلمانوں کی نئی اور آزاد مملکت ’’پاکستان ‘‘کے نام سے قائم ہوئی تھی‘ ان اصولوں سے انحراف اول دن سے شروع کردیا گیا۔ اس انحراف کا ذمہ دار وہ مقتدر طبقہ تھا جسے انگریزوں نے اس ملک کے باشندوں پر مسلط کیا تھا۔ غلامی قبول کرنے کے لیے ’’مفادپرست‘‘ اور بزدل طبقہ انگریزوں کی ضرورت تھا۔ اس ضرورت نے مسلمانوں میں ایک ایسا اخلاقی بحران پیدا کیا جس کی تباہ کاری میں روز بروز اضافہ ہوتا جارہا ہے اور آج صورتحال یہ ہوگئی ہے کہ اصلاح اور مثبت تبدیلی کا کوئی راستہ نظر نہیں آرہا ہے‘ قومی اور اخلاقی سفر مفاد پرستی سے بدعنوانی میں بدل گیا ہے۔ اس تباہی کی بنیادیں اول دن سے پڑگئی تھیں اور اس کا ذمے دار وہ مقتدر اور بدعنوان طبقہ ہے جس نے مغرب کی غلامی کو شعوری طور پر قبول کرلیا تھا۔ یہی طبقہ پاکستان میں آج تک مقتدر ہے۔ اس طبقے کے بارے میں اسلامی تحریک کے ایک ممتاز دانشور پروفیسر خورشید احمد نے دقیع تجزیہ کیا ہے۔ اس تجزیے سے ایک اہم اقتباس ہم ان کی کتاب ’’اسلام زندگی ہے‘‘ سے پیش کررہے ہیں تاکہ ہمارے اہلِ دانش اس کی روشنی میں آج کے حالات کے اسباب پر غور کریں۔
’’ہم بڑے دکھ سے یہ بات کہنے پر مجبور ہیں کہ وہ طبقہ جسے ’اشرافیہ‘ کہا جاتا ہے‘ جو جمہوریت‘ لبرل ازم اور ترقی پسندی کا دعوے دار ہے‘ جس کے ہاتھوں میں آج تک زمامِ اقتدار رہی ہے‘ اس نے قوم کو دونوں ہاتھوں سے‘ جھولی بھر بھر کے لوٹاہے۔ اگرچہ اچھے لوگ ان میں بھی ہیں‘ لیکن بحیثیت مجموعی اس حاکم طبقے نے اپنے مفادات ہی کی پوجا کی ہے اور اللہ اور اللہ کے بندوں کے حقوق سے مجرمانہ رُوگردانی کی ہے۔ قائداعظم اس طبقے کے بارے میں اپنی بصیرت کی بنیاد پر شاکی تھے۔وہ ایم ایچ اصفہانی کو ذاتی خط (6مئی 1945 ء) میں لکھتے ہیں:
کرپشن ایک لعنت ہے ہندوستان میں‘ مگر خاص طور پر نام نہاد پڑھے لکھے مسلمانوں اور دانشوروں میں۔ بلاشک و شبہہ یہ وہ طبقہ ہے جو مفاد پرستی‘ اخلاقی اور فکری سطح پر بدعنوانی کا مرتکب ہے۔ اس میں بھی کچھ شک نہیں ہے کہ یہ بیماری عام ہے‘ مگر بالخصوص مسلمانوں میں فراواں ہے۔
قائداعظم کے یہی احساسات تھے‘ جنہیں 11 اگست 1947 ء کو خطاب آزادی کے دوران‘ اسمبلی کی بالادستی کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کے بعد سب سے پہلے بیان کیا:
’چور بازاری دوسری لعنت ہے۔ مجھے علم ہے کہ چور بازاری کرنے والے اکثر پکڑے جاتے ہیں اور سزا بھی پاتے ہیں۔ عدالتیں ان کے لیے قیدکی سزائیں تجویز کرتی ہیں یا بعض اوقات ان پر صرف جرمانے ہی کیے جاتے ہیں۔ اب آپ کو اس لعنت کا بھی خاتمہ کرنا ہوگا۔ موجودہ تکلیف دہ حالات میں‘ جب ہمیں مسلسل خوراک کی قلت یا دیگر ضروری اشیائے صرف کی کمی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
چور بازاری معاشرے کے خلاف ایک بہت بڑا جرم ہے۔ جب کوئی شہری چور بازاری کرتا ہے تو میرے خیال میں وہ بڑے سے بڑے جرم سے بھی زیادہ گھناؤنے جرم کا ارتکاب کرتا ہے۔ یہ چور بازاری کرنے والے لوگ باخبر‘ ذہین اور عام طور سے ذمہ دار لوگ ہوتے ہیں‘ اورجب یہ چور بازاری کرتے ہیں تو میرے خیال میں انہیں بہت کڑی سزا ملنی چاہیے‘ کیونکہ یہ لوگ خوراک اور دیگر ضروری اشیائے صرف کی باقاعدہ تقسیم کے نظام کو تہہ و بالا کردیتے ہیں اور اس طرح فاقہ کشی‘ احتیاج اور موت تک کا باعث بن جاتے ہیں۔
ایک اور بات جو فوری طور پر میرے سامنے آتی ہے‘ وہ ہے اقرباپروری اور احباب نوازی۔ یہ بھی ہمیں ورثے میں ملی‘ اور بہت سی اچھی بُری چیزوں کے ساتھ یہ لعنت بھی ہمارے حصے میں آئی ہے۔ اس بُرائی کوبھی سختی سے کچل دینا ہوگا۔میں یہ واضح کردوں کہ میں نہ احباب پروری اور اقربا نوازی کو برداشت کروں گا او رنہ ایسے کسی اثر و رسوخ کو قبول کروں گا‘ جو مجھ پر بالواسطہ‘ یا بلاواسطہ ڈالنے کی کوشش کی جائے گی۔ جہاں کہیں مجھے معلوم ہوا کہ یہ طریقۂ کار رائج ہے‘ خواہ یہ اعلیٰ سطح پر ہو یا ادنیٰ پر‘ یقینی طور پر میں اس کو گوارا نہیں کروں گا۔‘
قائداعظم نے جس طبقے اور اس کے جس مرض کی نشاندہی کی ہے‘ وہ مسئلے کی نوعیت کو سمجھنے اور اس کے علاج کو تلاش کرنے کے لیے کلیدی اہمیت رکھتا ہے۔ ہم صاف لفظوں میں عرض کرنا چاہتے ہیں کہ ہمارا مقصد کسی خاص طبقے یا کسی خاص فرد کو ہدفِ ملامت بنانا نہیں ہے۔ حالانکہ خود قائداعظم کا تعلق بھی برعظیم کے پڑھے لکھے مسلمان طبقے سے تھا۔ اس لیے قائد کی بات کو او رہماری تنقید کو عصبیت کا شاخسانہ قرار نہیں دیا جاناچاہیے۔
حقیقت یہ ہے کہ تحریکِ پاکستان کے مخلص قائدین کو چھوڑ کر‘ جس طبقے نے اقتدار کو اپنی گرفت میں لے لیا‘ ان میں : سیاست دان‘ بیورو کریٹ‘ صحافی‘ دانش ور‘ مقتدر فوجی جرنیل‘ سب ہی شامل تھے اور ہیں۔ اس طبقے میں بھی جو جتنا لبرل اور سیکولر تھا‘ وہ اتنا ہی اس ملک کو مغربیت‘ مادہ پرستی‘ مفادات کی خدائی اور نفسانفسی کی سیاست‘ معیشت اور تہذیب کو تباہ کرنے پر تلا ہوا تھا اور تلا بیٹھا ہے۔
اسی پڑھے لکھے طبقے میں اسلام کے شیدائی‘ مشرقیت کے دل دادہ اور شرافت کے پتلے بھی ایک تعداد میں موجود تھے اور وہ اپنا کردار ادا کرتے رہے ہیں۔ ان ہی کی خدمات اور مبارک کوششوں کے نتیجے میں ایک بڑا خیر ہمارے معاشرے میں موجود ہے‘ جو حق و باطل کی کشمکش میں اپنا کردار ادا کررہا ہے۔ لیکن اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ 1954 ء کے بعد سے بحیثیت مجموعی اختیارو اقتدار جس طبقے کے ہاتھوں میں رہا‘ وہ تحریکِ پاکستان اور اس کے مقاصد کے باب میں وفادار نہیں پایا گیا‘ الا ماشاء اللہ۔ یہ بات صرف ہم نہیں خہہ رہے ہیں۔ جن حضرات نے پاکستان کے بارے میں معروف مستشرقین پروفیسر ولفریڈ کنٹول اسمتھ اور ڈاکٹر کیتھ کلارڈ کی کتب کا مطالعہ کیا ہے‘ وہ گواہی دیں گے کہ دونوں نے اپنے اپنے انداز میں اس امر کا اعتراف کیا ہے کہ پاکستان کو پٹڑی سے اُتارنے اور پھر مفاد پرست معاشرے‘ معیشت اور تہذیب کی راہ پر ڈالنے میں اصل کردار مغرب زدہ سیکولر قیادت ہی نے انجام دیاہے۔‘‘
] پروفیسر خورشید احمد‘ اسلام زندگی ہے۔ جلد 2 ‘
مضمون :’’بدعنوانی اور استحصال کا خاتمہ کیسے‘‘۔۔۔؟[