(کردار کے غازی(پروفیسر ڈاکٹر سید وقار احمد رضوی]

یہ مسلمانوں کے دوسرے خلیفہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ ہیں جن کے رعب و دبدبہ اور عظمت و شوکت سے عالمِِ انسانی تھراتا ہے۔ ایک روز حسبِ معمول حضرت عمرؓ مدینہ کی گلیوں میں گشت فرما رہے ہیں۔ نماز تہجد میں کوئی شخص خوش الحانی سے قرآن پاک کی تلاوت کررہا ہے۔ آپؓ آواز پر کان لگائے ہیں۔ پڑھنے والا پڑھ رہا ہے۔ ان عذاب ربک لواقع (تیرے رب کا عذاب واقع ہوکر ہی رہے گا)۔
یہ سن کر آپ فرطِ خوف میں بُھول جاتے ہیں کہ مجھے تو جنتی ہونے کی خوش خبری خود رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم سنا چکے ہیں اور یہ دھمکی تو اہلِ کفر کو سنائی جارہی ہے۔ خوفِ عذاب سے ان کا دماغ چکرانے، دل پھٹنے اور قوت جواب دینے لگتی ہے، وہ بے قابو ہوکر زمین پر گرنے لگتے ہیں۔ دیوار کا سہارا لے کر اٹھتے اور سر پکڑ کر بیٹھ جاتے ہیں۔ ان کے دل و دماغ سے صرف ایک آواز اٹھ رہی ہے، ان کانوں میں صرف ایک آواز گونج رہی ہے
ان عذاب ربک لواقع مالہ من واقع (سورۃ طور، آیت 8-7)
(تیرے رب کا عذاب واقع ہوکر ہی رہے گا، اسے کوئی ٹالنے والا نہیں)
بہت دیر اسی طرح فرشِ خاک پر بیٹھے رہتے ہیں۔ لڑکھڑاتے ہوئے گھر پہنچتے ہیں۔ خوفِ آخرت اور عذاب کی شدت کے تصور سے بیمار پڑ جاتے ہیں۔ لوگ ان کی مزاج پرسی کے لیے آرہے ہیں اور خوفِ آخرت سے بیمار پڑ جانے والے انسان کو دیکھ دیکھ کر نہ جانے کتنے انسان اپنی بیماریوں سے شفا حاصل کررہے ہیں۔

آدم کی سرگزشت
اگر انسان اپنی تخلیق پر غور کرے تو اس کو یہ خیال آئے گا کہ شاید میری تولید اس طرح ہوئی جیسا کہ اللہ کی دوسری مخلوق کی ہوتی ہے۔
پھر انسان نے اپنے وجود کو تنہا پایا اور اسے اپنے ایک ساتھی کی ضرورت محسوس ہوئی۔ آخر ایک دن اس نے اپنے پہلو میں اپنی ہی جیسی چیز کو بیٹھے ہوئے پایا۔ وہ حضرت حوا تھیں۔ حضرت آدم نے اپنی ہی شکل کی چیز کو پایا تو وہ حضرت حوا کو دیکھ کر بہت خوش ہوئے۔ پھر انہوں نے خدا کا شکر ادا کیا۔ تخلیقِ کائنات کا فلسفہ یہی ہے کہ اللہ نے جب دنیا کو پیدا کرنا چاہا تو اس نے کہا ’کن‘ یعنی ہو، اور وہ پیدا ہوگئی۔ (کن فیکون)
انسان ایک بال سے زیادہ باریک اور رائی کے دانے سے چھوٹے بُھنگے سے پیدا ہوا۔ جس طرح بیج میں درخت کے تمام پھل، پھول، پتّے، ٹہنی چھپے ہوتے ہیں، اسی طرح اس رائی کے دانے سے حسین و جمیل چیزیں پیدا ہوتی ہیں۔ ایسی کہ فرہاد سر پھوڑے، زلیخا حضرت یوسفؑ پر ہاتھ کاٹے اور مجنوں جنگل میں سرگرداں پھرے۔
انسان دو قوتوں سے مل کر بنا ہے یعنی خیر و شر۔ ملکوتی اور شیطانی طاقتیں۔ ان میں شیطانی قوت اس کا تعاقب کررہی ہے اور اس کو بہکاتی ہے۔
لیکن انسان کے کمال کا سبب بھی یہی شیطانی طاقت ہے۔ اور یہی اس کی پستی کا سبب ہے۔ جب حضرت آدمؑ جنت میں تھے تو ان کو شیطانی طاقت نے ورغلایا۔ اس کے بعد حضرت آدمؑ کو اپنے عیب و ہنر کا اندازہ ہوا۔ انہوں نے اللہ سے اپنی لغزش کی معافی چاہی اور پھر اللہ نے اپنا نائب بناکر زمین پر بھیج دیا۔
اللہ نے انسان کو مٹی سے بنایا۔ فرشتوں سے سجدہ کرنے کو کہا۔ فرشتوں نے سجدہ کیا مگر شیطان نے نہیں کیا۔ اللہ نے اس سے پوچھا تم نے سجدہ کیوں نہیں کیا؟ تو شیطان نے کہا کہ تُو نے انسان کو مٹی سے پیدا کیا ہے اور مجھے آگ سے۔ اس لیے میں آدم سے افضل ہوں۔ تب اللہ نے شیطان کو مردود قرار دے کر ہمیشہ کے لیے جنت سے نکال دیا۔
اللہ تعالیٰ نے حضرت آدمؑ کو بتادیا کہ شیطان تمہارا دشمن ہے، اس سے ہوشیار رہنا، اور گیہوں کے درخت کے پاس نہ جانا۔ اور اس کے کھانے سے منع کردیا۔ مگر حضرت آدمؑ شیطان کے بہکائے میں آگئے اور انہوں نے گیہوں کا دانہ کھا لیا۔ اس کو کھاتے ہی نادانی کا پردہ اٹھ گیا۔ اور اللہ نے کہا کہ ہم نے جس چیز کے کھانے کو منع کیا تھا تم نے وہی کھالی۔ پھر اللہ نے انسان کو اپنا نائب بناکر زمین پر بھیجا تو فرشتوں نے اس پر اعتراض کیا کہ ہم عبادت زیادہ کرتے ہیں، انسان زمین میں خونریزی زیادہ کرے گا۔ اللہ نے کہا کہ اس مصلحت کو میں جانتا ہوں۔ پھر اللہ نے آدمؑ کو تمام اسماء اور علوم سکھائے تو فرشتوں نے اللہ کے علم کے سامنے اپنی عاجزی کا اظہار کیا۔
انسان ایک مرکب چیز ہے۔ وہ مختلف قوتوں سے مل کر بنا ہے۔ مرکب ہونے کے باوجود اس کی ہر قوت الگ الگ کام کرتی ہے۔ مرکب چیز مختلف چیزوں سے مل کر ایک خاص مزاج پیدا کرلیتی ہے۔ ہر چیز اپنی اصلی حالت پر باقی نہیں رہتی، جیسے گرم سرد پانی مل کر معتدل پانی بن جاتا ہے۔ لیکن انسان کی مثال اس کے بالکل برعکس ہے۔ اس کے تمام قویٰ اور خیر و شر کی طاقتیں ایک رہ کر بھی الگ الگ کام کرتی ہیں۔ انسان کے ملکوتی قویٰ کے سجدہ کرنے کا مقصد یہ ہے کہ وہ انسان کے تابع ہیں۔ یعنی جب انسان سے نیکی کا کام سرزد ہوتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ نیکی کے قویٰ انسان کی فرماں برداری کررہے ہیں۔ جب کہ اس کے شر کی طاقت سرکش ہے۔ کیونکہ جس کام کو برا سمجھتے ہیں اس کو برا جانتے ہوئے بھی کرتے ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ شر کی طاقت سرکش ہے، وہ مطیع نہیں ہوتی ۔ اس لیے انسان اُس وقت تک انسان نہیں بن سکتا جب تک وہ اس سرکش طاقت پر قابو نہ پا لے۔