بات پرانے زمانے کی ہے۔
ایک بزرگ لوگوں کو دین کی تعلیم دیا کرتے تھے۔ لوگ ان کے پاس آتے، کچھ عرصہ ان کے ہاں ٹھیرتے، روکھی سوکھی جو ہوتی، کھاتے اور دل لگا کر تعلیم حاصل کرتے، بھلائی کی باتیں سیکھتے اور پھر دوسروں کو ان کی تعلیم دینے کے لیے اپنی بستیوں میں چلے جاتے۔
ایک نوجوان ان بزرگ کے ہاں بہت عرصہ تعلیم پاتا رہا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے وہ ساری عمر ان کے قدموں میں رہنا اور مسلسل علم حاصل کرنا چاہتا ہے، لیکن خود ان بزرگ کی یہ نصیحت بھی اُس کے سامنے تھی کہ جوکچھ یہاں سیکھ رہے ہو، اس سے دوسروں کو آگاہ کرو۔ روشنی پھیلانے کے لیے ہوتی ہے، چھپا کر رکھنے کے لیے نہیں۔ فائدہ اٹھایا ہے تو اللہ کی مخلوق کو بھی فائدہ پہنچاؤ۔ اس نے اپنی بستی جانے کی تیاری شروع کردی۔ جس روز وہ رخصت ہونے لگا تو بزرگ نے اسے پاس بلاکر کہا: ’’بیٹا! تم بہت عرصہ ہمارے پاس رہے ہو۔ اب جارہے ہو تو یہ بتاؤ، تم نے یہاں رہ کر کیا کچھ حاصل کیا؟‘‘
نوجوان نے کہا: ’’میں نے آپ کی خدمت میں رہ کر آٹھ باتیں سیکھی ہیں۔‘‘
بزرگ حیران ہوئے: ’’صرف آٹھ باتیں؟ اچھا ۔۔۔ پہلی بات کون سی ہے؟‘‘
نوجوان نے کہا: ’’پہلی بات یہ سیکھی کہ انسان کو نہ دولت سے محبت کرنی چاہیے، نہ اونچے عہدوں سے، اور نہ شان و شوکت سے۔ اس کی زندگی کا مقصد نیکی کرنا ہونا چاہیے‘‘۔
بزرگ مسکرائے اورکہا: ’’دوسری بات کیا سیکھی؟‘‘
’’یہ کہ ہر حال میں اللہ تعالیٰ سے ڈرنا چاہیے۔ انسان گناہوں میں مبتلا ہوتا ہی اس لیے ہے کہ اپنے مالک کو بھول جاتا ہے۔‘‘
’’اور کیا سیکھا؟‘‘
تیسری بات یہ سیکھی کہ لالچ اور کنجوسی سے بچنا چاہیے اور جو اچھی چیز ملے، اس میں سے اللہ کی راہ میں خرچ کرنا چاہیے۔‘‘
’’چوتھی بات؟‘‘
’’سچی عزت اور اونچا مقام صرف اچھے کام سے حاصل ہوتا ہے۔‘‘
’’پانچویں بات؟‘‘
’’دوسروں کو اچھی حالت میں دیکھ کر جلنا اور حسد کرنا پستی کی علامت ہے۔‘‘
بزرگ کے چہرے پر اطمینان اور خوشی دکھائی دے رہی تھی۔ انہوں نے کہا: ’’اس کے بعد کیا چیز سمجھی؟‘‘
’’یہ کہ انسان کا سب سے بڑا دشمن شیطان ہے۔ اس کے فریب سے بچنا چاہیے۔‘‘
’’ساتویں بات؟‘‘
’’ساتویں بات یہ سیکھی ہے کہ سب کو روزی دینے اور پالنے والا صرف خدا ہے۔‘‘
’’اور۔۔۔ آٹھویں بات؟‘‘
’’آٹھویں بات جو میں نے یہاں رہ کر سیکھی اور سمجھی ہے، یہ ہے کہ انسان کا حقیقی مددگار اور ہر حال میں اس کی حفاظت کرنے والا صرف اللہ تعالیٰ ہے۔ اس کے سوا کوئی اس کی قدرت نہیں رکھتا۔‘‘
بزرگ نے شفقت سے نوجوان کے سر پر ہاتھ پھیرا: ’’تم خوش نصیب ہو بیٹا۔ میں تمہیں مبارک باد دیتا ہوں کہ یہ آٹھ باتیں سیکھ کر تم نے پورا علم سیکھ لیا ہے‘‘۔
آئین، لاہور/ اکتوبر 1986ء