’’کاہن‘‘ عربی زبان میں جوتشی، غیب گو اور سیانے کے معنی میں بولا جاتا تھا۔ زمانۂ جاہلیت میں یہ ایک مستقل پیشہ تھا۔ کاہنوں کا دعویٰ تھا، اور ان کے بارے میں ضعیف الاعتقاد لوگ بھی یہ سمجھتے تھے کہ وہ ستارہ شناس ہیں، یا ارواح اور شیاطین اور جنوں سے ان کا خاص تعلق ہے جس کی بدولت وہ غیب کی خبریں معلوم کرسکتے ہیں۔ کوئی چیز کھو جائے تو وہ بتاسکتے ہیں کہ وہ کہاں پڑی ہے۔ کسی کے ہاں چوری ہوجائے تو وہ بتا سکتے ہیں کہ چور کون ہے۔ کوئی اپنی قسمت پوچھے تو وہ بتا سکتے ہیں کہ اس کی قسمت میں کیا لکھا ہے۔ انہی اغراض کے لیے لوگ ان کے پاس جاتے تھے اور وہ کچھ نذر نیاز لے کر انہیں غیب کی باتیں بتایا کرتے تھے۔ وہ خود بھی بسااوقات بستیوں میں آواز لگاتے پھرتے تھے تاکہ لوگ ان کی طرف رجوع کریں۔ ان کی ایک خاص وضع قطع ہوتی تھی جس سے وہ الگ پہچانے جاتے تھے۔ ان کی زبان بھی عام بول چال سے مختلف ہوتی تھی۔ وہ مقفّیٰ اور مسجّع فقرے خاص لہجے میں ذرا ترنم کے ساتھ بولتے تھے اور بالعموم ایسے گول مول فقرے استعمال کرتے تھے جن سے ہر شخص اپنے مطلب کی بات نکال لے۔ (تفہیم القرآن ، سورہ الطور، حاشیہ 22)
کہانت کی یہ وباء زمانۂ جاہلیت کے لوگوں تک محدود نہیں رہی، بلکہ آج تک غیر مسلم اقوام کی طرح مسلمانوں میں بھی اس کے اثرات پائے جاتے ہیں۔ بے علم اور ضعیف الاعتقاد لوگ ہی نہیں بہت سے پڑھے لکھے افراد بھی ان کاہنوں کے پاس ان کی نام نہاد ستارہ شناسی، دست شناسی اور غیب گوئی کے خریدار بن کر اپنی حاجت روائی اور مشکل کشائی کی تدابیر کی غرض سے حاضر ہوتے ہیں۔ یہ تہی دامن کاہن ان سادہ لوح بدھوؤں کو لچھے دار باتوں سے ورغلا کر ان سے پیسے اینٹھتے اور انہیں ناکامی و نامرادی کی تاریک وادیوں میں دھکیل دیتے ہیں۔ غیب کا علم صرف اللہ وحدہٗ لاشریک کے پاس ہے اور مشکل کشائی و حاجت روائی کی کلید صرف اور صرف اس کے ہاتھ میں ہے۔ اللہ کے سوا غیب دانی اور مشکل کشائی کا ہر مدعی جھوٹا اور فریب کار ہے۔
ان نابکاروں اور گمراہوں کی باتوں سے بعض اوقات گھروں میں فتنہ و فساد اور افرادِ خانہ کے درمیان شکوک و شبہات کی فضا پیدا ہوجاتی ہے، جس سے گھر کا امن و سکون برباد ہوجاتا ہے۔ اس لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے اور کاہن اور اس کے پاس بات پوچھنے کے لیے جانے والے کو عذاب کی سخت وعید سنائی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:
’’جو شخص کاہن کے پاس (آئندہ باتیں پوچھنے کے لیے) جائے اور اس کی باتوں کی تصدیق کرے یعنی اس کی باتوں کو سچا جانے، وہ اس چیز (یعنی قرآن و سنت) سے بے تعلق ہوگیا جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئی ہے۔‘‘
(ابوداؤد۔ باب ’’کاہنوں کے پاس جانے کی ممانعت‘‘۔ راوی ابوہریرہؓ)
ایک دوسری روایت میں حضرت حفصہؓ سے منقول ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’جو شخص کاہن یا نجومی کے پاس جائے اور اس سے کچھ پوچھے (یعنی غیب کی باتیں پوچھے) تو اس کی چالیس دن رات کی نمازیں قبول نہیں کی جاتیں۔‘‘
(مشکوٰۃ، باب ’’کہانت کا بیان‘‘، بحوالہ مسلم)
انسان کو لاریب زندگی میں بہت سے مسائل اور مشکلات پیش آتی ہیں جو اس کے لیے بڑی اندوہناک اور پریشان کن ہوتی ہیں۔ اس صورت میں بھی اسے جھوٹے اور پُرفریب سہارے تلاش کرنے کے بجائے قادرِ مطلق خدائے رحمان و رحیم کے آگے ہی ہاتھ پھیلانے چاہئیں اور اس کے حضور توبہ و استغفار کرکے اس کے ذکر کے ذریعے حاجت روائی اور مشکل کشائی کے لیے دست بدعا ہونا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں زندگی کے ہر معاملے میں صراطِ مستقیم پر قائم رہنے کی توفیق ارزانی فرمائے۔ (آمین)