(نظر ثانی و تہذیب(محمد عبدالغفور خان

کتاب
:
الکامل فی التاریخ (جلد اوّل)
(ابتدائے خلق سے دورِ فترت تک)
مؤلف
:
الشیخ عزالدین ابی الحسن علی بن ابی الکرم محمد المعروف بہ ابن اثیر (555ھ۔632ھ)
مترجمین
:
محمد عبدالغفور خان
محمد ظہیر الدین بھٹی
نظر ثانی و تہذیب
:
ڈاکٹر نگار سجاد ظہیر
صفحات
:
670 قیمت 900 روپے
ناشر
:
قرطاس۔ فلیٹ نمبر A-15۔ گلشن امین ٹاور۔ گلستانِ جوہر بلاک 15 کراچی
موبائل
:
0321-3899909
ای میل
:
saudzaheer@gmail.com
ویب گاہ
:
www.qirtas.co.nr
الکامل فی التاریخ عربی زبان میں معروف تاریخ ہے۔ اس کا اردو میں ترجمہ طبع کرنے کے لیے ڈاکٹر نگار سجاد ظہیر نے منصوبہ بنایا ہے۔ جلد دوم اور سوم پہلے طبع ہوچکی ہیں جن کا تعارف ہم نے فرائیڈے اسپیشل میں کرایا تھا۔ اب جلد اوّل اور جلد چہارم چھپ کر آگئی ہیں، ان کا تعارف پیش نظر ہے۔ جلد اوّل تیس ابواب پر مشتمل ہے۔
علامہ ابن اثیر 555ھ/ 13 مئی 1160ء میں جزیرۂ ابن عمر (عراق) میں پیدا ہوئے۔ اسی جزیرے کی طرف نسبت کی وجہ سے ابن اثیر کو جزرمی کہتے ہیں۔ ان کی کنیت ابوالحسن اور لقب عزالدین تھا۔ 630ھ/ 1232ء میں بمقام موصل 75 برس کی عمر میں انتقال ہوا۔ ان کا گھرانا ایک دینی اور علمی گھرانا تھا۔
تاریخ پر ابن اثیر کی اہم تصانیف میں اُسد الغابہ فی معرفۃ الصحابہ، الکامل فی التاریخ، اللباب فی انساب العرب، التاریخ الباھر یا تاریخ دولۃ الاتابکیہ شامل ہیں۔ ابن اثیر نے موصل کی ایک تفصیلی تاریخ لکھنی شروع کی تھی لیکن وہ پایہ تکمیل تک نہ پہنچ سکی۔ (تذکرۃ الحفاظ، جلد 2، ص 129، رقم ترجمہ: 1124)
اُسد الغابہ فی معرفۃ الصحابہ میں ابن اثیر نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ طیبہ کے علاوہ سات ہزار پانچ سو صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کے تذکرے شامل کیے ہیں۔ اس کتاب کی تالیف میں ابن اثیر نے بڑی تحقیق سے کام لیا ہے۔ ان کا مآخذ امہات کتبِ حدیث کے علاوہ اسماء الرجال کی کتابیں بھی تھیں۔ لہٰذا اس کتاب کو مستند تاریخی تصنیف کا درجہ حاصل ہے۔ ان سے قبل بعض مؤرخین سیرالصحابہ کے موضوع پر کتابیں لکھ چکے تھے۔ مثلاً ابن سعد کی طبقات الکبریٰ، حافظ ابن عبدالبر کی الاستعیاب فی معرفۃ الصحابہ، ابونعیم اصفہانی کی حلیۃ الاولیاء وغیرہ۔ ابن اثیر نے ان کتبِ سِیَر سے نہ صرف استفادہ کیا بلکہ ان کے بعض بیانات کی تنقیح بھی کی اور ان پر استدراک بھی کیا اور بہت سی معلومات کا اضافہ بھی کیا۔
اس کتاب کا پہلا اردو ترجمہ 1904ء میں لکھنؤ سے شائع ہوا۔ مترجم مولانا محمد عبدالشکور فاروقی تھے۔ اس کے بعد یہ 1987ء میں لاہور سے طبع ہوا، اور اس کے بعد کئی اداروں نے اسے شائع کیا۔
اللّباب فی انساب العرب دراصل نامور مؤرخ سمعانی کی شہرۂ آفاق تالیف کتاب الانساب کا خلاصہ ہے۔ اصل کتاب آٹھ جلدوں میں تھی، ابن اثیر نے اس کا اختصار تین جلدوں میں کیا۔ ابن خلکان نے اس اختصار کی تعریف کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ابن اثیر نے کئی تسامحات دور کیے، کئی باتوں کا اضافہ کیا اور کئی ابہامات کی وضاحت کی۔ یہ کتاب شائع ہوچکی ہے، تاہم اردو زبان میں ترجمہ نہیں ہوئی۔
التاریخ الباھریا تاریخ دولۃ الاتابکیہ شاہانِ موصل یا خانوادۂ اتابک کی تین سو سالہ تاریخ پر مشتمل ہے۔ صلیبی جنگوں کے حوالے سے بھی اس میں خاصا مواد موجود ہے۔ اس کتاب کے کئی اجزا کا فرانسیسی زبان میں ترجمہ ہوچکا ہے اور یہ ترجمہ 1829ء میں پیرس میں چھپ بھی چکا ہے، تاحال اردو ترجمہ نہیں ہوا۔
الکامل فی التاریخ، ابن اثیر کی معرکۃ الآراء تاریخی تصنیف ہے، جس میں تکوینِ کائنات سے لے کر 618ھ / 1221ء تک کے حالات و کوائف بڑی تحقیق سے بیان کیے گئے ہیں۔ ابن خلکان نے اس کو بجا طور پر ’’من خیار التاریخ‘‘ کہا ہے۔ مشہور مستشرق پروفیسر براؤن نے اسے تمام کتبِ تاریخ میں سب سے ممتاز قرار دیا ہے۔ اس کتاب نے یورپ اور ایشیا میں ہر جگہ شہرت اور مقبولیت حاصل کی۔ ابنِ خلدون نے بھی اپنی تاریخ العبر میں اس کے حوالے دیے ہیں۔ یہ کتاب پہلی مرتبہ لائیڈن سے 1851ء میں طبع ہوئی، دوسری مرتبہ لائپزگ سے 1876ء میں شائع کی گئی۔ اس کے بعد بولاق، قاہرہ اور بیروت سے اس کے کئی ایڈیشن شائع ہوئے۔
الکامل میں ابن اثیر نے جو دیباچہ لکھا ہے اُس میں اس تاریخی تصنیف کا مقصدِ تصنیف لکھ دیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ مجھے تاریخی کتب پڑھنے اور ان کے مضامین اور پوشیدہ معارف پر غور کرنے کا ہمیشہ سے شوق رہا، لیکن مجھے ان تاریخی تصانیف میں متعینہ مقصدِ تصنیف کی کمی محسوس ہوئی، نیز بعض مؤرخین نے غیر اہم باتوں پر صفحات کے صفحات سیاہ کردیے جب کہ اہم معاملات پر محض چند جملے ہی لکھے۔ پھر مشرقی مؤرخین نے مغرب اور اہلِ مغرب کے حالات لکھنے میں بخل سے کام لیا، اسی طرح مغربی مؤرخین نے مشرق اور اہلِ مشرق کے حالات لکھنے میں تفصیلات کو ترک کیا۔ (عزالدین ابی الحسن علی بن ابی الکرم المعروف بہ ابن اثیر، الکامل فی التاریخ، جز اول، ص6، دارالکتب العربی، بیروت، 2010ء)
ابن اثیر نے ان خامیوں کو پیش نظر رکھ کر الکامل فی التاریخ لکھنی شروع کی۔ ان کا بنیادی اور ابتدائی مآخذ محمد بن جریر طبری (م310ھ) کی مشہور و معروف کتاب تاریخ الرسل والملوک تھی۔ تاریخ نویسی کے حوالے سے ابن جریر طبری بڑے ممتاز مقام پر فائز نظر آتے ہیں۔ انہوں نے اپنی ضخیم تاریخ ’جمع الروایات، کے اصول پر لکھی۔ یعنی ایک واقعہ سے متعلق انہیں جتنی روایات ملیں، راویوں کے نام یعنی سند کے اہتمام کے ساتھ لکھ دی گئیں۔ یہ روایات آپس میں متضاد و متصادم بھی ہیں اور یکساں و موافق بھی۔ ان میں ترجیح، راویوں کی بنیاد پر کی جا سکتی ہے جو بذاتہ ایک مشکل کام ہے۔ طبری کی تاریخ الرسل و الملوک کو سمجھنا ہر کس و ناکس کے بس کی بات تو ہے ہی نہیں، بعض اوقات اساتذہ اور علماء بھی استفادے سے عاجز نظر آتے ہیں۔ جب تک اصول تخریج راوی کے فن پر عبور حاصل نہ ہو طبری سے اکتسابِ فیض نہیں کیا جا سکتا۔ لہٰذا تاریخ کے طالب علموں کو یا سہل پسند اساتذہ اور مؤرخین کو تاریخ طبری نہ پڑھنے کی سفارش کرنی چاہیے، کیونکہ ہر کتاب ہر ایک کے لیے نہیں ہوتی۔ ابن اثیر چونکہ تخریج رواۃ کے ماہر تھے لہٰذا قیاس یہی ہے کہ انہوں نے طبری کی زیادہ صحیح اور مکمل روایات اخذ کی ہوں گی۔ وہ خود لکھتے ہیں ’’تمام مؤرخین میں سے میں نے ابوجعفر پر اعتماد کیا ہے کیونکہ وہ امامِ فن، بڑا محقق، محتاط اور جامع العلوم ہے اور اس کا عقیدہ بھی اچھا ہے، وہ صادق اور سچا شخص ہے۔ اس کے علاوہ میں نے جو دیگر کتابوں سے مضامین لیے ہیں تو ان ہی لوگوں کی کتبِ مشہورہ اور تواریخِ مروجہ سے لیے ہیں جو اپنے بیان میں سچے ہیں اور ان کی تدوین پر اعتماد کیا گیا ہے۔ میں ایسا مسافر نہیں ہوں جو اندھیری رات میں بھٹکتا ہوا چلے اور کنکر، پتھر اور موتی سب جمع کرلے۔‘‘ (الکامل فی التاریخ، جز اوّل، ص 7)
ابن اثیر نے طبری کی تاریخ کے علاوہ دیگر تاریخی تصانیف سے بھی مواد لیا ہے۔ ان سے قبل بڑے بڑے مؤرخین گزرے تھے جن کے نام پچھلے صفحات میں دیے گئے ہیں۔ ان کی تاریخی تصانیف موجود تھیں، لہٰذا ابن اثیر کو تاریخی مواد کی کمیابی یا نایابی کا کوئی مسئلہ نہیں تھا۔
انہوں نے اپنے منہج کے بارے میں لکھا ہے کہ سب سے پہلے تمام عناوین جو طبری نے قائم کیے تھے وہ ابن اثیر نے بھی اختیار کیے۔ اس کے بعد ان کی متضاد و متناقص روایات میں سے وہ روایات لیں جو زیادہ مفصل اور مکمل تھیں۔ پھر دیگر روایات میں سے اضافی مواد لے کر اس میں شامل کردیا اور واقعہ کو زمانی ترتیب سے اپنے مقام پر تحریر کیا۔ (الکامل فی التاریخ، جز اول، ص 7)
کئی جگہ ابن اثیر نے طبری کی جمع کردہ روایات پر حکم بھی لگایا ہے۔
اسی طرح ان کی تاریخ پڑھتے ہوئے لگتا ہے کہ بعض جگہ انہوں نے شیعانِ علی کی بے جا طرفداری کی ہے۔ اس کا پس منظر یہ ہے کہ ابن اثیر عباسی عہد کا مؤرخ ہے۔ عباسی خلفاء کے یہاں بنی ابی طالب کی بہت عزت تھی، لہٰذا ابن اثیر نے اپنی تاریخ میں حضرت علیؓ اور ان کی اولادوں کی نسبت بڑی رعایت سے کام لیا ہے جس کی وجہ سے بعض جگہ شیعہ مذہب کی حمایت مترشح ہوتی ہے۔ تاہم ابن اثیر اپنی اس مجبوری کا اشارہ بھی کرتے ہیں۔
بعض جگہ ابن اثیر خصوصاً اہلِ فارس کی بے سروپا روایات نقل کرتے ہیں، لیکن ساتھ ہی یہ بھی لکھ دیتے ہیں کہ یہ ’’اکاذیب فارس‘‘ میں سے ہے۔ بعض جگہ وہ مختلف روایات میں سے کسی کو اختیار کرتے ہوئے نقد بھی کرتے ہیں اور اپنا خیال بھی ظاہر کرتے ہیں۔ کئی جگہ انہوں نے روایت کو درایت کی کسوٹی پر پرکھ کر مسترد بھی کیا ہے۔
ابن اثیر نے ایک اہم کام یہ کیاکہ اشخاص اور مقامات کے ناموں کے درست ہجے دیے ہیں اور باقاعدہ یہ بتایا ہے کہ کس حرف پر کون سا اعراب لگتا ہے۔
اس حوالے سے ایک اور اہم بات یہ ہے کہ عربوں کے ابتدائی مؤرخین میں سے بعض مفسرِ قرآن اور بعض محدث بھی تھے۔ لہٰذا انہوں نے جو احتیاط تفسیرِ قرآن اور تدوینِ حدیث میں برتی، وہ تاریخ میں بھی برتی۔ یہی وجہ ہے کہ ابتدائی تین صدیوں تک تاریخ نگاری میں بھی سند کا ویسا ہی اہتمام ہوتا تھا جیسا حدیث کے لیے ہوتا تھا۔ ابن اثیر مؤرخ تھے لیکن ان کا اضافی وصف ان کا محدث ہونا بھی تھا۔ لہٰذا تاریخ میں انہوں نے بڑی احتیاط برتی ہوگی، ہم یہ اندازہ قائم کرسکتے ہیں۔
الکامل فی التاریخ کو ابن اثیر کے معاصر علما اور بعد میں آنے والے مؤرخین نے قابلِ اعتبار گردانا ہے۔
الکامل فی التاریخ کے مختلف حصوں کا اردو ترجمہ مختلف اداروں نے کرایا اور سوا سو سال سے زائد کے عرصے میں بھی یہ کام مکمل نہ ہوسکا۔ آغازِ کائنات سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات تک کا ترجمہ تین جلدوں میں مولوی محمد عبدالغفور خان رامپوری نے کیا، جسے 1901ء و بعدہٗ مطبع مفید عام آگرہ سے شائع کیا گیا۔ مجھے ان تین جلدوں میں سے ابتدائی دو جلدیں بہاولپور یونیورسٹی کی سینٹرل لائبریری سے ڈاکٹر خالد رضا کی کوششوں سے دستیاب ہوگئیں، لیکن تیسری جلد پاکستان میں کہیں سے حاصل نہ ہوسکی۔ یہ تیسری جلد ’’دور فترت‘‘ یعنی ارتفاع عیسیٰ سے بعثتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم تک کے دور پر مشتمل تھی۔ ادارۂ قرطاس کی طرف سے شائع کرتے ہوئے ان تینوں جلدوں کو ایک جلد (یعنی جلد اول) میں سمو دیا گیا ہے، جو اس وقت آپ کے ہاتھ میں ہے۔ اس جلد میں ’’ایام العرب‘‘ کا پورا حصہ محمد ظہیر الدین بھٹی صاحب کا ترجمہ کردہ ہے۔ بھٹی صاحب سرگودھا میں مقیم ہیں اور اس سے قبل کئی علمی کتب کے تراجم کرچکے ہیں۔ الکامل کی جلد پنجم بھی اس وقت ان کے زیر ترجمہ ہے۔
ڈاکٹر معین الحق کے قائم کردہ دائرہ معین المعارف،کراچی نے بھی اس کی طرف توجہ کی اور تاریخ الکامل کی تین جلدیں شائع کیں۔ پہلی جلد جو سیرتِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر تھی اور جس کا ترجمہ مقصود علی خیر آبادی نے کیا تھا، 1966ء میں شائع ہوئی، اور خلافتِ راشدہ کے دور پر مشتمل دو جلدیں دائرہ معین المعارف سے 1970ء میں شائع ہوئیں۔ حصہ اول، جو عہدِ ابوبکر صدیقؓ و عمر فاروقؓ پر مشتمل ہے، کا ترجمہ رشید احمد ارشد (شعبہ عربی، کراچی یونیورسٹی) نے کیا، اور دوسرے حصے کا ترجمہ حبیب اللہ خان غضنفر امروہوی نے کیا، یہ حصہ عہدِ عثمان غنیؓ اور علی بن ابی طالبؓ کے دور پر مشتمل ہے۔ یہ تینوں جلدیں ادارۂ قرطاس نے دو جلدوں (جلد دوئم، جلد سوئم) میں شائع کی ہیں۔ جلد دوئم جو سیرت النبیؐ پر مشتمل ہے اور جلد سوئم جو دورِ خلافتِ راشدہ پر مشتمل ہے، 2015ء میں ادارۂ قرطاس کی طرف سے شائع کی جاچکی ہیں۔
الکامل فی التاریخ کے عہد بنوامیہ کا ترجمہ نفیس اکیڈمی، کراچی نے دو حصوں میں شائع کیا۔ پہلا حصہ 41ھ سے 74ھ تک کے واقعات پر مشمل ہے، اور دوسرا حصہ 75ھ سے 132ھ تک کے واقعات پر محیط ہے۔ اس کا اردو ترجمہ سید ہاشم ندوی نے کیا اور یہ کراچی سے 1965ء میں شائع ہوئی۔
تاریخ الکامل کا کچھ ترجمہ جامعہ عثمانیہ، حیدرآباد دکن کے دارالترجمہ سے ہوا۔ اس کی فقط ایک جلد مجھے دستیاب ہوسکی، جو آغازِ دولت بنو عباس (یعنی 132ھ)سے ابوجعفر المنصور کی وفات تک محیط ہے۔ اس کا ترجمہ مولوی سید ابوالخیر مودودی نے کیا اور یہ 1938ء میں دارالطبع جامعہ عثمانیہ حیدرآباد دکن سے شائع ہوئی۔
گویامجموعی طورپر تاریخ الکامل جو آغازِ کائنات سے 618ھ تک کے واقعات پر مشتمل ہے، 158ھ تک کا ترجمہ ہوسکا، جب کہ 460 سال کے واقعات و حوادث کا ترجمہ کسی ادارے یا شخص نے تاحال نہیں کیا۔
ادارۂ قرطاس الکامل فی التاریخ کے مکمل ترجمہ کا عزم کیے ہوئے ہے۔ اس کام کو دو مراحل میں تقسیم کیا گیا ہے۔ پہلے مرحلے میں آغازِ کائنات سے خلافتِ عباسیہ کے دورِ عروج 232ھ تک کے واقعات پر مبنی پانچ جلدیں شائع کردی جائیں گی۔ سابقہ مترجمین کے ترجمے پر نظرثانی کا کام کرکے اور اسی ترجمے کو زیادہ رواں، سلیس اور قابلِ فہم بناکر پیش کیا جائے گا۔ جو کچھ ترجمہ ہونے سے رہ گیا ہے، ان کا ترجمہ کرا کے یہ پہلا مرحلہ مکمل کیا جائے گا۔
دوسرا مرحلہ جو آئندہ دو سالوں میں مکمل کرنے کی کوشش کی جائے گی وہ 233ھ سے 618ھ تک کے واقعات پر محیط ہوگا۔ یہ کام بھی پانچ جلدوں کا متقاضی ہے۔ یوں ان شاء اللہ الکامل ابن اثیر دس جلدوں میں مکمل کی جاسکے گی۔
شائقینِ علم اور احباب سے درخواست ہے کہ اس منصوبے کی تکمیل کے حوالے سے ہمیں اپنی دعاؤں میں یاد رکھیں‘‘۔
یہ تفصیلات ڈاکٹر نگار سجاد ظہیر کے فاضلانہ مقدمے سے ماخوذ ہیں۔
ڈاکٹر نگار سجاد ظہیر نے مقدمے میں عربوں کی تاریخ نگاری کی بعض امتیازی خصوصیات کے متعلق اپنی تحقیق تحریر کی ہے، ہم وہ قارئین کرام کی خدمت میں پیش کرتے ہیں:
’’اولاً۔۔۔ یہ کہ تاریخ نگاری میں عربوں نے باقاعدہ سند کا اہتمام کیا۔ وہ واقعات کی صحت کا خاص اہتمام کرتے تھے۔
ثانیاً۔۔۔ ان کے یہاں توقیت کا اہتمام ملتا ہے۔ توقیت سے مراد یہ ہے کہ وہ کسی واقعہ کا سال، مہینہ اور دن بھی لکھنے کی کوشش کرتے تھے اور اس حوالے سے مختلف مؤرخین کے درمیان پائی جانے والی عدم اتفاقی کا بھی تذکرہ کرتے تھے۔ یورپ میں اس کا رواج 1597ء سے پہلے نہیں تھا۔ جب کہ عرب مؤرخین میں ہم اہتمام سند اور توقیت دونوں کو خاصی ترقی یافتہ شکل میں دیکھتے ہیں۔
ثالثاً۔۔۔ تاریخ نگاری میں عرب کسی دوسری قوم یعنی یونانیوں، ہندوستانیوں یا ایرانیوں کے منت کشِ احسان نہیں تھے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ کئی علوم کا آغاز یونانیوں سے ہوا، لیکن تاریخ نگاری میں عربوں کا کوئی استاد نہیں تھا۔ انہوں نے تاریخ نویسی اپنے سماجی ماحول کے تقاضے اور مذہبی ضرورت کے تحت اپنے طور پر کی اور ان کے فطری ماحول میں آزادانہ پروان چڑھی۔
رابعاً۔۔۔ بیشتر مسلمان اور عرب مؤرخین نے تاریخ نویسی کے دوران سرکاری مداخلت یا دباؤ کو قبول نہیں کیا۔ انہوں نے آزادانہ تاریخ نویسی کی۔ ابتدائی چند صدیوں میں ہمیں ایسی کوئی مثال نہیں ملتی کہ کسی خلیفہ نے کسی مؤرخ کو اپنے عہد کی تاریخ لکھنے پر مامور کیا ہو۔ اگر کبھی ایسے مؤرخین نے جو کسی نہ کسی دربار سے وابستہ رہے، تاریخ لکھی بھی تو اس میں سرکاری دباؤ کو قبول نہیں کیا۔ اس کا ایک بہت عمدہ نمونہ ابن مسکویہ کی تاریخ تجارب الامم ہے۔ اس کی ساری ملازمت سلاطینِ آل بویہہ کے یہاں رہی، لیکن جب اس نے آل بویہہ کی تاریخ لکھی تو انتہائی غیر جانب داری کا مظاہرہ کیا۔ اس غیر جانب داری کی وجہ یہ بھی تھی کہ ابتدائی عہد کے بیشتر مؤرخین مالی اعتبار سے مستحکم تھے۔ ان کی یہ فارغ البالی انہیں غیر جانب داری پر بآسانی قائم رکھتی تھی۔
خامساً۔۔۔ عربوں نے فنِ تاریخ نویسی کو مال و زر کمانے کے لیے بطور پیشہ اختیار نہیں کیا۔ وہ روٹی روزی کے لیے تاریخیں نہیں لکھتے تھے، بلکہ تاریخ نویسی کو انہوں نے اپنی سماجی ذمہ داری سمجھا اور لوگوں تک درست معلومات پہنچانا اپنا فریضہ سمجھا‘‘۔
حقیقت یہ ہے کہ الکامل فی التاریخ کا اردو ترجمہ چھاپنا ایک بڑا پروجیکٹ ہے۔ ڈاکٹر نگار سجاد ظہیر شکریے کی مستحق ہیں جو ایک باہمت خاتون ہیں، جن کے عزم سے ان شاء اللہ یہ مہم کامیاب ہو گی۔ کتاب سفید کاغذ پر طبع ہوئی ہے اور مجلّد ہے۔
nn