زمانہ جاہلیت کی طرح ماتم کرنے والا ہم میں سے نہیں ہے

اللہ رب العزت نے دینِ اسلام کی شکل میں انسان کی زندگی کو خوشگوار اور پُرسکون بنانے کے لیے جو ضابطۂ حیات دیا ہے اس میں انسان کی انفرادی و اجتماعی زندگی کے ہر شعبے مثلاً سیاست، معیشت اور معاشرت وغیرہ کے مسائل سے عہدہ برا ہونے کی ہدایات دی ہیں۔ ان ہدایات پر عمل پیرا ہونے کے طریقوں کے ساتھ ساتھ انسان کو وہ اصول اور آداب بھی بتائے ہیں جو زندگی کے حسن کو نکھارتے اور انسان کو ایک مہذب اور شائستہ وجود بنادیتے ہیں۔ مثال کے طور پر اسے کھانے پینے، پہننے اوڑھنے، سونے جاگنے، گھر میں داخل ہونے اور گھر سے باہر جانے، مہمان سے ملنے اور اسے رخصت کرنے، کسی مجلس میں جانے اور وہاں سے اٹھنے، سواری پر چڑھنے اور اترنے، مسجد میں داخل ہونے اور باہر نکلنے، یہاں تک کہ بیت الخلا میں جانے اور وہاں سے باہر آنے کے آداب بھی سکھائے ہیں۔ مزید برآں موقع و محل کی مناسبت سے آداب کے ساتھ اذکار اور دعائیں بھی تعلیم کی ہیں جن سے اللہ کی عظمت و کبریائی اور بندہ کی عاجزی و درماندگی کا اظہار ہوتا ہے۔ ایسا ہی ایک موقع کسی عزیز کی موت کی صورت میں انسان کو پیش آجاتا ہے جو رنج و غم کے اعتبار سے بہت کٹھن ہوتا ہے اور انسان کے لیے اس صدمے پر جذبات سے بے قابو ہوکر ایسی حرکات پر اتر آنے کا امکان ہوتا ہے جو اس کے وقارِ نفس اور عزت و احترام کے منافی ہوتی ہیں۔ اس صورتِ حال سے بچنے کے لیے اللہ رب العزت نے انسان کے مشتعل جذبات کا رخ مثبت راہ کی طرف موڑ کر اسے صبر و تحمل کی تلقین کی ہے اور اس پر اسے اجرِ عظیم عطا کرنے کا وعدہ فرمایا ہے۔ صبر کی عظمت کا یہ عالم ہے کہ مصیبت زدہ کو صبر کی تلقین کرنے والے اور اسے حوصلہ و تسلی دینے والے کو بھی اس جیسے اجر و ثواب کی نوید سنائی گئی ہے۔ (ابن ماجہ۔ کتاب الجنائز۔ راوی عبداللہ بن مسعودؓ)
قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ کا ارشادِ مبارک ہے:
’’تمہارے لیے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم (کی زندگی) میں بہترین نمونہ ہے‘‘۔ (الاحزاب)
سانحۂ موت کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جو نمونہ ہمارے سامنے آتا ہے وہ یہ ہے: ’’حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ابوسیف لوہار کے پاس گئے اور وہ (حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے فرزند) ابراہیم کی دایہ کا شوہر تھا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابراہیم کو پکڑ لیا، پھر اسے بوسہ دیا۔ ہم اس کے بعد پھر اس کے پاس گئے اور ابراہیم حالتِ نزع میں تھے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے۔ حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ نے کہا ’’اے اللہ کے رسولؐ آپ بھی روتے ہیں‘‘۔ آپؐ نے فرمایا ’’اے ابن عوف، یہ اللہ کی رحمت ہے‘‘۔ پھر اس کے بعد آپؐ روئے اور فرمایا: ’’آنکھ آنسو بہاتی ہے، دل غمگین ہے اس کے باوجود ہم نہیں کہیں گے مگر (وہ بات) جس سے ہمارا رب راضی ہو، اور تیری جدائی کے سبب سے اے ابراہیم، ہم غمگین ہیں‘‘۔ (مشکوٰۃ، باب میت پر رونے کا بیان، بحوالہ بخاری و مسلم)
اب اگرکوئی شخص اللہ کے رسولؐ کے نمونۂ عمل کو چھوڑ کر ہوائے نفس یا زمانے کے رسم و رواج کے زیراثر نوحہ خوانی شروع کردے، زور زور سے چیخنے چلاّنے لگے، منہ نوچنے لگے، سینہ کوبی کرنے لگے، کپڑے پھاڑنے لگے، جاہلانہ بول بولنے لگے، متوفی کے مبالغہ آمیز فضائل بیان کرنے لگے اور جاہلانہ طریقے پر گا گا کر بین کرنے لگے، خود بھی آہ و بکا کرے اور دوسروں کو بھی رلائے اور ان کے دل دُکھائے، تو ایسا شخص کسی صورت میں بھی حضورؐ کے نمونۂ عمل کی پیروی کرنے والا نہیں کہلا سکتا۔ بالعموم خواتین اس مرض کا شکار ہوتی ہیں۔ ایسی عورتوں کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادِ گرامی ہے: ’’نوحہ جاہلیت کے زمانے کا کام ہے اور نوحہ کرنے والی عورت جب مر جائے اور توبہ نہ کرے تو اللہ تعالیٰ اس کے لیے قطران (ایک بدبودار تیل جو خارش زدہ اونٹ پر لگایا جاتا ہے) کے کپڑے اور ایک کرتہ دوزخ کی لپٹ کا بنائے گا۔‘‘ (اللہ کی پناہ) (ابن ماجہ۔ کتاب الجنائز، راوی ابومالک اشعریؓ)
ہم اللہ کے بندے اور اس کے مملوک ہیں۔ وہ خالقِ کائنات ہے اور خود ہی اس کارگاہِ ہستی کا انتظام و انصرام فرما رہا ہے۔ کسی کو یہاں بھیجنا اور کسی کو یہاں سے واپس بلا لینا صرف اور صرف اس کی مرضی پر موقوف ہے۔ کوئی جی رہا ہے تو اسی کے حکم سے، اور کسی کو موت آتی ہے تو اسی کے حکم سے۔ ایک وفا شعار اور اطاعت کیش بندے کی حیثیت سے ہمارا کام فقط تسلیم و رضا ہے۔ وہ علیم و خبیر اور بندوں کے لیے حد درجہ مہربان ہے۔ اس کا کوئی کام حکمت اور مصلحت سے خالی نہیں ہوتا، اگرچہ بندوں کو اس کا ادراک نہ ہو۔ اللہ کی حاکمیت اور اس کے علیم و حکیم ہونے پر ہمارے ایمان کا تقاضا یہی ہے کہ خوشی ہو یا غمی، ہر حال میں اس کے حکم کے آگے سرِتسلیم خم کریں اور وہی بات اور کام کریں جسے وہ پسند کرتا ہے۔ دنیا و آخرت میں بھلائی اور کامیابی کا مدار اسی عقیدے پر استقامت کے ساتھ جمے رہنے پر ہے۔
دعا ہے اللہ تعالیٰ ہمیں ہر حال میں اس پر قائم رہنے کی توفیق ارزانی فرمائے اور ہمیں اپنی اور اپنے حبیبؐ کی ناراضی کے وبال سے بچائے۔ (آمین)

ایک اور حدیث میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں: ’’اللہ تبارک وتعالیٰ فرماتا ہے، اے آدم کے بیٹے اگر تُو صدمے کے پہلے وقت صبر کرے اور ثواب چاہے تو تیرے لیے جنت سے کم ثواب پر میں راضی نہ ہوں گا۔‘‘ (ابن ماجہ۔ کتاب الجنائز، راوی ابوامامہؓ)
ایک حدیث شریف میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’جس وقت کسی آدمی کا بچہ فوت ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرشتوں سے کہتا ہے کہ تم نے میرے بندے کے فرزند کی روح قبض کی‘‘۔ وہ کہتے ہیں ’’ہاں‘‘۔ اللہ فرماتا ہے ’’تم نے اس کے دل کا میوہ قبض کیا‘‘۔ وہ کہتے ہیں ’’ہاں‘‘۔ اللہ فرماتا ہے ’’میرے بندے نے کیا کیا‘‘۔ فرشتے کہتے ہیں: ’’تیری حمد کی اور انا للہ پڑھا۔ (یعنی اس نے کہا! الحمدللہ۔ انا للہ وانا الیہ راجعون)‘‘۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ’’اس کے لیے جنت میں ایک گھر بناؤ اور اس کا نام بیت الحمد رکھو۔‘‘ (مشکوٰۃ۔ بحوالہ احمد و ترمذی۔ راوی ابوموسیٰ اشعریؓ)