اِس بار کا کالم تو دوسروں کی مدد ہی سے پورا ہوجائے گا۔ چنانچہ سب سے پہلے تو ممبئی سے موصولہ ندیم صدیقی کا مکتوب پڑھیے جو عبدالمتین منیری کے توسط سے ملا ہے:
’’ندیم صدیقی صاحب ممبئی کے سینئر ادیب و شاعر ہیں۔ انقلاب اور اردوٹائمز کے ادبی صفحات سے عرصے تک وابستہ رہے ہیں۔ اور آج کل ممبئی اردو نیوز کے ادبی صفحہ پر اپنی نگارشات سے نوازتے ہیں۔ آپ کے ایک کالم پر ان کے تاثرات منسلک ہیں۔
عبد المتین منیری۔ بھٹکل
’’گزشتہ ہفتے جامعہ ممبئی میں طلبہ کا ایک پروگرام ہوا جس میں نئی کتابوں پر گفتگو ہوئی، اس میں حقیر کی کتاب ’پرسہ‘ بھی شامل تھی۔ ایک طالب علم نے بتایا کہ اس کتاب میں کئی الفاظ پر اعراب لگائے گئے ہیں۔ ایک جگہ افراد کے الف کے نیچے زیر لگا ہوا ہے جو غلط ہے، الف پر زیر نہیں زبر ہونا چاہیے۔
میں نے کتاب میں تلاش کیا، اب تک تو کم از کم تین مقامات پر لفظ افراد ملا، مگر اس میں نہ زیر ہے اور نہ ہی زبر۔ دوسری بات بھی سنیے، اسی جامعہ کے ایک سیمینار میں ایک سینئر پروفیسر نے لفظ تُند کو تَند پڑھا۔ ہمارا ماتھا ٹھنکا کہ کیا ہم اب تک اس لفظ کو غلط پڑھتے رہے؟ لغت دیکھی تو اس میں تُند ہی ملا۔
خیر اس طرح کی فروگزاشت ہوتی رہتی ہیں مگر اس کی اصلاح ہوجائے تو سبحان اللہ۔ ایک بار اور آپ کا شکریہ، لیکن زبان صرف پڑھنے سے نہیں آتی!
ہماری ایک بزرگ عزیزہ جنہوں نے ہمیں پڑھایا ہے، خود ہی ہنستے ہوئے بتاتی ہیں کہ وہ اپنی نوعمری میں لفظ چْنان چَہ کو چَنَا نَچَہ(Chana Nacha) پڑھتی تھیں۔ اسی طرح جب اُردو زبان کا غلغلہ تھا تو ممبئی کے سینما ہاؤسز کے باہر فلم کے مناظر پر مبنی تصویروں اور پوسٹروں میں ایک جملہ لکھا ہوتا تھا:آج شب کو۔۔۔ چونکہ یہ جملہ تین لفظوں کو ملا کر ’’آجشبکو‘‘ لکھا جاتا تھا لہٰذا بہت سے افراد اسے آجشبکو (Aajash bako) پڑھتے ہوئے ملتے تھے، اور پڑھے لکھے یا زبان داں حضرات اُن پر ہنستے تھے۔ اُردو چونکہ عربی زبان سے بھی بنی ہے جبکہ اس کا رسم الخط تو عربی ہی سے مشتق ہے۔ ہوسکتا ہے کہ بعض حضرات یہ کہیں کہ عربی زبان میں تو اعراب یعنی زیر، زبر اور پیش لگائے جاتے ہیں (عربی کتابوں، اخبارات اور رسائل میں یہ اہتمام نہیں ہوتا)۔ یہ بات اپنے آپ میں غلط بھی نہیں، مگر اس کے جواب میں یہ امربھی حقیقت پر مبنی ہے کہ عرب میں قرآن کریم کے جو نسخے پڑھے جاتے ہیں ان کے متن میں کہیں بھی آپ کو اعراب نہیں ملیں گے۔ یعنی عربی شخص کو قرآنِ کریم میں اعراب کی ضرورت ہی نہیں پڑتی، وہ یوں کہ عربی زبان تو ان کے خون میں شامل ہے۔ اسی طرح یہاں جن لوگوں کے ہاں اُردو زبان خون میں شامل ہے وہ۔۔۔ چنانچہ یا آجشبکو جیسے الفاظ سے نہیں چکراتے۔ یہ بات یوں آج موضوع بن رہی ہے کہ گزشتہ ہفتے ہم نے رتنا گیری کی ایک طالبہ اورکوکن کے اردو بولنے والوں کا تذکرہ کیا تھا کہ بعض لوگ ’’ہیں‘‘ کو ’’ہے‘‘ بولتے سنے جاتے ہیں۔ اسی طرح اہلِ اُردو اپنی کسی عزیز خاتون کے بارے میں بیان کرتے ہیں تو مثلاً وہ یوں ہوتا ہے: لکھنؤ سے ہماری خالہ آئی ہیں۔ اب اس جملے کو یہاں بالخصوص دکن سے تعلق رکھنے والے لوگ یوں پڑھتے یا بولتے ہیں: لکھنؤ سے ہماری خالہ آئے ہیں۔۔۔ اگر دورِ گزشتہ کے اہلِ لکھنؤ یا اہل دِلّی سنتے تو ہنستے اور کہتے کہ میاں! جب آپ کے خالو آئیں گے تو کیا یہ کہو گے کہ۔۔۔ خالو آئی ہیں۔۔۔ اہلِ دکن ’آئی‘ کی جگہ ’آئے‘ کیوں کہتے ہیں، اس کا وہ جواز بھی بیان کرتے ہیں اور اس جواز سے بحث کرنا ہمارے خیال سے بے معنی ہوگا کہ اس طرح کی زبان اُن کے ہاں عام ہے اور اس سے انحراف انھیں منظور نہیں کہ وہ اسے غلط نہیں سمجھتے۔ جب کسی چیز کو غلط سمجھتے ہی نہیں تو اصلاح کس بات کی۔۔۔؟
دراصل معاملہ یوں ہے کہ زبان صرف پڑھنے سے نہیں آتی بلکہ سمعی درس کی بھی ضرورت پڑتی ہے، بلکہ ہم جیسوں کے نزدیک یہ لازمہ ہے۔ بات یہ بھی نوٹ کرنے کی ہے کہ صرف سننا ہی نہیں بلکہ غور سے سن کر اس پر غور و خوص کرنا بھی یہاں ضروری ہے۔ چند برس قبل کا ایک واقعہ ہے کہ ممبئی میں مشہور ناقد وارث علوی کا جشن منایا جارہا تھا۔ وارث علوی صحت کے لحاظ سے اس حالت میں نہیں تھے کہ وہ اس جشن میں شریک ہوتے۔ لہٰذا جشن اُن کے غائبانہ میں منایا جارہا تھا کہ جشن کے منتظمین میں سے کسی کے عزیز کا احمد آباد سے فون آیا کہ بھائی الیاس! والد صاحب کا آج صبح انتقال ہوگیا۔ سننے والے نے والد کو وارث سنا اور انا للہ وانا الیہ راجعون پڑھا اور جلسے میں اعلان کردیا گیا۔ خیر منتظمین میں سے کسی دوسرے نے کچھ دیر بعد وارث علوی کے گھر (احمد آباد) فون کرکے اس خبر کی تصدیق چاہی تو معلوم ہوا کہ وارث صاحب تو خیریت سے ہیں اور اس وقت چائے پی رہے ہیں۔ سماعت کا یہ مغالطہ ہوتا رہتا ہے۔ ہم سب گاہے گاہے اس کے شکار ہوتے ہیں۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ کان تو کھلے ہوتے ہیں مگر ذہن کہیں اور ہوتا ہے، اور نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ’’والد صاحب‘‘۔۔۔ وارث صاحب۔۔۔ سمجھ لیے جاتے ہیں۔
اُردو مشاعروں کے جو پرانے شائقین ہیں ان کے حافظے میں ایک شعر ضرور ہوگا:
وہ اشک بن کے میری چشمِ تر میں رہتا ہے
عجیب شخص ہے پانی کے گھر میں رہتا ہے
برسوں قبل ہم نے مشاعروں کی نظامت کرتے ہوئے بشیر بدر سے پہلی بار یہ مطلع سنا تھا۔ پہلے تو یہ مغالطہ ہوا کہ یہ مطلع بشیر بدر کا ہے، مگر بعد میں پتہ (پتا) چلا کہ بشیر بدر نے صرف سنایا تھا، نتیجۂ فکر تو پاکستان کی ایک معروف شاعرہ بسمل صابری کا ہے۔ پھر ایک دن خیال گزرا کہ اگر وہ شخص اشک بن گیا ہے تو پھر چشمِ تر کہنے کی کیا ضرورت ہے! چشم میں جو ’تر‘ کی صورت ہے وہ اشک ہی تو ہے۔ اب ایک ملاقات میں بشیر بدر صاحب کی توجہ اس جانب مبذول کرائی گئی کہ شاعرہ نے اشک نہیں عکس کہا ہے، اصل مطلع یوں ہے :
وہ عکس بن کے میری چشمِ تر میں رہتا ہے
عجیب شخص ہے پانی کے گھر میں رہتا ہے
تو محترم بشیر بدر نے بصد اصرارکہا کہ میاں! شعر میں اشک ہی اچھا لگ رہا ہے۔ بھوپال میں اُس وقت جو لوگ ہمارے ساتھ تھے انہوں نے بشیربدر سے کہا کہ اشک کے سبب شعر میں حشو زوائد پیدا ہورہے ہیں۔ مگر بشیر بدر اپنی بات پر اَڑے رہے کہ شعر میں اشک اچھا لگ رہا ہے۔ اس کی گواہ نصرت مہدی، اقبال مسعود اور نعیم کوثر صاحبان بھوپال میں بحمداللہ ابھی موجود ہیں۔ سب مسکرا کر رہ گئے۔ ہمارے ایک بزرگ عالم بشارت شِکوہ کا نام لیتے ہوئے کتنے ہی پڑھے لکھوں کے منہ سے ہم نے بشارت شِکوَہ (Basharat Shikwa) سنا ہے، اور ایک بار نہیں کئی بار۔ ہم نے کہنے والے سے کوئی شِکوَہ نہ کرتے ہوئے آہستہ سے شِکْوہ (Shikoh) کہہ دیا۔ اگر کہنے والا ذہین رہا تو اس نے جواباً کہا: ’’ارے یہ شِکوَہ نہیں۔۔۔ شِکوہ ہیں۔۔۔ واہ واہ‘‘ کہہ کر گفتگو کا موضوع بدل دیا۔ پھر وہی بات کہ کم از کم زبان کا علم صرف کتاب سے نہیں آتا، اس کے لیے سمعی علم کی بھی ضرورت ہوتی ہے، اور سماعی علم اہلِ زبان کی صحبت سے ملتا ہے۔ گزشتہ دنوں جامعہ ممبئی کے ایک سیمینار سے جب ہمارے سینئر ساتھی لوٹے تو بڑے تاسف کے ساتھ بتانے لگے کہ ندیم صاحب اب ہمارے لیکچرار اور پروفیسرز اردو کے حق میں عارضہ بن رہے ہیں۔ موصوف نے بتایا کہ ایک خاتون لکچرر کو سنا جو تَذَبذب(Tazab zub) کو تَذبذَب (Tazab zub) بولتی سنی گئیں اور ایک پروفیسر بْعدَ المَشرِقِین (Bodalmashreqeen) کو بَعَدُ الَمشرِقِین(Badulmashreqeen) پڑھ رہی تھیں اور بڑا عجوبہ یہ تھا کہ ایک سینئر اُستاد، عام سے لفظ صِرف کوصِرِف (Sirif) بولتے ہوئے پکڑے گئے۔۔۔ یہ سب ہمارے ساتھی بھی سن رہے تھے کہ لکھنؤ والے حضرتِ سید عباس کہنے لگے: میاں! آپ کتابیں رَٹ وَٹ کر اور کچھ بیساکھیاں لگاکر کسی بھی کالج یا جامعہ میں ریڈر، لکچرر اور پروفیسر کے عہدے تک تو ضرور پہنچ سکتے ہیں مگر زبان کی اصل تک پہنچنے کے لیے اساتذہ کی جوتیاں سیدھی کرنی پڑیں گی، اور ہاں اس کے ساتھ اگر وِجدان سے محروم ہیں تو استاد کی صحبت بھی خالی جائے گی۔ سنو! حضرتِ داغ دہلوی آپ ہی سے مخاطب ہیں۔۔۔ کہ آتی ہے اُردو زباں آتے آتے۔۔۔ حضرتِ عباس کا آخری جملہ بھی سنتے چلیں کہ: اماں سمجھے بھی یا ابھی تک۔۔۔ تَذ۔۔۔بْذَب۔۔۔(Tazab zub) ہی میں مبتلا ہو۔۔۔!!‘‘ (ندیم صدیقی)
مکرمی ندیم صدیقی صاحب
اگر معلوم ہوتا کہ آپ کے تاثرات کس کالم کے سلسلے میں ہیں تو میں انہیں اطلاع کے لیے اطہر ہاشمی صاحب کو فارورڈ کردیتا۔ (عبدالمتین منیری)‘‘
nn
اب ایک اور خط ملاحظہ کیجیے جس نے ہمیں بھی تھوڑا سا پریشان کیا ہے کہ ’’جملا کو جملہ لکھنا قطعی اور صریح غلطی ہے۔ ہم نے تو کئی لغات دیکھ ڈالیں۔ جملا کہیں نہیں ملا۔ امید ہے کہ محترمہ اپنی بات کے لیے کوئی حوالہ بھی رکھتی ہوں گی:
’’عرض یہ ہے کہ میں، جمعہ 10 مارچ کے ’’فرائیڈے اسپیشل‘‘ کے کالم میں آپ کی (کے) ایک سہو کی نشان دہی ’’تنقید برائے تنقید‘‘ کے لیے نہیں بلکہ ’’تنقید برائے اصلاح‘‘ کے لیے کرنا ضروری سمجھتی ہوں۔ چونکہ میں تدریسِ اردو سے وابستہ ہونے کے ساتھ ساتھ اردو کی ایک ادنیٰ سی طالبہ بھی ہوں، اس لیے میں آپ سمیت ان سب ’’ اہلِ قلم حضرات‘‘ کی تصحیح کرنا چاہتی ہوں جو عموماً یہ غلطی کرتے ہیں۔
محترم !آپ نے بہت سہولت سے ’’کوّوں کے کوسے سے ڈھور نہیں مرا کرتے‘‘ کو اردو کا محاورہ بنادیا ہے، گزارش یہ ہے کہ یہ محاورہ نہیں بلکہ اردو کی ’’ضرب المثل یا کہاوت ‘‘ ہے۔ برائے مہربانی کسی ہفتے ذرا ’’محاورے اور ضرب المثل‘‘ کا بنیادی فرق ضرور واضح کیجیے، تاکہ مجھ ناچیز کی اصلاح کے ساتھ ساتھ ’’کئی اور۔۔۔ اردو زبان سے واقفیت کے دعویداروں‘‘ کا بھی بھلا ہوجائے۔ اس قلمی جسارت کے لیے میں مشکور و ممنون ہوں گی۔
دیگر یہ کہ میں آپ کی اس بات سے سو فیصد متفق ہوں کہ ’’غلط العام‘‘ کی سند حاصل کرنے والے الفاظ کو صحیح قرار دینا کسی طور درست نہیں۔ ’’جملا‘‘ کو ’’جملہ‘‘ لکھنا قطعی اور صریح غلطی ہے۔ اس کی اصلاح بہت ضروری ہے!! اور یہ آپ کی اور تدریسِ اردو سے وابستہ، مجھ سمیت تمام اساتذہ کی ذمہ داری ہے۔ اُمید ہے کہ میری کی گئی ’’نشان دہی‘‘ کی داد رسی ضرور ہوگی۔ جزاک اﷲ!
فقط: مسز زرقا فرخ‘‘
محاورے اور ضرب المثل میں فرق کسی پرانے کالم میں واضح کیا تھا۔ اب تلاش کرنا پڑے گا کہ کیا لکھا تھا۔ پچھلے کالم میں ہمارے ساتھی ناصر صدیقی نے توجہ دلائی ہے کہ ’ہمزہ‘ کو مونث لکھا گیا ہے جب کہ یہ مذکر ہے۔ بہت شکریہ۔