2018(ا کے انتخابات سیاسی جماتعوں کی تیاریاں (خوند زادہ جلال نور زئی

2008ء کے عام انتخابات کے نتیجے میں پیپلزپارٹی کی بلوچستان میں بننے والی حکومت بڑا سیاسی ’’اپ سیٹ ‘‘تھا۔ کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ صوبے میں پیپلز پارٹی کی حکومت بنے گی۔ نواب اسلم رئیسانی وزیراعلیٰ بنے۔ یہ بڑی نرالی حکومت تھی۔ حزبِ اختلاف تو تھی ہی نہیں۔ سارے اراکین یا تو وزیر تھے یا مشیر۔ اسلم رئیسانی نے اپنا عرصۂ حکمرانی لطیفہ گوئی اور ہنسی مذاق میں گزاردیا۔ گویا غیر سنجیدگی کی انتہا کردی۔ وہ موقع محل دیکھے بغیر ایسی بات کہہ دیتے کہ بہت ساروں کی دل آزاری بھی ہوجاتی۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کے قتل کا سانحہ رونما ہوچکا تھا اے پی ڈی ایم کے فیصلے کے تحت پشتون خوا ملّی عوامی پارٹی، جماعت اسلامی، تحریک انصاف اور نیشنل پارٹی نے الیکشن کا بائیکاٹ کردیا تھا۔ بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل نے بھی انتخابات میں حصہ نہ لیا۔ یہی وجہ تھی کہ پیپلز پارٹی کے چند امیدوار کامیاب ہوگئے اور حالات کا رخ دیکھ کر آزاد امیدوار بھی شامل ہوگئے۔ یوں ان کی حکومت بن گئی‘پھر نواب اسلم رئیسانی کی آصف علی زرداری سے ان بن ہوگئی۔ وہ ان کے ناپسندیدہ وزیراعلیٰ ٹھیرے۔ گورنر راج نافذ ہوا۔ تب بھی اسلم رئیسانی وزارتِ اعلیٰ سے مستعفی نہ ہوئے۔ ان کے چھوٹے بھائی نواب زادہ لشکری رئیسانی نے جو پیپلز پارٹی کے صوبائی صدر اور سینیٹر تھے، پارٹی چھوڑ دی۔ وہ سینیٹ کی نشست سے بھی مستعفی ہوگئے۔ کچھ عرصے بعد مسلم لیگ (ن) میں شامل ہوگئے۔ مسلم لیگ (ن) میں بائیں بازو کا یہ سیاست دان زیادہ عرصہ چل نہ سکا۔ آج کل شخصی طور پر سرگرم ہیں۔ ممکن ہے بلوچستان نیشنل پارٹی میں شامل ہوجائیں۔ گویا پیپلز پارٹی بلوچستان میں پس منظر میں چلی گئی۔ میر صادق عمرانی صوبائی صدر بنے، اس کے ساتھ ہی پارٹی کی سرگرمیاں ماند پڑ گئیں۔
اس وقت صوبائی صدارت کا عہدہ علی مدد جتک کے پاس ہے۔ علی مدد جتک نواب اسلم رئیسانی کی حکومت میں وزیر تھے۔ زیادہ پڑھے لکھے نہیں ہیں البتہ ایک متحرک سیاسی کارکن ہیں۔ ان کے صدارت کا عہدہ سنبھالنے کے بعد پیپلز پارٹی صوبے میں متحرک ہوگئی۔ اجلاس اور جلسے ہورہے ہیں۔ علی مدد جتک دعویٰ کررہے ہیں کہ آئندہ یعنی2018ء میں پھر پیپلز پارٹی کی حکومت بنے گی۔ یاد رہے کہ پیپلز پارٹی کے کئی رہنماؤں نے جو صوبائی وزیر بھی رہے، حکومت کی مدت پوری ہونے کے بعد علیحدگی اختیار کرلی تھی۔ نواب اسلم رئیسانی کو مشکلات دراصل اپنی جماعت اور اراکینِ اسمبلی سے تھیں۔ دیگر اتحادیوں کی طرف سے وہ مطمئن و پرسکون تھے۔ بظاہر ایسی فضا دکھائی نہیں دیتی کہ جس میں پیپلزپارٹی کی حکومت کے قیام کی پیش بینی کی جاسکے۔ لیکن سیاست میں کچھ بھی ممکن ہے، خصوصاً پاکستان کے اندر تو یکایک بڑی سے بڑی تبدیلی رونما ہوجاتی ہے۔
گزشتہ دنوں آصف علی زرداری بلوچستان کے صنعتی شہر حب گئے اور بلوچستان اسمبلی کے سابق ڈپٹی اسپیکر اور موجودہ رکن اسمبلی میر عبدالقدوس بزنجو کے گھر ان کے کزن کے انتقال پر تعزیت کی۔ آصف علی زرداری صوبے کے مختلف سیاست دانوں سے رابطے میں ہیں۔ پارٹی کے ناراض رہنماؤں سے بھی وہ روابط قائم کررہے ہیں، تاہم میر عبدالقدوس بزنجو کی رہائش گاہ پر ان سے مختلف شخصیات کی ملاقات بھی ہوئی۔ ان میں وزیرداخلہ میر سرفراز بگٹی اور طاہر محمود خان بھی شامل ہیں۔ یاد رہے طاہر محمود خان‘ شفیق احمد خان کے بھائی ہیں۔ شفیق احمد خان پیپلز پارٹی کے انتہائی سرگرم رہنما تھے۔ نواب اسلم رئیسانی کی حکومت میں ان کے پاس تعلیم کی وزارت کا قلمدان تھا۔ وہ صوبائی وزیر ہی تھے کہ نامعلوم دہشت گردوں نے انہیں قتل کردیا۔ بعد ازاں ان کی نشست پر طاہر محمود خان کامیاب ہوئے اور بعد ازاں مسلم لیگ (ن) میں شامل ہوگئے، اور اس وقت بلوچستان اسمبلی کے رکن ہیں۔ آصف علی زرداری سے جان محمد جمالی، میر امان اللہ نوتیزئی، سینیٹر آغا شہباز درانی، سابق وزیرداخلہ میر شعیب نوشیروانی، میر فائق علی جمالی، سابق سینیٹر محمد علی رند، سابق سینیٹر میر اسلم بلیدی، سابق صوبائی وزیر ظہیر بلیدی، یہاں تک کہ نیشنل پارٹی سے تعلق رکھنے والے رکن بلوچستان اسمبلی میر خالد لانگو کے چھوٹے بھائی میر دانش لانگو نے بھی میر عبدالقدوس بزنجو کی رہائش گاہ پر آصف علی زرداری سے ملاقات کی۔ یہ ضرورینہیں کہ ان سب نے طے شدہ پروگرام کے تحت آصف علی زرداری سے ملاقات کی ہو، لیکن تعزیت کے دوران چند افرادکی ملاقات محض اتفاق بھی نہیں۔ بلوچستان حکومت میں کئی لیگی اراکین اسمبلی اندر ہی اندر شکوہ کناں ہیں، شاید وقت آنے پر یہ حضرات خود کو اچھی طرح ظاہر کردیں۔
بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل بھی ان دنوں متحرک ہے۔ 26 فروری کو خاران میں اس نے بہت بڑا جلسہ کیا‘ جس میں لوگوں کی خاصی بڑی تعداد شریک تھی۔ 5مارچ کونصیرآباد میں بھی سردار اختر مینگل نے عوامی اجتماع سے خطاب کیا۔ نصیر آباد اور جعفر آباد میں کھوسہ اور جمالی اتحاد پہلے ہی بن چکا ہے جس میں دیگر قبائل کو بھی شامل کیا گیا ہے، یہاں قبائل کی چند شخصیات آنے والے انتخابات میں مشترکہ امیدوار سامنے لائیں گی۔ سابق وزیراعلیٰ جان محمد جمالی اور سابق اسپیکر میر ظہور حسین کھوسہ اس اتحاد کی قیادت کررہے ہیں۔ سابق وزیراعلیٰ و گورنر نواب ذوالفقار علی مگسی بھیطویل عرصے بعد نمودار ہوگئے ہیں۔ گویا 2018ء کے انتخابات کے لیے پیپلز پارٹی بھی ہوم ورک کررہی ہے تاکہ بلوچستان میں پھر سے پارلیمانی کردار ادا کرے۔
nn