پاکستان میں چھٹی مردم شماری کا آغاز 15 مارچ 2017ء سے ہوگیا ہے۔ یہ مردم شماری 19برس تاخیر سے ہورہی ہے۔ مردم شماری کا آغاز بھی عدالتِ عظمیٰ کے فیصلے کے نتیجے میں ہوا ہے، اگر عدالتِ عظمیٰ کی جانب سے فیصلہ نہ آتا تو حکومت اور ریاستی ادارے ابھی تک مردم شماری کے عمل کو ملتوی رکھتے۔ ماضی میں ہونے والی مردم شماریوں کے نتائج کے بارے میں تحفظات ظاہر کیے جاتے رہے ہیں اور اِس مرتبہ بھی مختلف حلقوں اور سیاسی جماعتوں کی جانب سے تحفظات کا اظہار کیا گیا ہے۔ حکومت اور ریاستی اداروں کی جانب سے مردم شماری کا آغاز عدالتی فیصلے کے بعد اعتراضات اور تحفظات کی گونج میں کیا گیا ہے، اس لیے مردم شماری کے عملے کے ساتھ ایک فوجی اور ایک سرکاری اہلکار ہوگا تاکہ مستند اعداد وشمار کی ضمانت حاصل ہوسکے۔ مردم شماری کے آغاز سے پہلے وفاقی وزیراطلاعات محترمہ مریم اورنگ زیب اور افواج پاکستان کے ترجمان آئی ایس پی آر کے ڈائریکٹر میجر جنرل آصف غفور نے مشترکہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے عوام سے تعاون کی اپیل کی اور بتایا کہ مردم شماری کے کام میں 2 لاکھ فوجی جوان حصہ لیں گے۔ اسی پس منظر میں وزیر اطلاعات اور ڈی جی آئی ایس پی آر نے مردم شماری میں غلط معلومات دینے پر 6 ماہ قید اور 50 ہزار روپے جرمانہ کرنے کا اعلان بھی کیا ہے۔ اس اقدام سے گمان کیا جاسکتا ہے کہ حکومت مردم شماری کے سلسلے میں مستند اور درست اعداد و شمار حاصل کرنے میں سنجیدہ ہے، لیکن اسے ابھی تک خوش گمانی پر مبنی ہی قرار دیا جاسکتا ہے، کیونکہ مردم شماری جیسے اہم مسئلے پر حکومت سنجیدہ نہیں تھی۔ واضح رہے کہ نادرا اور الیکشن کمیشن کی ووٹر فہرستیں بھی درست نہیں۔ عدالتِ عظمیٰ پاکستان میں رائے دہندگان کی ووٹر لسٹوں میں سے 45 فیصد ووٹروں کے اندراج کو جعلی قرار دے کر نکالنے کا حکم جاری کرچکی ہے۔ عدالتِ عظمیٰ کے فیصلے کے باوجود قوم کے سامنے اس بات کی مستند اطلاع نہیں ہے کہ ووٹر لسٹوں سے جعلی ووٹوں کو نکالا گیا یا نہیں۔ اسی طرح عدالتِ عظمیٰ کے اس فیصلے کا ایک منطقی تقاضا یہ بھی تھاکہ یہ معلوم کیا جائے کہ ووٹر لسٹوں میں جعلی ناموں کا اندراج کس نے کیا تھا، کیا ان لوگوں کے خلاف کوئی کارروائی کی گئی؟ اور اگر نہیں کی گئی تو کیوں اور اس کا ذمے دار کون ہے۔۔۔؟ ووٹر لسٹوں میں 45 فیصد جعلی ووٹوں کا اندراج چاول کی دیگ کا ایک دانہ ہے جس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ ہمارے ملک میں موجود اعداد و شمار کے استناد کی کیا حیثیت ہے۔ مردم شماری بہت اہم کام ہے۔ جب وطنِ عزیز میں مردم شماری کے اعداد و شمار بھی مستند نہیں ہوں گے تو ساری منصوبہ بندی غیر حقیقی ہوگی۔ ریاستی اور حکومتی سطح پر مردم شماری کے مستند اعداد و شمار جمع کرنے میں ناکامی اور مختلف سطحوں پر تحفظات اور اعتراضات ہمارے اس قومی مرض کی نشاندہی کرتے ہیں کہ ہم حقائق کو حقائق کی سطح پر قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ اگر حقائق کو حقائق کے طور پر قبول کرنے کا رویہ پیدا ہوجائے تو بہت سے قومی مسائل کا حل تلاش کیا جاسکتا ہے۔ حقائق پر پردہ ڈالنے کی وجہ سے سنسنی خیزی بھی پیدا ہوتی ہے۔ اس سلسلے میں ہمارے ذرائع ابلاغ نے بھی غفلت اور سستی کا مظاہرہ کیا ہے۔ متعلقہ اداروں نے بھی معروضی انداز میں حقائق سے قوم کو آگاہ کرنے سے گریز کیا ہے۔ اس کا ایک سبب فرعونی طرزِ حکمرانی بھی ہے جس کے تحت حکومت کرنے کے لیے اپنے ہی شہریوں کے درمیان تفریق اور تقسیم پیدا کی جاتی ہے۔ اس طرزِ حکمرانی کو رومیوں نے ’’تقسیم کرو اور حکومت کرو‘‘ کا نام دیا تھا۔ عہدِ جدید میں رومیوں کے وارثوں یعنی امریکہ اور یورپ نے اسے ایک سائنس بنادیا اور مسلم دنیا میں یورپ اور امریکہ کے غلام حکمرانوں نے اس طرزِِ حکمرانی کو وراثت کے طور پر قبول کرلیا۔ یہی طرزِ حکمرانی ہمارے ملک میں فساد کی اصل جڑ ہے۔ پاکستان پر اللہ کی ایک نعمت یہ ہے کہ اسے ہر قسم کے وسائل سے مالامال کیا گیا ہے۔ رنگوں اور زبانوں کا اختلاف اللہ کی نشانی ہے۔ قوموں اور قبیلوں کو باہمی تعارف کے لیے تقسیم کیا گیا۔ دنیا بھر کے انسانوں کو اللہ نے اپنے آخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے پیغام دیا ہے کہ ’’اللہ کے بندو بھائی بھائی بن جاؤ۔‘‘ تمام دنیا کے انسان ایک آدم کی اولاد ہیں۔ انسانوں کے درمیان فضیلت کا معیار تقویٰ یعنی کیریکٹر ہے۔ ظالم اور بدعنوان حکمرانوں کا طبقہ کبھی بھی معاشرے میں اہلیت و صلاحیت کو انسانوں کی فضیلت کا معیار بننے نہیں دیتا، اس کے نتیجے میں فساد برپا ہوتا ہے۔ مردم شماری سے گریز بھی اسی فرعونی طرزِ حکمرانی کی ایک علامت ہے۔ حالانکہ جدید دور میں قومی منصوبہ بندی کے لیے درست اعداد وشمار ضروری ہیں۔ مردم شماری سے ملکی آبادی کا صحیح علم ہوتا ہے، شہری و دیہی آبادی، مردوں، عورتوں، بچوں کی تعداد سمیت کئی عنوانات کے تحت اعداد وشمار جمع کیے جاتے ہیں جس سے سماجی اور اقتصادی تصویر سامنے آتی ہے۔ مردم شماری کے ذریعے ہی ذرائع روزگار اور مختلف صوبوں، شہروں، اضلاع کے لیے اجناس کی ضروریات کا تعین کیا جاتا ہے۔ اس کام کے سلسلے میں حکومتی سطح پر اس قدر غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کیا گیا ہے جس کی پوری دنیا میں نظیر نہیں ملتی۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ دیگر شعبوں میں بھی مستند اعداد و شمار مرتب کرنے کا انتظام کیا جائے، خاص طور پر شعبہ تعلیم اور شعبہ صحت کو ترجیح اول دی جائے۔ ان یہ حکومت اور اس کے اداروں کا امتحان ہے کہ وہ مردم شماری کے نتائج کو کتنا مستند بناتے ہیں۔