پاکستان کو دہشت گرد قرار دینے کا بل ایک بار پھر امریکی کانگریس کے ایوانِ نمائندگان (قومی اسمبلی) میں پیش کردیا گیا۔ 9 مارچ کو ریاست ٹیکساس سے ایوانِ نمائندگان کے رکن مسٹر ٹیڈ پو(Ted Poe) نے یہ بل پیش کیا ہے جسے HR1449 کے عنوان سے کانگریس کے ریکارڈ میں درج کیا گیا۔ اس بل کے منظور ہونے پر امریکی صدر 90 دن کے اندر کانگریس کو ایک رپورٹ پیش کرنے کے پابند ہوں گے‘ جس میں انھیں دوٹوک انداز میں یہ بتانا ہوگا کہ پاکستان دہشت گردی کی حمایت کرتا ہے یا نہیں۔ صدارتی رپورٹ کے 30 دن بعد امریکی وزیرخارجہ کو اپنی رپورٹ میں اس بات کا اعلان کرنا ہوگا کہ پاکستان ریاستی دہشت گردی کا مرتکب ہورہا ہے۔ اگر وہ پاکستان کو دہشت گردوں کا سہولت کار اور کفیل نہیں مانتے تو انھیں اپنے مؤقف کے حق میں ٹھوس دلائل دینے ہوں گے۔ اس بل کو ابتدائی سماعت کے لیے ایوان کی مجلسِ قائمہ برائے خارجہ امور کو پیش کردیا گیا ہے۔ بل کے محرک ٹیڈ پو نے اسے پاک امریکہ تعلقات میں ایک کلیدی تبدیلی قرار دیا ہے۔ بل کی تمہید میں جناب پو نے کہا کہ پاکستان نہ صرف ایک ناقابلِ بھروسا حلیف ہے بلکہ درپردہ وہ امریکہ کے دشمنوں کی مادی اور اخلاقی حمایت کررہا ہے۔ اس ضمن میں انھوں نے اسامہ بن لادن کو پناہ دینے اور حقانی نیٹ ورک کی عملی مدد کی مثال دی ہے۔
یہ اس نوعیت کا پہلا بل نہیں۔ اس سے پہلے ایسی ہی ایک قرارداد بل نمبر HR6069کے عنوان سے گزشتہ برس ستمبر میں پیش کی گئی تھی۔ اس بل کو ٹیڈپو اور کیلی فورنیا سے رکن کانگریس ڈانا رہراباکر نے مشترکہ طور پر پیش کیا تھا۔ تاہم کانگریس کی مدت ختم ہونے کی وجہ سے یہ بل غیر مؤثر ہوگیا۔ اسی متن کو اب نئے بل میں پیش کیا گیا ہے۔ کانگریس میں پیش ہونے والے بل کے قانون بن کر نافذالعمل ہونے کے لیے اس کا ایوانِ زیریں کے ساتھ امریکی سینیٹ سے بھی منظور ہونا ضروری ہے۔ تاہم اب تک سینیٹ میں اس کی بازگشت سنائی نہیں دی۔
اسلام اور مسلمانوں کے خلاف صدر ٹرمپ اور اُن کے رفقا کے زہریلے رویّے و لہجے کی بنا پر جو فضا بنی ہوئی ہے اُس میں اِس بل کی منظوری کے امکانات بہت روشن ہیں۔ لیکن دوسری طرف زمینی حقائق اور بین الاقوامی تعلقات کے افق پر ابھرتی نئی صف بندی کے پس منظر میں چچا سام کے لیے اس نوعیت کا یو ٹرن جسے ٹیڈ پو نے Radical Reset قرار دیا ہے، ممکن نظر نہیں آتا۔ خیال ہے کہ امریکہ کے وزیردفاع جنرل میٹس اور قومی سلامتی کے مشیر اس بل کی مخالفت کریں گے۔ ٹیڈ پو کی قرارداد سے ایک دن قبل امریکہ کی مرکزی کمانڈ کے سربراہ جنرل جوزف ووٹل نے امریکی سینیٹ کی مجلس قائمہ برائے عسکری امور کے روبرو سماعت کے دوران بہت ہی دوٹوک انداز میں کہا کہ پاکستان حقانی نیٹ ورک سمیت تمام دہشت گردوں کے خلاف مؤثر کارروائی کررہا ہے اور پاک فوج کی کوششوں سے افغانستان میں داعش اور دوسرے دہشت گردوں پر دباؤ بڑھ رہا ہے۔ جنرل صاحب نے امریکی قانون سازوں کو متنبہ کیا کہ افغانستان پر اشرف غنی کی گرفت مزید کمزور ہوگئی ہے اور نصف سے زیادہ افغانستان طالبان کے قبضے میں ہے۔ امریکہ کی سینٹرل کمانڈ، فوج کی سب سے اہم شاخ سمجھی جاتی ہے کیونکہ کہ سریع الحرکت فوج کے دستے اسی کمانڈ کے ماتحت ہیں۔ مشرق وسطیٰ، شمالی افریقہ اور سینٹرل ایشیا میں امریکہ کے عسکری مفادات کی نگرانی سینٹرل کمانڈ کی ذمہ داری ہے اور عراق و افغانستان سینٹرل کمانڈ المعروف CENTCOM کی توجہ کا مرکز ہیں۔ صدر ٹرمپ کے قریبی مشیر جنرل پیٹریاس اور وزیردفاع جنرل جیمس میٹس سینٹرل کمانڈ کی قیادت کرچکے ہیں۔ صدر کے مشیرِ قومی سلامتی جنرل (ڈاکٹر) مک ماسٹر نئی ذمہ داریاں سنبھالنے سے قبل انسداد دہشت گردی کے لیے امریکی کمانڈر کے مشیر اور افغانستان میں نیٹو رسد کی نقل و حمل کے ذمہ دار تھے، اور وہ جغرافیائی اعتبار سے پاکستان کی اہمیت کو خوب سمجھتے ہیں۔ وزیر خارجہ ریکس ٹیلرسن بھی افغانستان کے تناظر میں پاکستان کی اہمیت کے قائل ہیں۔ طالبان کی بڑھتی ہوئی قوت سے نمٹنے کے لیے امریکی حکومت اضافی فوجی دستے تعینات کرنے کے بارے میں سنجیدگی سے غور کررہی ہے اور ان کی نقل و حمل اور دوسری سہولیات کی فراہمی پاکستان کے بغیر ممکن نہیں۔ امریکہ ایک عرصے سے تاجکستان کے راستے رسد کے متبادل راستوں پر غور کرتا رہا ہے لیکن واشنگٹن کے عسکری زعما اسے ناقابلِ عمل قرار دے چکے ہیں۔ پاکستان کو دہشت گرد قرار دیئے جانے کی صورت میں صدر ٹرمپ کے لیے پاکستان سے سفارتی تعلقات رکھنا غیر قانونی قرار پائے گا جس کی وجہ سے عسکری نقل و حرکت کے لیے پاکستانی سرزمین کا استعمال امریکیوں کے لیے ناممکن ہوگا۔ ایران سے کشیدگی نے بھی امریکہ کے لیے مشکلات پیدا کردی ہیں۔ صدر ٹرمپ ایران سے ہونے والے جوہری معاہدے سے جان چھڑانا چاہتے ہیں اور شاید یہی وجہ ہے کہ خلیج فارس کے ساتھ یمن سے منسلک آبنائے باب المندب میں امریکی بحریہ کے گشت میں اضافہ ہوگیا ہے اور امریکی ڈرون سے یمن کے ایران نواز حوثی باغیوں کو نشانہ بنانے کی خبریں آرہی ہیں۔ شام میں بھی امریکی فوج نے ایرانی پاسداران کے خلاف جارحانہ مورچہ بندی شروع کردی ہے۔ رقہ سمیت کئی مقامات پر امریکہ کی پشتی بانی میں’آزاد شام‘ کے چھاپہ مار شامی فوج اور اس کے ایرانی و روسی حلیفوں پر حملے کررہے ہیں۔ امریکہ کے خفیہ ادارے الزام لگا رہے ہیں کہ تہران افغانستان میں طالبان کی پیٹھ ٹھونک رہا ہے۔ حال ہی میں قندوز سمیت فارسی بان علاقوں میں طالبان نے کامیاب کارروائیاں کی ہیں۔ امریکیوں کے خیال میں یہ ایران کی پشت پناہی کا نتیجہ ہے۔
اس پس منظر میں واشنگٹن افغانستان کی جنوبی اور مشرقی سرحدوں پر کشیدگی بڑھانے کا خطرہ مول لینے کو تیار نہیں۔ امریکہ کے لیے اس وقت سب سے بڑا دردِسر پاکستان اور ترکی کے روس سے بڑھتے ہوئے تعلقات ہیں۔ شام میں روس اور ترکی کے تعاون کی بنا پر چچا سام کو سیاسی تنہائی کا سامنا ہے اور علاقے پر چودھراہٹ برقرار رکھنے کے لیے اسے اپنے فوجی دستے بھیجنے پڑے ہیں، جس پر صدر ٹرمپ کو ڈیموکریٹک پارٹی کی جانب سے مخالفت کا سامنا ہے۔ فی الحال تو امریکی فوج کی کارروائی آزاد شام کے رضاکاروں کی مشاورت اور حساس معلومات کی فراہمی تک محدود ہے، لیکن روسی فوج جلد یا بدیر اسے جنگ کے میدان میں ضرور گھسیٹے گی، جس کے بعد شام بھی امریکہ کے لیے افغانستان کی طرح دلدل بن سکتا ہے۔
اس پس منظر میں پاکستان کو دہشت گرد ریاست قرار دے کر اسے دیوار سے لگانا، یا ماسکو کی طرف دھکیلنا واشنگٹن کے مفاد میں نہیں۔ واشنگٹن کے صحافتی حلقوں کا خیال ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ اور امریکہ کے نظریاتی تھنک ٹینک اس بل کو پاکستان پر دباؤ کے لیے استعمال کریں گے۔ بل رکوانے یا کارروائی معطل کرنے کے لیے ڈاکٹر شکیل آفریدی کی رہائی، آسیہ بی بی کی بریت، حقانی نیٹ ورک کے خلاف سخت کارروائی اور پاکستان کے آئین سے ختمِ نبوت کی ترمیم کے خاتمے کا مطالبہ کیا جائے گا۔ واشنگٹن کے دباؤ کو پاکستان کا سیکولر طبقہ اپنے ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے لیے بھرپور انداز میں استعمال کرے گا۔ یہ بل وزیراعظم نوازشریف کے لیے لبرل و آزاد خیالی کا کارڈ ثابت ہوسکتا ہے۔ وہ اپنے مذہبی حلیفوں کو دہشت گرد ریاست اور عالمی تنہائی کا خوف دلاکر ختمِ نبوت ترمیم کے تعطل کی کڑوی گولی نگلنے پر مجبور کرسکتے ہیں، یا کم ازکم ڈاکٹر شکیل آفریدی کی رہائی پر تو اجماع ہو ہی جائے گا۔
nn