آئین کی رو سے ملک میں ہر10 سال بعد خانہ شماری اور مردم شماری کرائی جانی چاہیے، لیکن بدقسمتی سے پاکستان میں کئی وجوہات کی وجہ سے ہمیشہ یہ عمل تعطل کا شکار ہی رہا ہے۔ امسال سپریم کورٹ کے حکم کے بعد پاکستان میں 19 سال بعد مردم و خانہ شماری کا آغاز فوج کی نگرانی میں ہوچکا ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ مردم شماری ہر10 سال بعد کرائی جانی کیوں ضروری ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ آبادی کی درست تعداد معلوم ہو سکے، اور اُس کی بنیاد پر اُن کی نمائندگی یعنی قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں نشستوں کی تعداد طے کی جا سکے۔ اِس کے علاوہ آبادی کے تناسب سے نیشنل فنانس کمیشن کے ذریعے صوبوں کو فنڈ اور وسائل مہیا کرنا اور سرکاری ملازمتوں میں کوٹے بھی اِسی مردم شماری کے اعداد کی بنیاد پر مختص کیے جاتے ہیں۔
1951ء میں کی جانے والی پہلی مردم شماری میں پاکستانیوں کی تعداد 3 کروڑ 37 لاکھ سے زیادہ تھی، جبکہ 1998ء میں ہونے والی آخری مردم شماری میں پاکستان کی آبادی 13 کروڑ 23 لاکھ سے زیادہ تھی۔ اِس طرح 47 سال کے دوران پاکستان کی آبادی میں 9 کروڑ 86 لاکھ 12 ہزار افراد کا اضافہ ہوا تھا۔ آخری مردم شماری کے مطابق پاکستان میں مرد، عورتوں کے مقابلے میں 50 لاکھ زیادہ تھے۔ مردم شماری میں ہر انسان کی معلومات جمع کی جائیں گی۔ سفراء کی معلومات دفترِ خارجہ سے حاصل کی جائیں گی جبکہ پناہ گزینوں کی معلومات کیمپ انتظامیہ سے حاصل کی جائیں گی۔ یہ معلومات گھر گھر جاکر جمع کی جائیں گی، جس میں فیلڈ آپریشن (طریقہ کار) کے تحت خانہ و مردم شماری ایک وقت میں ایک ساتھ تمام صوبوں میں بیک وقت شروع ہوچکی ہے جس میں دو فارم ترتیب دیے گئے ہیں۔ فارم 1 خانہ شماری اور فارم 2 مردم شماری۔ پہلے مرحلے میں بلاک ایک کے تحت خانہ شماری 15تا17 مارچ، فارم 2 کی تقسیم 18تا27 مارچ، بے گھر آبادی کا شمار 28 مارچ اور فارم 2 جمع کرنا اور محفوظ بنانا 29تا 30 مارچ ہوگا۔ پہلے مرحلے کے دوسرے بلاک کے تحت خانہ شماری 31 مارچ سے 2 اپریل، فارم 2 کی تقسیم 3تا12 اپریل، بے گھر آبادی کا شمار 13 اپریل، فارم 2 جمع کرنا اور محفوظ بنانا 14 اپریل تک ہوگا۔ جبکہ دوسرا مرحلہ پہلے مرحلے کے دس دن کے وقفے کے بعد 25 اپریل کو شروع ہوکر 25 مئی کو ختم ہوگا۔ مردم شماری کا عملہ مردم شماری کا فارم 2 پُر کرنے کے لیے گھر گھر جائے گا۔ مردم شماری میں پوچھے جانے والے سوالات میں گھر کے افراد، عمر، جنس، تعلیم، مذہب، مادری زبان، خواندگی، رہائش کی نوعیت اور ملکیت، پانی، نکاسی آب سمیت دیگر سہولیات کے حوالے سے بھی سوالات ہوں گے۔ گھر میں حاضر یا غیر حاضر افراد کے نام پوچھے جانے سمیت گھرانے میں سے کسی ایک فرد کا قومی شناختی کارڈ مانگا جائے گا۔ گھرانے کے سربراہ سے رشتہ، جنس، تعلیم، ازدواجی حیثیت، مذہب، مادری زبان، خواندگی، عمر اور شناختی کارڈ کی معلومات لی جائیں گی۔ فارم 2 پر خانہ شماری کے کوائف بھی درج کیے جائیں گے۔ اس میں رہائشی نوعیت و ملکیت کی معلومات، گھر ذاتی ہے یا نہیں، مکان مالک کی جنس مرد ہے یا عورت، گھر کے کمروں کی تعداد کا پوچھا جائے گا، گھر کب تعمیر ہوا، گھر کس میٹریل سے بنا ہے، پینے کے پانی، نکاسئ آب، گھر میں روشنی یا ایندھن، بجلی اور گیس کی فراہمی سے متعلق اعداد و شمار لیے جائیں گے۔ گھر میں باورچی خانہ، غسل خانہ اور بیت الخلا ہے یا نہیں؟ اگر ہیں تو نوعیت کیا ہے۔ گھر میں ٹی وی، ریڈیو، اخبار، ٹیلی فون، موبائل اور انٹرنیٹ جیسی کون کون سی سہولیات موجود ہیں۔ کیا گھرانے میں سے کوئی فرد چھ ماہ یا اس سے زائد عرصے سے بیرون ملک گیا ہوا ہے وغیرہ وغیرہ۔ اس مردم شماری میں فاٹا، گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کو فیز 2۔1 میں تقسیم کیا گیا ہے، جبکہ راولپنڈی اور اسلام آباد میں خانہ و مردم شماری 30 مارچ سے شروع ہوکر 23 مئی کو ختم ہوگی۔ اسی طرح خانہ و مردم شماری کو چار یونٹس میں تقسیم کیا گیا ہے، جس میں بلاک 250۔200 گھر، سرکل پٹوار، شہری آبادی کا کچھ حصہ، کنٹونمنٹ یعنی 7۔5 بلاک، چارج حلقہ، شہری آبادی کا کچھ حصہ، کنٹونمنٹ یعنی 7۔5 سرکلز اور ڈسٹرکٹ ضلع، تحصیل، تعلقہ اور کنٹونمنٹ شامل ہیں۔ خانہ و مردم شماری کے لیے افرادی قوت اور کل بجٹ کے ضمن میں 8 انتظامی یونٹس میں کل 118826 افراد اور دو لاکھ فوجی اہلکار شامل ہوں گے، جبکہ کل بجٹ ساڑھے 18 ارب میں سے افواجِ پاکستان کے لیے 6 ارب، سویلین کے لیے 6 ارب اور ٹرانسپورٹ کے لیے 6 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔ اس مردم شماری میں کچھ غیرمعمولی اقدامات بھی کیے گئے ہیں جو اس سے قبل ہونے والی مردم شماری کا حصہ نہیں تھے۔ قومیت کے حوالے سے دو خانے شامل ہیں جس میں اندراج کرانے سے ملک میں موجود غیر ملکی افراد کی درست تعداد کا تعین کیا جاتا ہے۔ اس حوالے سے کچھ ذیلی فارم بھی بھروائے جائیں گے۔ اس کے علاوہ گرچہ پاکستان میں 70 کے قریب علاقائی اور مادری زبانیں بولی جاتی ہیں لیکن مردم شماری کے فارم میں ان میں سے سب سے زیادہ بولی جانے والی 9 زبانوں کو فارم کا حصہ بنایا گیا ہے جس سے معلوم ہوگا کہ ملک میں بولی جانے والی زبانوں کی تعداد کیا ہے اور کتنے لوگ اس زبان میں بات کرتے ہیں۔ اس مرتبہ ہونے والی مردم شماری میں ملک کی تاریخ میں پہلی بار تیسری جنس سے تعلق رکھنے والے افراد کا بھی ڈیٹا جمع کیا جائے گا، تاہم یہ ڈیٹا مردم شماری کے فارم میں شامل نہیں بلکہ اس کے لیے علیحدہ سے فارم بھرنا ہوگا۔ مردم شماری میں جہاں جنس، عمر، زبان اور قومیتوں کا اندراج ہوگا وہیں پاکستان میں مقیم مذہبی اقلیتوں کا بھی اندراج کیا جائے گا، جس سے ملک میں موجود مذہبی اقلیتوں جیسے ہندو، عیسائی اور دیگر مذہب کے ماننے والے افراد کی درست تعداد کا علم ہوسکے گا۔ بعض ماہرین کا خیال ہے اور کچھ سوچنے اور غورو فکر کرنے والے لکھتے بھی رہے اور مردم شماری کے نظام پر سوال بھی اٹھاتے رہے ہیں، کیوں کہ ہمارا ماضی کا تجربہ اتنا اچھا نہیں رہا ہے۔ چونکہ نئی مردم شماری کی بنیاد پر اسمبلیوں کی نئی حلقہ بندیاں، قومی وسائل کی تقسیم اور ملازمتوں کے کوٹے مختص کیے جاتے ہیں اس لیے بااثر سیاسی قوتیں اپنے علاقے کی آبادی زیادہ دکھانے کے لیے ہمیشہ شماریاتی عملے کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔ اور اِس سال بھی اس کے امکانات موجود ہیں-
بعض لوگوں کو خدشہ ہے کہ اگر موجودہ طریقے سے مردم شماری کرائی گئی تو وفاقی اکائیوں کے درمیان اتفاق و اتحاد کے بجائے کشیدگی پیدا ہوگی۔ لیکن ماہرین کا ایک طبقہ یہ بھی کہتا ہے کہ دیر آید درست آید کے مصداق مردم شماری کو خوش آمدید کہنا چاہیے اور ماضی کے بجائے مستقبل کی جانب دیکھتے ہوئے صاف، شفاف اور محفوظ مردم شماری کے لیے توانائیاں صرف کرنی چاہئیں، کیوں کہ قوموں کی اجتماعی زندگی میں درست مردم شماری تعمیر و ترقی کی ضامن ثابت ہوتی ہے۔
nn