(پاک افغان سرحس کی نگرانی کا فیصلہ(عالمگیر آفریدی

پاک افغان بارڈر پندرہ دن تک بند رہنے کے بعد دو روز تک تمام شہریوں کے لیے کھولے جانے کے باوجود ٹریفک خاص کر تجارتی گاڑیوں کے لیے تاحال بند رہنے سے دونوں جانب کے تاجروں کو کروڑوں روپے کا نقصان ہوچکا ہے۔ یہ فیصلہ چونکہ اچانک اور سرحدی خلاف ورزیوں کے علاوہ پاکستان میں پے درپے دہشت گردی کے واقعات کے ردعمل میں کیا گیا تھا، اس لیے اس فیصلے کے نتیجے میں نہ صرف دونوں جانب عام مسافر بڑی تعداد میں پھنس گئے تھے بلکہ وہ تجارتی گاڑیاں بھی پھنس کر رہ گئی تھیں جو دونوں جانب سے سامان لے کر عازمِ سفر تھیں۔ سلالہ چیک پوسٹ پر حملے کے بعد یہ دوسرا موقع تھا جب پاکستان نے احتجاجاً سرحد بند کرنے کا فیصلہ کیا۔ اُس وقت کا فیصلہ چونکہ براہِ راست امریکہ اور اُس کے مفادات سے متعلق تھا اس لیے اس فیصلے کا اثر بہت دور تک گیا تھا اور اس کی بازگشت بہت دور تک سنی گئی تھی، البتہ حالیہ فیصلہ چونکہ افغان حکومت کی مسلسل ہٹ دھرمی اور افغان سرزمین پاکستان کے خلاف مسلسل استعمال ہونے کے باعث سامنے آیا ہے اس لیے اس فیصلے کا زیادہ تر اثر افغانستان اور اُس کے شہریوں پر پڑا ہے۔
پاکستان اور افغانستان کے تعلقات ماضی میں شاید اتنے کشیدہ اور خراب کبھی نہیں رہے جتنے آج کل ہیں۔ اس نکتے کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ سوال انتہائی اہمیت اختیار کرجاتا ہے کہ آخر وہ کیا اسباب ہیں جن کے باعث یہ دو قریبی مسلمان پڑوسی ممالک مشترکہ ثقافت، لسانی، مذہبی اور تاریخی رشتوں سے جڑے ہونے کے باوجود عملاً ایک دوسرے سے بہت دور بلکہ باہم متصادم نظر آتے ہیں؟ اگر ہم ماضی میں پاک افغان تعلقات کے اتار چڑھاؤ اور بالخصوص افغان حکمرانوں کے پاکستان مخالف معاندانہ رویوں پر نظر دوڑائیں تو اس سوال کا جواب ڈھونڈنا آسان ہوجائے گا۔ پاکستان اور افغانستان کی ہمسائیگی شریک تاریخ میں طالبان دورِ حکومت کے چھے سالہ عرصے کو چھوڑ کر کوئی ایک دن بھی ایسا نہیں آیا جب افغانستان کی جانب سے پاکستان کے خلاف مخاصمانہ اور معاندانہ رویہ نہ رہا ہو۔ ظاہر شاہ اور سردار داؤد کے ادوار سے لے کر ببرک کارمل اور ڈاکٹر نجیب اللہ تک، اور پروفیسر برہان الدین ربانی کے عرصۂ صدارت سے لے کر حامد کرزئی اور موجودہ افغان صدر ڈاکٹر اشرف غنی کے عہدِ صدارت تک ہر دور میں افغان سرزمین پاکستان کے خلاف پراکسی وار کے لیے استعمال ہوتی رہی ہے۔ یہ ہماری بدقسمتی ہے یا حُسنِ اتفاق کہ افغان سرزمین ہمارے خلاف پہلے سوویت یونین اور بھارت مل کر استعمال کرتے رہے، اور اب سپر طاقت امریکہ اور بھارت گٹھ جوڑ افغان سرزمین سے پاکستان کے خلاف سازشوں میں مصروف ہے۔ امریکہ میں پاکستان کے سابق سفیر حسین حقانی نے اپنے ایک حالیہ مضمون میں ایبٹ آباد آپریشن میں امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے اور افغان سرزمین کے استعمال کا جو انکشاف کیا ہے وہ اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ افغان سرزمین پاکستان کی سالمیت اور اس کی خودمختاری کے خلاف استعمال ہوتی رہی ہے۔ ساٹھ اور ستّر کی دہائیوں میں پختونستان اور آزاد بلوچستان کی پاکستان مخالف مسلح تحریکیں، اور ان تحریکوں کو افغان حکمرانوں کی جانب سے ملنے والی پذیرائی، اور اس سلسلے میں کئی سرکردہ پختون اور بلوچ راہنماؤں کی افغانستان میں کھلی آؤ بھگت اور ان کو ملنے والی پناہ اور پروٹوکول ایک ایسا کھلا راز ہے جس سے ہر کوئی بخوبی واقف ہے۔ الذوالفقار نامی پاکستان مخالف مسلح تنظیم کابل سے آپریٹ ہونے، اس تنظیم کے کرتا دھرتاؤں کے کابل میں مقیم ہونے اور افغان حکومت کی جانب سے ملنے والی پذیرائی تلخ حقائق ہیں جنہیں کوئی جھٹلانا بھی چاہے توجھٹلا نہیں سکتا۔ حالیہ دنوں میں بعض مسلح عسکریت پسند گروپوں کی جانب سے پاکستان کے خلاف افغان سرزمین کے استعمال اور ان تنظیموں کی افغان سرزمین پر کھلم کھلا موجودگی، اور ان کی جانب سے پاکستان میں دہشت گردی کے مختلف واقعات کی ذمہ داری قبول کرنے پر پاکستان کی جانب سے افغان حکومت سے ان گروپوں کے خلاف کارروائی کے باربار مطالبات کے باوجود اب تک افغان حکومت نے پاکستان کے ان سنجیدہ مطالبات کا کوئی مثبت جواب دیا ہے اور نہ ہی پاکستان کو مطلوب دہشت گرد گروپوں کے خلاف اب تک کسی معمولی کارروائی کا بھی کوئی عندیہ دیا ہے، جس سے پاکستان کے پاس اپنی سرحدوں کی بندش اور بارڈر مینجمنٹ کے سوا اور کوئی آپشن نہیں بچا ہے۔
یہ بات اہمیت کی حامل ہے کہ پاکستان نے اپنی ستّر سالہ تاریخ میں پہلی دفعہ افغانستان کے ساتھ اپنی سرحد کو نہ صرف ریگولیٹ کرنے کا فیصلہ کیا ہے بلکہ بارڈر مینجمنٹ کے تحت طورخم اور چمن کے علاوہ وانا، میران شاہ، مہمند اور کرم ایجنسی کے پاک افغان راستوں پر باقاعدہ گیٹ بناکر ویزا انٹری پوائنٹس بنانے کے لیے اقدامات بھی اٹھانا شروع کردیئے ہیں۔ جب کہ اس ضمن میں ایک اور بڑا قدم ڈھائی ہزار کلومیٹر طویل پاک افغان بارڈر پر باڑ لگانے کے علاوہ خندق کھودنے کی صورت میں بھی اٹھانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ واضح رہے کہ اس سلسلے میں قندھار چمن بارڈر پر خندق کھودنے کا کام مکمل ہوچکا ہے اور اب قبائلی علاقوں اور افغانستان کے درمیان 13 سو کلومیٹر بارڈر پر باڑ لگانے کا اصولی فیصلہ کیاگیا ہے۔ ان اقدامات سے بظاہر یہی نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ پاک افغان تعلقات میں، آنے والے دنوں میں بہتری کی کچھ زیادہ امید نہیں کی جا سکتی، بلکہ پاکستان کے ان سخت اقدامات سے ان تعلقات کے مزید خراب ہونے کے امکانات کو بھی رد نہیں کیا جا سکتا۔ افغان بارڈر پر پاکستان کے ان سخت اقدامات اور فیصلوں سے یوں لگ رہا ہے کہ پاکستان اپنی مغربی سرحدوں کو محفوظ بنانے کے لیے وہی روایتی اور غیر حکیمانہ اقدامات اٹھانے کی راہ پر چل پڑا ہے جو عموماً دشمن یا ناپسندیدہ ممالک کے خلاف اٹھائے جاتے ہیں۔ اس ضمن میں ایک اہم مثال بھارت کی ہے جس نے پاکستان کو ہمیشہ ایک دشمن ملک سمجھتے ہوئے شک سے دیکھا ہے، اور یہی وجہ ہے کہ اُس نے
(باقی صفحہ 47پر)
پاکستان کی مشرقی سرحدوں پر سیکورٹی اور بارڈر مینجمنٹ کے سخت اقدامات اٹھا رکھے ہیں جن میں باڑ کی تعمیر کے علاوہ خندقیں کھودنا بھی شامل ہے۔ یہاں یہ سوال اٹھایا جاسکتا ہے کہ اس صورت حال میں پاکستان کے پاس اور کیا آپشن ہے کہ پاک افغان تعلقات بھی خراب نہ ہوں اور افغانستان سے پاکستان کے خلاف جو کارروائیاں ہورہی ہیں ان کی روک تھام کی بھی کوئی صورت نکل آئے؟ گو کہ یہ انتہائی مشکل اور پیچیدہ سوال ہے لیکن اگر تھوڑی سی کوشش کے علاوہ بعض غیر روایتی اقدامات اٹھانے کا فیصلہ کرلیا جائے تو شاید پھر اتنے سخت اور مہنگے اقدامات کی ضرورت باقی نہیں رہے گی۔ یہ بات ٹھیک ہے کہ اس ضمن میں ’’تالی ایک ہاتھ سے نہیں بجتی‘‘ کا مقولہ سو فیصد صادق آتا ہے، لیکن اگر پاکستان متذکرہ سخت اقدامات کے بجائے انگلی ذرا سی ٹیڑھی کرکے اپنا کام نکالنے کی کوشش کرے تو شاید یہ بھی ایک بہتر آپشن ثابت ہوسکتا ہے۔
حرفِ آخر یہ کہ دشمنوں میں اضافے کا زیادہ نقصان یقیناًپاکستان ہی کو ہوگا، اور پاکستان کے دشمن ممالک اس صورت حال کو بگاڑنے اور اسے اپنے مذموم مفادات کے لیے استعمال کرنے کی یقیناًمزید سازشیں کریں گے، جو آگے جاکر پاکستان کے حق میں فائدے کے بجائے مزید نقصان کا باعث ثابت ہوسکتی ہیں۔ لہٰذا پاکستان کو ہرقدم خوب سوچ سمجھ کر اور احتیاط سے اٹھانا چاہیے، کیونکہ دشمنوں میں اضافے کو عقلمندی نہیں بلکہ بے وقوفی گردانا جاتا ہے۔