موبائل فون چھن جانے کی صورت میں اسے فوری تباہ کرنے والا نظام

موبائل فون چھن جانے کی صورت میں اسے فوری تباہ کرنے والا نظام
سعودی عرب کے انجینئروں نے موبائل فون چوری ہونے کی صورت میں ایسا سیکورٹی نظام تیار کیا ہے جو چوری ہوجانے پر موبائل فون کو صرف 10 سیکنڈ میں تباہ کرسکتا ہے۔
سعودی عرب میں شاہ عبداللہ یونیورسٹی برائے سائنس و ٹیکنالوجی (کے اے یوایس ٹی) کے برقی انجینئروں نے یہ سیکورٹی نظام بنایا ہے۔ آئی ای ای ای اسپیکٹرم نامی جریدے میں شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق اس کا مقصد حساس فون کو غلط ہاتھوں میں جانے سے روکنا ہے۔ اس کے ایک چھوٹے نظام میں لچکدار پالیمر پھیل کر سلیکان کی پتلی تہہ پر زور ڈالتا ہے اور سلیکان پالیمر کے اوپر دھرا ہوتا ہے۔ اس طرح یہ پھیل کر پھٹ جاتا ہے۔ پالیمر چوری شدہ آلے کی بیٹری سے بجلی حاصل کرتی ہے۔ پہلے مرحلے میں بجلی کے ذریعے 80 درجے سینٹی گریڈ کا درجہ حرارت پیدا ہوتا ہے جو پالیمر کو پھیلانے کی وجہ بنتا ہے۔ اس کے ذریعے ریموٹ کنٹرول انداز میں بیٹری 7 گنا تک پھول کر پھٹ جاتی ہے اور اس کے لیے توانائی ایک مقام پر جمع ہوتی ہے۔ ماہرین چاہتے ہیں کہ یہ ٹیکنالوجی حساس ادارے اور ایجنسیاں استعمال کریں تاکہ وہ اپنے قیمتی لیپ ٹاپ، ٹیبلٹس اور فونز کو غلط ہاتھوں تک جانے سے بچا سکیں۔ اس نظام میں اس کام کے لیے حرارت پیدا کرنے والے الیکٹروڈ لگائے گئے ہیں جو 500 سے 600 ملی واٹ بجلی پہنچنے پر صرف 10 سے 15 سیکنڈ میں پورے نظام کو پھیلا کر تباہ کرڈالتے ہیں۔یہ بالکل کسی مشن امپاسبل فلم جیسا منظر ہے جس میں ہیرو کے خاص آلات ڈبے سے باہر آتے ہی روشنی کی صورت میں ازخود تباہ ہوجاتے ہیں۔ اس نظام کا تیسرا تجربہ بھی کیا گیا جس میں ایک پریشر سینسر لگایا گیا اور جھٹکے سے موبائل کھولنے پر موبائل فون کی چِپ ازخود تباہ ہوگئی۔ ٹیکنالوجی کے تحت اس کا خاص نظام بیٹری سے توانائی حاصل کرتا ہے اور 80 درجے سینٹی گریڈ پر پہنچنے سے پھٹ جاتا ہے۔ چوتھے تجربے میں اسمارٹ فون کو ایک ایپ کے ذریعے دور سے تباہ کرنے کا تجربہ کیا گیا۔ جیسے ہی ایپ میں پاس ورڈ داخل کیا گیا، چوری شدہ فون کی چپ تباہ ہوکر ختم ہوگئی۔ اس پورے نظام کی قیمت زیادہ سے زیادہ 15 ڈالر ہوگی۔ سائنس دانوں کے مطابق یہ نظام بطورِ خاص فوجیوں، انٹیلی جنس افسروں، بینک افسران اور سیکورٹی ماہرین کے لیے تیار کیا گیا ہے۔
فیس بک نے میسنجر میں ’’ڈس لائیک‘‘ بٹن کی آزمائش شروع کردی
سوشل میڈیا کی مقبول ترین ویب سائٹ فیس بک نے اپنے میسنجر میں ناپسندیدگی یعنی ’’ڈس لائیک‘‘ کا بٹن متعارف کرادیا، لیکن اس کی فی الحال آزمائش کی جارہی ہے۔
گزشتہ سال جولائی تک فیس بک میسنجر پر ایک ارب افراد موجود تھے، جب کہ پورے فیس بک سسٹم کو 2 ارب افراد استعمال کررہے تھے۔ فیس بک کی جانب سے اس میسنجر کو 2011ء میں متعارف کرایا گیا تھا جس کے ذریعے صارفین اپنے دوستوں کو ذاتی پیغامات، چیٹ، مفت کالز اور گروپ چیٹ کرسکتے ہیں۔ پھر میسنجر میں دھیرے دھیرے احساسات بیان کرنے والی تصاویر اور ایموجی پیش کیے گئے جس میں پیار، غصہ اور اداسی وغیرہ سمیت 6 احساسات شامل ہیں۔ لیکن ان میں ’لو‘ یعنی محبت کا ایموجی سب سے زیادہ استعمال کیا جاتا ہے، اور اب تک 300 ارب افراد اسے استعمال کرچکے ہیں۔
فیس بک کے نزدیک ’’ڈس لائیک‘‘ کا بٹن کسی گفتگو سے عدم اتفاق کو ظاہر کرے گا۔ فیس بک چاہتا ہے کہ ڈس لائیک کو کسی گروپ چیٹنگ یا معاملے پر ووٹ کے طور پر بھی استعمال کیا جاسکے۔ اس سے قبل بھی فیس بک پر تھمبر ڈاؤن بٹن کا مطالبہ کیا جاتا رہا تھا لیکن فیس بک کسی منفی جذبے کو پروان چڑھانے سے کترا رہا تھا۔فیس بک کے ایک آفیشل کے مطابق اس کی آزمائش جاری ہے اور ان کا کہنا ہے کہ وہ فیس بک میسنجر کو ہمیشہ دلچسپ اور متاثر کن بنانے کے خواہاں رہے ہیں، توقع ہے کہ کامیابی کی صورت میں اسے باقاعدہ طور پر فیس بک کا حصہ بنادیا جائے گا۔
ورلڈ وائیڈ ویب کے بانی ٹم برنرز لی کا انٹرنیٹ پر جعلی خبریں روکنے کا منصوبہ
ورلڈ وائیڈ ویب کے بانی ٹم برنرز لی کا انٹرنیٹ پر جعلی خبریں روکنے کا منصوبہ