یہ بات اپنے صحافی بھائیوں کو کئی بار سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ ’’بیرونِ ممالک‘‘ کی اصطلاح غلط ہے، لیکن جسارت سمیت کئی اخبارات میں یہی پڑھنے کو ملتا ہے۔ ذرا سی دیر کو اس کے مطلب پر غور ہی کرلیا جائے۔ بیرونِ ممالک کا مطلب ہوا ’’ممالک کے باہر‘‘۔ جب کہ کہنے یا لکھنے والے کا مطلب ہوتا ہے ’ملک کے باہر‘ یا ’دوسرے ممالک میں‘۔ چنانچہ بیرونِ ملک لکھا جائے یا بیرونی ممالک۔ اُس وقت زیادہ حیرت ہوتی ہے جب کوئی بڑا ادیب اور 5 درجن کتابوں کا مصنف و شاعر بیرونِ ممالک استعمال کرے۔ ایک بڑے مؤقر رسالے رنگ ادب، کتابی سلسلہ 42۔43 میں ایسے ہی ایک ادیب جن کا نام ردالفساد کی وجہ سے دینا مناسب نہیں ہے، نے دل کو چھو لینے والے اپنے ایک مضمون میں ’’بیرونِ ممالک‘‘ کی غلط ترکیب استعمال کی ہے۔ لیکن اس سے زیادہ حیرت اردوکے ایک محاورے کو بگاڑنے کی کوشش پر ہے۔ محاورے کسی بھی زبان کے ہوں، ان میں تبدیلی نہیں کی جاتی، جب کہ موصوف نے لکھا ہے ’’گدھوں کی بددعا سے ڈنگر مرا نہیں کرتے‘‘۔ بھئی، گدھا تو خود ایک ڈنگر ہے، بھلا وہ اپنے ساتھیوں کو بددعا کیوں دینے لگا! کیا ہی اچھا ہوتا کہ صحیح محاورے کے لیے کسی لغت سے رجوع کرلیا جاتا۔ ہم نے تو یہ محاورہ یوں سنا ہے ’’کوّوں کے کوسے سے ڈھور نہیں مرا کرتے‘‘۔ گدھوں کے مقابلے میں کوّوں کا کوسنا قرین قیاس ہے، کیوں کہ ایک اور محاورہ ہے ’’کوّا ٹرٹراتا ہے، دھان پکتے ہیں‘‘۔ لغت میں تو ایسے ہی ہے لیکن کوّے کا ٹرٹرانا سمجھ میں نہیں آیا، کوّے تو کائیں کائیں کرتے ہیں۔ ممکن ہے یہ وہ کوّا ہو جس پر طنز کیا جاتا ہے کہ ہنس کی چال چلنے کی کوشش میں اپنی بھی بھول بیٹھا۔ لیکن یہ الزام کوّے ہی پر کیوں، کتنے ہی انسان اس کے مکلف ہیں۔
ایک اور بڑے محترم ادیب اور صحافی ڈاکٹر حسین احمد پراچہ کے مضمون میں ایک جملہ ہے ’’قلم و مو قلم کا شناور‘‘۔ بے شک یہ انہوں نے اپنے بھائی کی تعریف میں لکھا ہے، لیکن ڈاکٹر صاحب کو ’’شناور‘‘ کا مطلب تو معلوم ہی ہوگا۔ شِنا (فارسی، بکسر اول) پیرنا یا تیرنا، پانی میں ہاتھ پاؤں مارنا۔ شِناور کا مطلب ہے تیرنے والا۔ قلم و موقلم کوئی دریا یا تالاب نہیں جس میں ڈبکیاں لگائی جائیں۔ قلم البتہ دوات میں ڈبکیاں لگاتا تھا، اور اب تو قلم دوات کا رواج ہی ختم ہوتا جارہا ہے۔
ایک مشورہ ہم پہلے بھی دے چکے ہیں، ایک بار پھر سہی۔ ’ہی‘ کا، کے، کی سے پہلے آنا چاہیے۔ مثلاً ’آپ ہی کا‘، نہ کہ ’آپ کا ہی‘ یا ’آپ ہی کی بات ہے‘۔ اسی طرح ہمارے صحافی بھائی کوشش کریں کہ لفظ ’ہر‘ کو واحد کے ساتھ استعمال کریں، یہ جمع کے ساتھ استعمال نہیں کیا جاتا۔ مثلاً ہردفعہ، ہر بار، ہر گھڑی۔ داغؔ کا مصرع ہے:
اک آن ستم گر میں ہر آن نکلتی ہے
یا یہ مصرع دیکھیے:
ہیں حسیں اور بھی پر تجھ میں ہے ہر بات نئی
صحافی حضرات ذرا سی احتیاط کرلیں تو کچھ حرج نہیں ہے۔ ہمارا مقصد ہرگز بھی لوگوں کی غلطیاں پکڑنا اور خود کو ماہرِ لسانیات ثابت کرنا نہیں۔ لیکن برقی اور ورقی ذرائع ابلاغ میں قومی زبان اردو کی جو درگت بن رہی ہے اور بنائی جارہی ہے اس میں کسی حد تک روک لگانا مقصد ہے، ورنہ تو بیشتر الفاظ ’’غلط العام‘‘ کی سند حاصل کرکے فصیح سمجھے جانے لگے ہیں۔ مثلاً لیے، دیے، کیے کے حوالے سے جب یہ لکھا کہ ان حروف پر ہمزہ نہیں آتی یعنی لئے، کئے وغیرہ غلط ہے تو ایک برقی پیغام آیا کہ تمام اخبارات میں یہی شائع ہورہا ہے۔ یعنی اب اسی کو صحیح قرار دے دیا جائے! یہ دلیل دینے میں وہ بھی شامل ہیں جو فکرِ مودودیؒ کے اسیر ہیں۔ سید کا پورا ترجمۂ قرآن کریم پڑھ ڈالیے، اس میں املا کی یہ بدعت نہیں ملے گی۔
اس کالم میں ہم سے بھی سہو ہوتا ہے اور قارئین تصحیح کردیتے ہیں۔ ان کے شکریے کے ساتھ یہ تصحیح بھی شامل کرلی جاتی ہے۔ شمارہ 8 کے مضمون میں ہم نے لفظ ’’شعب‘‘ کے حوالے سے لکھا تھا کہ اس کا مطلب گھاٹی ہے، چنانچہ شعبِ ابی طالب کی گھاٹی لکھنا یا کہنا صحیح نہیں ہے۔ اس پر احمدانی کالونی، میرپورخاص سے بہت دن بعد جناب باب الدین نے یاد کیا ہے، وہ لکھتے ہیں کہ شعب کے املا کے ساتھ یہ دو الگ الفاظ ہیں جن کا تلفظ مختلف ہے۔ 1۔ ’شِعْب‘ معنیٰ گھاٹی، درہ۔ اس کی جمع شعاب ہے۔ 2۔ ’شَعْب‘ (شین بالفتح) معنی گروہ، بڑا قبیلہ، عوام۔ آج کل عربی میں پاکستان کے عوام کو ’’شَعْبُ باکستان‘‘ لکھتے ہیں۔ اس کی جمع شعوب ہے۔
بھائی باب الدین، اس وضاحت کا بہت شکریہ، لیکن ہماری بات تو اپنی جگہ ہے کہ شِعب کے ساتھ گھاٹی نہیں لکھنا چاہیے۔
لاہور سے ہمارے نادیدہ ممدوح جناب افتخار مجاز نے جوال کے ذریعے اطلاع دی ہے کہ ’’سر پہ دستار رکھنے والے ایک کالم نگار جو اردو ادب کے استاد اور پی ایچ ڈی کی فضیلت رکھتے ہیں، ایک تقریب میں کہہ رہے تھے کہ لاہور کی مال روڈ آج بھی ناصر کاظمی کے پاؤں کی دستک سنتی ہے‘‘۔ افتخار مجاز کا کہنا ہے کہ ’’دستک تو ہاتھ کی ہوتی ہے، پاؤں کی تو چاپ ہوتی ہے۔ مگر کون سمجھائے ادب کے ان علاماؤں کو‘‘۔
بھائی افتخار مجاز، جب پی ایچ ڈی کی اضافی دستار رکھنے والا ایک ادیب و کالم نگار ایسا کہہ رہا ہے تو شاید وہی صحیح ہو، اور پاؤں کی دستک بھی ہوتی ہو۔ اب کھڑویں پہننے کا رواج تو کب کا ختم ہوا۔ صرف بدھ بھکشو پہنے ہوئے تصویروں میں نظر آجاتے ہیں۔ کھڑاؤں پہن کر جب کوئی سڑک سے گزرتا تھا تو ایسا ہی لگتا تھا جیسے دستک دیتا جارہا ہو۔ ناصر کاظمی کی زندگی میں کسی نے اُن کی دستک سنی نہ پیروں کی چاپ۔ کسمپرسی ہی میں گزر گئے۔
اب بھی ان کو ادب کے ان جغادریوں کی دستک یا چاپ پر کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔ وہ تو اپنی قبر میں یہ کہہ کر چپ ہوجائیں گے کہ ’’اور یہ چوٹ بھی نئی ہے ابھی‘‘۔
افتخار مجاز کا ایک اور پیغام موصول ہوا ہے کہ انہیں ایک انگلش میڈیم اسکول کے پروگرام میں شرکت کا اعزاز حاصل ہوا۔ وہاں ایک بچے نے علامہ اقبال کا شعر پڑھتے ہوئے ایک شعر یوں پڑھا
’’تندی مخالف سے نہ گھبرا اے عقاب‘‘
ٹیچر نے بھی یونہی پڑھا تو بات سمجھ میں آگئی۔
لیکن بھائی افتخار مجاز، ایک بات آپ بھی سمجھ لیجیے کہ یہ شعر
تندئ بادِ مخالف سے نہ گھبرا اے عقاب
یہ تو چلتی ہے تجھے اونچا اڑانے کے لیے
علامہ اقبال کا ہرگز نہیں ہے، لیکن اسے بری طرح ان پر تھوپ دیا گیا ہے۔ گویا جہاں عقاب کا ذکر ہوگا وہ علامہ ہی کا شعر ہوگا۔ پاکستان ائر فورس والے بھی اپنے سالانہ دن پر یہی شعر استعمال کرتے ہیں۔ مجاز صاحب! کم از کم آپ تو یہ شعر علامہ کے کھاتے میں نہ ڈالیں۔