اسکرین پروف

100زبانوں پر عبور رکھنے والا شخص
86 سالہ ریکارڈو برتانی اٹلی کے چھوٹے سے گاؤں کپرارا میں رہائش پذیر ہیں جنہوں نے ایک کسان کے گھر میں آنکھ کھولی۔ ریکارڈو کی خاص بات یہ ہے کہ انہیں دنیا کی 100 قدیم زبانوں پر عبور حاصل ہے، اور اس سے بڑھ کر حیرانی کی بات یہ ہے کہ ریکارڈو نے یہ تمام زبانیں کسی اسکول یا استاد سے نہیں سیکھیں بلکہ ازخود مطالعے کے شوق نے انہیں اس مقام تک پہنچایا۔ ریکارڈو برتانی نے پانچویں جماعت کے بعد اسکول کو خیرباد کہہ دیا تھا جس کی وجہ بتاتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ انہیں ریاضی سے بہت نفرت تھی اور 86 سال کی عمر میں بھی انہیں جمع اور تفریق میں خاصی پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے، لیکن انہیں زبانیں سیکھنے کا شوق جنون کی حد تک ہے، جس کے لیے انہوں نے کسی استاد کی مدد نہیں لی بلکہ ازخود کتابوں کے مطالعے سے نہ صرف زبانیں سیکھیں بلکہ اسی زبان میں کئی کتابیں بھی لکھیں۔

ذہنی تناؤ کے باعث خودکشی
عالمی ادارۂ صحت (ڈبلیو ایچ او) کی جانب سے ’’ ڈپریشن اینڈ ادر کامن مینٹل ڈس آرڈر‘‘ کے عنوان سے جاری کردہ تارہ ترین رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں 30 کروڑ 22 لاکھ افراد ذہنی تناؤ یا اس سے ملتی جلتی بیماریوں کا شکار ہیں جو کہ دنیا کی کل آبادی کا 4.3 فیصد ہے، جب کہ ان 30 کروڑ 22 لاکھ میں سے ڈپریشن کے تقریباً 50 فیصد مریض بھارت، چین اور ویسٹرن پیسیفک ریجن یا ساؤتھ ایسٹ ایشین ریجن میں پائے جاتے ہیں۔ ڈبلیو ایچ او کے مطابق ڈپریشن کی دو خاص اقسام ڈپریسیو ڈس آرڈر اور اینکسٹی ڈس آرڈر (بے چینی) ہوتی ہیں۔ یہ دونوں اقسام آبادی میں بڑی تعداد میں پائی جاتی ہیں جو متاثرہ فرد کے احساسات یا موڈ پر اثرانداز ہوتی ہیں۔ تاہم یہ دونوں اقسام قابلِ تشخیص ہیں۔ ان دونوں قسم کے ذہنی تناؤ کو احساسات، اداسی یا خوف کے ذریعے سے بھی پہچانا جا سکتا ہے۔
ذہنی تناؤ کی اس قسم میں اداسی، خوشی کا نہ منانا، پشیمانی، نیند میں خلل اور بھوک شامل ہیں۔ ذہنی تناؤ کی اس قسم کو بھی مزید دو اقسام میں تقسیم کیا گیا ہے جنہیں طبی ماہرین نے میجر ڈپریسیو ڈس آرڈر اور ڈس تھیمیا کا نام دیا ہے۔ میجر ڈپریسیو ڈس آرڈر میں متاثرہ شخص اداس رہتا یا خوشی کو نہ منانے جیسے عمل کرنے لگتا ہے، جب کہ ڈس تھیمیا ہلکی ڈپریشن کی دائمی قسم ہے جس کی شدت کم مگر لمبے عرصے کے لیے ہوتی ہے۔ اس قسم کی بیماری میں مریض میں بے چینی اور خوف نمایاں ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ اس قسم کی بیماری میں مبتلا شخص میں درد کی شکایت اور فوبیائی امراض بھی نمایاں ہوتے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق یہ مرض مردوں کے مقابلے میں خواتین میں زیادہ پایا جاتا ہے۔ ڈپریشن کا شکار خواتین کی تعداد 5.1 فیصد جب کہ مردوں میں یہ تعداد 3.6 فیصد ہے۔ ڈپریشن کے مریضوں کی تعداد میں 2005ء سے 2015ء کے دوران 18.4 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ذہنی تناؤ ایک انتہائی سنگین مسئلہ ہے اور ہمیں اس کو فوری طور پر حل کرنے کے اقدامات کرنے چاہئیں، ہمیں ڈپریشن کے مریضوں کی مدد کے لیے انہیں فوری طور پر تھراپی یا کونسلنگ کے لیے لے کر جانا چاہیے تاکہ مریض ذہنی تناؤ سے عام زندگی کی طرف لوٹ سکے۔

بے ربط اور طویل گفتگو دماغی بیماری کی علامت
امریکہ کے میساچیوسٹس جنرل اسپتال کے نفسیاتی ماہرین کا کہنا ہے کہ طویل اور بے ربط گفتگو الزائمر اور ڈیمنشیا جیسی دماغی بیماریوں کی ابتدائی علامت ہوتی ہے۔
اس تحقیق کے نتائج انہوں نے گزشتہ دنوں بوسٹن میں ’’امریکن ایسوسی ایشن فار دی ایڈوانسمنٹ آف سائنس‘‘ (AAAS) کے سالانہ اجلاس میں پیش کیے، جن کے مطابق دماغ کو متاثر کرنے والے امراض کی کچھ اہم ظاہری علامات تقریباً دس سال پہلے ہی نمودار ہونے لگتی ہیں جنہیں پیش نظر رکھتے ہوئے ایسے افراد پر زیادہ توجہ دی جاسکتی ہے۔
اب تک مروجہ نفسیاتی علاج (سائیکاٹری) میں دماغی بیماریوں کا کوئی باضابطہ علاج موجود نہیں اور اس ضمن میں دی جانے والی دوائیں زیادہ سے زیادہ بیماری کی پیش رفت سست کردیتی ہیں لیکن انہیں کسی بھی صورت میں ایسے امراض کا علاج قرار نہیں دیا جاتا۔ ان افراد میں گفتگو کے انداز اور لفظوں کے استعمال کا جائزہ لینے پر معلوم ہوا کہ صحت مند افراد دورانِ گفتگو ایک جیسے الفاظ کا بار بار استعمال کرنے سے بچتے ہیں، جبکہ ان کی گفتگو بھی غیر ضروری طور پر طویل نہیں ہوتی۔ دوسری جانب ایم سی آئی میں مبتلا افراد کی گفتگو زیادہ طویل تھی جبکہ وہ یکساں الفاظ کا استعمال بھی بار بار کررہے تھے، جس سے ظاہر ہوا کہ وہ الفاظ بھولتے جارہے ہیں۔ ریسرچر کے مطابق مطالعے کا تعلق اُن افراد سے نہیں جو باتونی مزاج ہوتے ہیں اور عادتاً لمبی لمبی گفتگو کرتے ہیں۔ اس کے برعکس، ان کے مطالعے میں یہ جائزہ لیا گیا ہے کہ معمول کی گفتگو کرنے والوں کی باتیں طویل اور بے ربط ہوجائیں اور وہ ایک جیسے الفاظ کا استعمال بار بار کرنے لگیں تو ان کے اردگرد موجود لوگوں کو ہوشیار ہوجانا چاہیے۔ علاوہ ازیں ایسے لوگوں میں پیچیدہ باتیں سمجھنے اور پیچیدہ امور انجام دینے کی صلاحیت بھی دوسروں کے مقابلے میں کم ہونے لگتی ہے۔ دماغی امراض کی دیگر ابتدائی علامات میں وقت اور جگہ کے بارے میں کنفیوژن، معمول کے کاموں میں دشواری، قوتِ فیصلہ میں کمی، شخصیت یا طرزِعمل میں تبدیلی، چیزیں رکھ کر بھول جانا، تخیل کے استعمال میں مشکلات، یادداشت میں کمی اور روزمرہ کاموں پر اس کے اثرات سب سے نمایاں طور پر دیکھے جاتے ہیں۔
اگرچہ اس مرحلے پر ان لوگوں کو ذہنی طور پر بیمار نہیں کہا جاسکتا لیکن ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ آئندہ دس سال کے اندر اندر ایسی علامات رکھنے والوں کو کسی سنجیدہ نوعیت کی دماغی بیماری کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے جو الزائمر سے لے کر ڈیمنشیا تک، کچھ بھی ہوسکتی ہے۔

چقندرکا رس عمررسیدہ افراد کے لیے توانائی کا خزانہ
ایک مطالعے سے معلوم ہوا ہے کہ چقندر کے رس میں موجود اہم مرکبات عمر رسیدہ افراد کے ساتھ ساتھ جوانوں کو بھی غیرمعمولی توانائی پہنچاتے ہوئے ان کے کام کاج ، سیڑھیاں چڑھنے اور ورزش میں مدد فراہم کرتے ہیں۔ اسی طرح اگرکوئی 20 میٹر تک دوڑتا ہے تو چقندر کا رس اُس کی اس صلاحیت کو 2 فیصد تک بڑھا سکتا ہے۔ اگرچہ یہ بہت معمولی فرق ہے لیکن دوڑ میں شریک ان کھلاڑیوں کے لیے اہمیت رکھتا ہے جو نصف سیکنڈ کے فرق سے تمغے سے محروم رہ جاتے ہیں۔ چقندر میں نائٹریٹس کی غیر معمولی مقدار پائی جاتی ہے جو پٹھوں اور عضلات کو توانائی فراہم کرتے ہیں۔ اس کے لیے ایک مطالعہ کیا گیا جس میں شامل افراد کو دو گروہوں میں تقسیم کیا گیا۔ ایک کو چقندر کا رس پلایا گیا اور دوسرے کو بھی نائٹریٹس نکال کر چقندر کا رس دیا گیا۔ دونوں طرح کے رس ذائقے میں یکساں تھے، لیکن جنہوں نے نائٹریٹس والا رس پیا تھا وہ دوڑ کے مقابلے میں دوسروں سے زیادہ تیزی سے دوڑے۔ غذائی ماہرین کا کہنا ہے کہ عمر رسیدہ افراد بھی اس جادوئی سبزی/پھل سے فائدہ اٹھاکر اپنی توانائی بڑھا سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ ہرے پتوں والی سبزیاں مثلاً پالک وغیرہ میں بھی نائٹریٹس کی بڑی مقدار پائی جاتی ہے۔

زیرزمین بھی ’’ دیوارِچین‘‘ہونے کا انکشاف
دیوارِ چین دنیا کے عجوبوں میں سے ایک ہے، لیکن چین میں زیر زمین بھی ’’ دیوارِچین‘‘ موجود ہے۔ وہاں زیرزمین ایسی سرنگیں بنائی گئی ہیں جہاں بین براعظمی بلاسٹک میزائل رکھے اور ٹرانسپورٹ کیے جاتے ہیں، اور ان سرنگوں کو غیر رسمی طور پر ’’زیرِ زمین دیوارِ چین‘‘ کا نام دیا جاتا ہے۔ ان سرنگوں کو دنیا سے چھپاکر بنایا گیا ہے لہٰذا ان کے بارے میں بہت زیادہ معلومات میسر نہیں ہیں، تاہم یہ خیال کیا جاتا ہے کہ ان کی مدد سے ان میزائلوں کو نہ صرف چھپایا جاتا ہے بلکہ انہیں کہیں لے جانے کے لیے بھی ان سرنگوں کا استعمال کیا جاتا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ان سرنگوں کا چین کو یہ فائدہ ہے کہ اگر نیوکلیئر حملہ ہو تو ان میزائلوں کو محفوظ رکھنے کے ساتھ ساتھ انہیں کسی بھی جگہ سے حملے کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ جارج ٹاؤن یونیورسٹی میں فلپ کاربر نامی تحقیق کار نے ان سرنگوں کا تین سال تک مطالعہ کیا اور بتایا کہ ان سرنگوں کی لمبائی پانچ ہزار کلومیٹر تک ہوسکتی ہے۔ رپورٹ میں یہ بھی انکشاف کیا گیا کہ ان سرنگوں میں چین کے تین ہزار میزائل رکھے گئے ہیں اور حملے کی صورت میں ان سرنگوں کو کوئی نقصان بھی نہیں پہنچ سکتا۔

ٹیکنالوجی
پاکستان: سوشل میڈیا پر ہراساں کرنے کی شکایات میں تیزی سے اضافہ
پاکستان میں سوشل میڈیا پر ہراساں کیے جانے کے حوالے سے شکایات میں تیزی سے اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے، اور ان میں سے بیشتر شکایات کنندگان خواتین ہیں۔
بی بی سی کے مطابق گزشتہ برس سائبر کرائم ایکٹ کے تحت 700 درخواستیں موصول ہوئی تھیں اور ان میں بیشتر سوشل میڈیا کے حوالے سے ہی تھیں، اور اِس سال ابتدائی دو ماہ میں ہی یہ تعداد 500 تک پہنچ گئی ہے۔ صوبہ خیبر پختون خوا میں درج کروائی جانے والی ایسی درخواستوں کی تعداد 120 ہے۔ وفاقی تحقیقاتی ادارے کے پاس سائبر کرائم ایکٹ کے تحت مختلف نوعیت کے مقدمات درج ہیں لیکن حکام کا کہنا ہے کہ ان میں سے 95 فیصد سے بھی زیادہ سوشل میڈیا کے حوالے سے ہیں اور ان میں سے بیشتر شکایات میں کہا گیا ہے کہ درخواست گزار کو تصویروں یا ویڈیوز کے ذریعے بلیک میل کیا جارہا ہے۔
حکام کا کہنا ہے کہ ان درخواستوں پر قانون کے مطابق کارروائیاں کی گئی ہیں اور ان میں ملزمان گرفتار بھی ہوئے ہیں، لیکن اس طرح کے بیشتر واقعات میں فریقین کے درمیان صلح ہوجاتی ہے۔ کچھ لوگ عدالت میں جانے سے پہلے ہی صلح کرلیتے ہیں اور بعض عدالت میں صلح کا فیصلہ کرتے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ بچوں، یہاں تک کہ بڑوں میں بھی سوشل میڈیا کے استعمال کے حوالے سے آگہی نہ ہونے کی وجہ سے لوگ مسائل کا سامنا کرتے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اگرچہ سوشل میڈیا کے حوالے سے شکایات کی تعداد کہیں زیادہ ہے لیکن متعلقہ ادارے میں ان کا اندراج کم ہی ہوتا ہے، اور اس کی وجہ یہ ہے کہ بیشتر افراد متعلقہ ادارے سے رابطہ کر نہیں پاتے یا پھر کرنا نہیں چاہتے۔

جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے آواز کو خاص رخ پر موڑنا ممکن ہوگیا
برطانیہ میں یونیورسٹی آف برسٹل اور یونیورسٹی آف سسکس نے میٹا میٹریلز کی چھوٹی چھوٹی اینٹوں سے ایک چادر بنائی ہے۔ ہر اینٹ آواز کو کچھ دیر روکتی ہے اور اسے اینٹوں سے بنے آڑے ترچھے راستوں سے گزارتی ہے، اور اس طرح کسی بھی رخ پر آواز کو پھینکا جاسکتا ہے۔ سسکس یونیورسٹی کے ماہر پروفیسر کے مطابق ایسی اینٹیں کسی بھی میٹریل سے بنائی جاسکتی ہیں اور اسے تھری ڈی پرنٹر پر پولیمر کے ذریعے بھی تیار کیا جاسکتا ہے۔

ایسا صحرا جہاں لوگ زہر پی کر زندہ رہتے ہیں
انسان میں اپنے گردوپیش، آب وہوا اور ماحول کی دیگر چیزوں سے مطابقت پیدا کرنے کی جو زبردست صلاحیت پائی جاتی ہے اس کا مشاہدہ چلی کے صحرا ’اٹاکاما‘ (Atacama) کے رہنے والے لوگوں میں کیا جاسکتا ہے، جنھوں نے زہر پینے کی صلاحیت پیدا کرلی ہے۔ یونیورسٹی آف چلی کے سائنس دانوں کی تحقیق کے مطابق صحرا کے ’کیوبراڈا کامارونس (Quebrada Camarones) خطے کے پانی میں سنکھیا (آرسینک) کی مقدار اُس مقدار سے 100 گنا زیادہ ہے جس سے زیادہ کو عالمی ادارۂ صحت نے زہر قرار دے رکھا ہے۔ محققین نے اس علاقے کے 150 افراد کے جینز کا جائزہ لیا ہے اور ان کے ڈی این اے میں ایک ایسے انحرافی جین کا پتا چلایا ہے جو باقی ماندہ نوعِ انسانی میں نہیں ہے۔ اس جین میں ایک ایسے خامرے (اینزائم) کا کوڈ موجود ہے جو سنکھیا کو دو قدرے کم زہریلے مرکبات میں تبدیل کردیتا ہے۔
اس علاقے میں سات ہزار سال قبل جنوبی امریکہ کے اصل مکینوں نے جب آبادیاں بسائیں تو ان کے پاس دو راستے تھے: یا تو وہ علاقے میں دستیاب سنکھیا آلود پانی پینا شروع کردیں، یا پھر پیاسے رہ کر جان سے ہاتھ دھو بیٹھیں۔ چنانچہ انھوں نے یہ پانی پینا شروع کردیا اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان باشندوں کی آئندہ نسلوں کے نظام انہضام میں سنکھیا پینے اور اسے ہضم کرنے کی زبردست صلاحیت پیدا ہوگئی۔