پاکستان اور افغانستان مشکل وقت سے گزر رہے ہیں۔ امارتِ اسلامیہ (افغان طالبان) کی تحریکِ مزاحمت امریکی افواج کی افغانستان میں موجودگی کے خلاف جاری ہے۔ حزبِ اسلامی افغان حکومت سے معاہدہ کرچکی ہے۔ جو ایک اہم پیش رفت ہے۔ داعش افغانستان کے چند منطقوں میں وجود رکھتی ہے، جس سے تحریک طالبان پاکستان اور جماعت الاحرار جیسی تنظیموں کے قریبی تعلقات قائم ہوچکے ہیں۔ گویا ان دو ممالک میں دہشت گرد فعال ہیں اور کسی نہ کسی صورت میں وجود رکھتے ہیں۔ پاکستان نے اِس مرتبہ افغان حکومت کے خلاف سخت اور جارحانہ ردعمل کا اظہار کیا۔ طورخم اور چمن سرحد دو طرفہ تجارت کے لیے بھی بند کردی، حتیٰ کہ سرحد پار اُن افغان علاقوں پر بھی بمباری کردی جہاں وہ عناصر پناہ گاہیں بناچکے ہیں جو پاکستان میں وقفے وقفے سے دہشت گرد کارروائیاں کرتے ہیں۔
دہشت گردی کی اسی تازہ لہر کے بعد آپریشن ’’ردالفساد‘‘ کا آغاز ہوا۔ اس آپریشن کے تحت سندھ اور پنجاب کے اندر پشتون عوام کے ساتھ روا رکھی جانے والی روش پر خیبر پختون خوا اور بلوچستان کی حکومتوں نے سخت گرفت کی۔ جماعت اسلامی، عوامی نیشنل پارٹی، پشتون خوا ملّی عوامی پارٹی اور جمعیت علماء اسلام نے تنقید کی۔ خیبر پختون خوا اور بلوچستان اسمبلی نے قراردادیں منظور کیں۔ قومی اسمبلی میں حزبِ اختلاف نے بھی اسے امتیازی سلوک قرار دیا۔ یہاں تک کہ پنجاب کے اندر بھی آوازیں بلند ہوئیں۔ ذرائع ابلاغ میں سینئر تجزیہ کاروں اور لکھاریوں نے انگلی اٹھائی۔ گویا یہ عمل’’ردالفساد‘‘کے مقاصدکے منافی ہے۔
غرضیکہ افغانستان کو غیر ملکی افواج کے انخلاء کی پالیسی مرتب کرنی چاہیے اور ایک آزاد و خودمختار ملک کی شناخت قائم کرنے کی راہ اپنانی چاہیے، تاکہ یہ سرزمین پاکستان کے مفادات کے خلاف استعمال نہ ہو۔ اسی صورت میں ممکن ہے کہ پاکستان اور افغانستان دہشت گردی کے عفریت سے نجات پالیں۔ ایک خودمختار اور آزاد افغانستان دنیا کے کسی بھی ملک سے سیاسی، تجارتی اور معاشی معاہدے کرے، باہمی مفادات پر مشتمل تعلقات قائم کرے۔ یہ اس ملک کا بین الاقوامی قانونی حق ہے۔ لیکن اپنی سرزمین کسی کے خلاف استعمال نہ ہونے دے، جس طرح بھارت وہاں بیٹھ کر پاکستان کے خلاف گھناؤنا کھیل کھیل رہا ہے۔ اس پالیسی سے یقیناًدونوں ہمسایہ ممالک کا نقصان ہوگا، بالخصوص افغانستان کا اپنا ریاستی و حکومتی ڈھانچہ کمزور ہوگا۔ غیر ملکی افواج کے انخلاء کی صورت میں ایک قومی حکومت کے قیام کی راہیں بھی استوار ہوں گی۔ اس صورت میں مسلح جدوجہد کا ختم ہونا یقینی بات ہے۔
پاکستان اور چین کے درمیان سی پیک کے تناظر میں تعلقات اور دوستی کے ایک نئے دور کا آغاز ہوچکا ہے، لہٰذا دونوں ممالک کبھی نہیں چاہیں گے کہ کوئی ان کے مفاد پر ضرب لگائے۔ اگر افغانستان کی سرزمین اس مقصد کے لیے استعمال ہوتی ہے تو چین بہ امر مجبوری افغان طالبان کو مالی و اسلحی کمک دینے پر مجبور ہوگا۔ اس صورت میں افغان حکومت کے لیے مزید مشکلات پیدا ہوں گی۔ افغان حکومت کا اقتدار ویسے بھی ملک کے ایک غالب حصے پر قائم نہیں ہے۔ اس بات کا اظہار خود پاکستان میں افغانستان کے سفیر ڈاکٹر عمر زخیل وال نے پاکستان کی جانب سے افغانستان میں موجود دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کے مطالبے کے جواب میں کیا۔ سفیر کا کہنا تھا کہ جو فہرست پاکستان نے دی ہے اس میں شامل چند دہشت گرد افغانستان کے اُن علاقوں میں ہوسکتے ہیں جہاں افغان حکومت کا کنٹرول نہیں ہے۔ ذرا سوچیے کیا ایسی حکومت کو حکمرانی کا حق حاصل ہے جسے اپنے ملک کے علاقوں پر کنٹرول حاصل نہیں؟ کیا ایسی حکومت کو افغان عوام کی منتخب اور نمائندہ حکومت کہا اور سمجھا جاسکتا ہے؟ افغانستان کو مزید انتشار اور جنگی حالات سے نکالنے کے لیے ضروری ہے کہ وہاں امریکی اور دیگرغیر ملکی افواج کا انخلاء ہو، اور بااختیار حکومت قائم ہو۔ اس طرح پاکستان اور افغانستان نئے جوش و جذبے سے دوستی و خیر سگالی کے نئے دور کا آغاز کریں۔
یہ لمحہ پاکستان کے لیے بھی غور و فکر کا ہے۔ پاکستان درونِ خانہ بات چیت نظرانداز نہ کرے۔ میری مراد بلوچستان سے ہے، جو سی پیک کی شہ رگ ہے۔ بلوچ مسلح مزاحمت اگر کمزور ہو بھی چکی ہے تو ان شدت پسند رہنماؤں کے ساتھ گفتگو ہونی چاہیے بلکہ بہر صورت ہونی چاہیے۔ فاٹا کے اندر شدت پسندوں کو سیاسی عمل میں شریک نہ کیے جانے کا نتیجہ ہمارے سامنے ہے۔ اور بلوچستان کے اندر تمام تر کامیابیوں کے باوجود حالات اطمینان بخش نہیں ہیں۔ یہ سمجھ لینا چاہیے کہ جب افغانستان میں بھارت اور امریکہ کے لیے مشکلات پیدا ہوں گی تو بلوچ مزاحمت میں پھر سے شدت آسکتی ہے۔ حکومت نے براہمداغ بگٹی کے ریڈ وارنٹ جاری کیے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ریڈ وارنٹ کے بجائے براہمداغ یا دوسرے بلوچ رہنماؤں سے بات چیت کاراستہ اختیار کرنا چاہیے، اور ہر ممکن طریقے سے ان لوگوں کو سیاسی و قومی دائرے میں واپس لانا چاہیے۔ مگر حکومت نے ریڈ وارنٹ جاری کیے اور ایف آئی اے کو گرفتاری کے لیے پیش رفت کی ہدایت کردی کہ وہ بین الاقوامی سطح پر معاملہ اٹھائے، یعنی انٹرپول سے رابطہ کیا جائے۔ براہمداغ کے ساتھ شیر محمد کے بھی ریڈ وارنٹ جاری ہوچکے ہیں۔ حکومت یہ خدشہ ظاہر کرچکی ہے کہ براہمداغ پھر سے متحرک ہوچکے ہیں اور اپنے قبیلے کے لوگوں کو افغانستان بلا رہے ہیں تاکہ ان کی وہاں عسکری تربیت ہو (یکم مارچ2017ء)۔ براہمداغ نے اس پر برجستہ ردعمل ظاہر کیا اور کہا کہ ان کے اور پارٹی رہنماؤں کے خلاف ریڈ وارنٹ کے اجراء کی منظوری سے صاف واضح ہوا ہے کہ ریاست ان کی جمہوری جدوجہد سے مکمل طور پر شکست کھا چکی ہے۔ ریاست دعویٰ کرتی ہے کہ انہیں (براہمداغ کو) بلوچستان کے عوام کی حمایت حاصل نہیں ہے اور دوسری جانب مزاحمتی عمل کی سربراہی کا الزام بھی ان پر عائدکرتی ہے۔ ریاست ان کے خلاف ریڈ وارنٹ جاری کرکے یا پھر قوم پر دباؤ کے ذریعے بلوچوں کی جمہوری تحریک کو خاموش نہیں کرسکتی۔ براہمداغ کا یہ بھی کہنا تھا کہ انٹرپول کوئی دہشت گرد گروہ نہیں جسے ریاست ہماری جمہوری جدوجہد کو دبانے کے لیے استعمال کرسکے، بلکہ وہ ایک ذمہ دار عالمی ادارہ ہے۔ (یکم مارچ2017ء)
ریاست سے مذاکرات اور پاکستان واپسی پر رضامند خان آف قلات نے بھی پھر سے سخت مؤقف کا اظہار کردیا۔ انہوں نے
(باقی صفحہ 41پر)
برطانوی دارالعوام میں ایک سیمینار سے خطاب میں پاکستان کو تنقید کا نشانہ بنایا اور اس بات کو دہرایا کہ پاکستان نے بلوچستان پر ناجائز قبضہ کیا ہے، برطانیہ عظمیٰ بلوچستان کی آزادی واگزار کروانے میں اپنا کردار ادا کرے۔ انہوں نے 19ویں صدی میں ریاست قلات اور بین الاقوامی طاقتوں کے درمیان متعدد معاہدوں کا حوالہ دیا اور دستاویزات کی نقول سیمینار کے شرکاء میں تقسیم کیں کہ ریاست قلات ایک خودمختار ملک تھا اور برطانیہ نے متعدد بار بلوچستان کی آزادی کو تسلیم کیا اور اس کی توثیق کی۔ 1948ء میں ان کے دادا خان احمد یار خان سے بندوق کی نال کے زور پر الحاق کی دستاویز پر دستخط کرائے گئے۔ پنجابی استعمار کے قبضے کو مسترد کرتے ہیں۔ بلوچ سی پیک کو چائنا پنجاب اکنامک کاریڈور سمجھتے ہیں جس کے فوائد صرف پنجاب کے عوام کے لیے ہوں گے۔ (24فروری2017، روزنامہ انتخاب کوئٹہ)
گویا بلوچ شدت پسند رہنما امریکہ اور بھارت کو بطور خاص اپنا اعتماد دلانے کی کوشش کرتے ہیں اور ان ممالک کو ترغیب دیتے ہیں کہ چین پاکستان کے ساتھ مل کر ان کے مفادات کو زک پہنچا رہا ہے۔ 2 مارچ کو بلوچ گوریلا رہنماء ڈاکٹر اللہ نذر کا ایک بیان چھپا جس میں ان کا کہنا ہے کہ ’’چین نے گوادر میں کیمپ بنانے کی خاطر 3 ہزار ایکڑ زمین حاصل کرلی ہے اور چین کا سب میرین پہلے سے بحر بلوچ میں موجود ہے، اور یہ ہندوستان کے لیے باعثِ خطر ہے۔‘‘
چنانچہ اس تناظر میں یہ سوال اپنی جگہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے کہ حکومتِ پاکستان بلوچ شدت پسند رہنماؤں سے مذاکرات اور بات چیت کا سلسلہ کیوں نہیں جوڑتی؟ اب عسکریت پسندوں کو قومی دھارے میں لانے کے اقدامات جنگی بنیادوں پر ہونے چاہئیں۔