تحریکات حریت

مولانا شفیع چترالی نام سے مولانا ہیں مگر کام کے مسٹر بھی ہیں۔ چترال کے ایک علمی گھرانے سے ان کا تعلق ہے۔ میٹرک کے بعد کراچی آئے۔ دینی علم کا شغف تھا، جامعہ بنوری ٹاؤن سے اپنے علمی سفر کو آگے بڑھایا۔ دورانِ طالب علمی ہی اُن کی تحریریں مختلف رسائل و اخبارات کی زینت بننا شروع ہوگئیں۔ درسِ نظامی کے بعد جامعہ بنوری میں ہی معلم کی حیثیت سے پیشہ ورانہ زندگی کا آغاز کیا، اس کے ساتھ ہی اخبار ’’ضرب مومن‘‘ سے وابستہ ہوئے۔ وفاقی اردو یونیورسٹی سے گریجویشن اور ماسٹرز کے بعد اس وقت کراچی یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری کے حصول میں مصروف ہیں۔ 2002ء سے ’’دوائے دل‘‘ کے عنوان سے باقاعدہ کالم نگاری کا آغاز کیا، جس کا مجموعہ بھی شائع ہوچکا ہے۔ اس وقت روزنامہ اسلام سے بطور مدیر اور جامعۃ الرشید میں تدریس سے وابستہ ہیں۔
مسلمانوں کی تاریخ مستقل جدوجہد پر مبنی نظر آتی ہے۔ اس جدوجہد پر مبنی ایک شاندار علمی ذخیرے کو دلچسپ اور جامع انداز سے مولانا شفیع چترالی نے اپنی تصنیف ’’تحریکاتِ حریت‘‘ میں جمع کیا ہے۔ یہ اس کتاب کا دوسرا ایڈیشن ہے، جسے صاحبِ قلم نے طالب علم کے تجسس کا نتیجہ قرار دیا ہے جو انہوں نے اپنے اسکول کا نصاب پڑھتے ہوئے مسلمانوں کی تین سو سالہ جدو جہدکا خاطرخواہ ذکر نہ پاکر محسوس کیا۔ اس تقریب میں شہر کے بڑے دینی مدارس کے طلبہ، علما و فضلا کی بھرپور شرکت نظر آرہی تھی، چترال سے بھی مہمان تشریف لائے تھے۔ تقریب کے مہمانِ خصوصی صوبائی وزیر مذہبی امور عبدالقیوم سومرو تھے جو اپنی ناگزیر مصروفیت کی وجہ سے شرکت نہیں کرسکے۔ تقریب کے صدر سابق امیر جماعت اسلامی پاکستان سید منورحسن جب ہال میں تشریف لائے تو اُن کا بھرپور اور پرتپاک استقبال کیا گیا اور مصافحہ، معانقہ سے لے کر گروپ فوٹو اور سیلفی سمیت ہر اندازِ استقبال اپنایا گیا۔ تلاوتِ کلام پاک و نعت سے تقریب کا آغاز ہوا۔ ابتدائی کلمات میں کتاب کے مصنف نے تقریب میں شریک مہمانوں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہاکہ نصاب میں مسلمانوں کی خاص تاریخ کی عدم موجودگی کے احساس پر مبنی اندرونی تحرک نے اُنہیں برصغیر میں مسلمانوں کی جدوجہد پر مبنی مواد کتابی شکل میں جمع کرنے میں معاونت کی۔ ’’تحریکاتِ حریت‘‘ نام سے تو ماضی کا کوئی قصہ لگتا ہے لیکن واقعہ یہ ہے کہ تحریک آزادی ابھی ختم نہیں ہوسکی۔ ایک ملک، ایک خطۂ زمین تو ہم نے حاصل کرلیا لیکن ہم آزاد نہیں ہوسکے۔ نہ ہماری معیشت، نہ خارجہ و داخلہ پالیسی، نہ سیاست آزاد ہے۔ ہم آج بھی اپنے فیصلوں میں مکمل آزاد و خودمختار نہیں ہوسکے۔ پہلے انگریز یہاں خود قابض تھا، اب وہ دوسری شکل میں یہاں موجود ہے، اس لیے نوجوانوں کا اپنے ماضی سے روشناس ہونا ضروری ہے۔ مولوی حضرات کو جس طرح پاکستان سے الگ کردیا جاتا ہے یہ مسلمانوں کی انگریزوں کے خلاف تین سو سالہ جدوجہد پر پانی پھیر دینے کے مترادف ہے، کیونکہ جب برصغیر میں آزادی کے حصول کی بات کی جائے گی تو دینی طبقات کا کردار کسی طور سے نظرانداز نہیں کیا جا سکے گا۔
نائب امیر جماعت اسلامی سندھ محمد حسین محنتی نے بھی کتاب کے حوالے سے اپنے احساسات پیش کرتے ہوئے کہاکہ دنیا میں حریت اور آزادی انسانی اقدار میں سب سے اعلیٰ ہے۔ اس کتاب میں چترالی صاحب نے انگریز کی برصغیر میں کی جانے والی سازشوں کا احاطہ جس سادہ اور عام فہم زبان میں کیا ہے۔ آغا خان یونیورسٹی شعبہ نیورولوجی کے سربراہ ڈاکٹر محمد واسع نے کہا کہچترالی صاحب یوں خاص ہیں کہ انہوں نے ایک بڑا کام کیا ہے، اس کام کی بلندی کا اندازہ مجھے اب سے سات سال قبل ترکی میں ایک کانفرنس میں اردوان صاحب سے ملاقات میں ہوا۔ میں نے اردوان صاحب کی بے مثال ترقی اور شہرت کا راز پوچھا کہ آپ نے ایسا کیا کام کیا کہ وہ ترکی جہاں داڑھی رکھنا ممنوع، اذان پر پابندی، اسکارف پر پابندی تھی وہاں اب پوری ترک قوم کھڑی ہوچکی ہے، خود میں بھی جب 1979ء میں ترکی آیا تو مجھے داڑھی کی وجہ سے یونیورسٹی میں داخل نہیں ہونے دیا گیا۔ میں نے پوچھا کہ اتنی بڑی تبدیلی کیسے برپا کی؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ ’’ہم نے ترکوں کو اُن کی تاریخ سے جوڑ دیا، جو ترکوں کا درخشاں ماضی ہے ہم نے پوری قوم کو اُس سے جوڑ دیا۔‘‘ یہ کام چترالی صاحب نے کیا کہ ہمیں بتایا کہ ہم کون ہیں؟ ایک یہودی پروفیسر کی کتاب میں مجھے یہ سنہری جملہ پڑھنے کو ملا ’’اگر کسی قوم کا کوئی ماضی نہیں تو مستقبل بھی نہیں‘‘۔ ہم کون ہیں یہ جاننا ضروری ہے۔ مسلمان اس دنیا کے امام ہیں، ایک ہزار سال تک ہم اس دنیا کے مالک تھے۔ ہم جو قانون بناتے وہ دنیا میں چلتا، ہماری کتاب پوری دنیا میں پڑھی جاتی۔ ہم وہ نہیں جو اِس وقت نظر آتے ہیں۔ یہ کام چترالی صاحب نے اس کتاب کے ذریعے کرتے ہوئے ہمیں اپنے روشن ماضی کی شاندار جدوجہد سے جوڑا ہے۔ مفتی محمود اکیڈمی کے منیجنگ ڈائریکٹر، ممتاز ادیب، دانشور محمد فاروق قریشی نے تقریب میں اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا کہ زندگی کے بعد اہم ترین نعمت آزادی ہے۔
انسان کی معروف تاریخ جدوجہد پر مبنی ہے، تاریخ ایک آئینہ کی مانند ہے، ہر دور کے اہلِ قلم نے آنے والی نسلوں پر احسان کیا کہ وہ اس کے ذریعے آنے والے حالات کی بہتر منصوبہ بندی کرسکیں۔ ساتویں جماعت کے اس طالب علم نے مسلمانوں کی تحریکاتِ حریت کے بارے میں سوچا اور پھر اپنی سوچ کو عملی شکل دے کر ایک کتاب کی صورت میں مرتب کیا۔ جمعیت علماء اسلام سندھ کے نائب امیر قاری محمد عثمان نے مہمانِ
(باقی صفحہ 41پر)
خصوصی کی حیثیت سے اپنے خطاب میں کہاکہ اس عظیم محفل میں شرکت باعثِ سعادت ہے۔ چترالی صاحب سے خصوصی تعلق ہے۔ مجھے اس تقریب میں اس بات کی بھی بڑی خوشی ہے کہ دو دینی جماعتوں کے اکابرین یہاں موجود ہیں۔ وقت کی کمی کی وجہ سے مجھے کتاب پڑھنے کا موقع نہیں ملا تاہم چترالی صاحب نے مجھے ایک گھنٹہ قبل بلا کر کتاب پر غور و فکر کرنے کا خصوصی موقع فراہم کیا۔
تقریب سے صدارتی خطاب کرتے ہوئے سابق امیرجماعت اسلامی پاکستان سید منورحسن نے انتہائی جامع انداز میں کہاکہ علامہ چترالی صاحب کی تصنیف ایک بروقت انتباہ کی شکل ہے۔ ایک دریا کو کوزے میں جس انداز سے بند کیا ہے وہ ایک تذکیری عمل ہے۔ اس کے باوجود کہ مختصر ہے لیکن ایک طویل مطالعے کے بعد اچھی طرح سے تاریخ کا احاطہ کیا گیا ہے۔ میں مشکور ہوں کہ اُنہوں نے اس تصنیف کے ذریعے ہمیں اُس سبق کو یاد دلایا ہے جو وقت کی ضرورت ہے۔ سیکولر و لبرل لابی کا جو پروپیگنڈہ علماء کے حوالے سے ہے وہ اپنی جگہ دو اور دو چار کی مانند موجود ہے، اُسے اکٹھا کیا جانا ضروری ہے، اُس پر مشاورت ضروری ہے اور اُن کو علمی سطح پر، فلسفہ کے عنوان سے بھی اور جواب در جواب کی شکل میں بھی آنا چاہیے۔ اس کے نتیجے میں ہمارے گھروں اور معاشروں میں سیکولرازم کی جو چادر پھیلتی جا رہی ہے اُس کا مؤثر سدباب ممکن ہوگا۔