(فکرِ غامدی ایک تحقیقی و تجزیاتی مطالعہ(ڈاکٹر حافظ محمد زبیر

کتاب
:
مصنف
:
ڈاکٹر حافظ محمد زبیر
صفحات
:
424 قیمت 400 روپے
ناشر
:
مکتبہ رحمۃ للعالمین۔ غازی روڈ، نذیر پارک
نزد جامع مسجد رحمۃ للعالمین۔ لاہور
جناب جاوید احمد غامدی کے دینی خیالات پر ڈاکٹر محمد زبیر صاحب نے نہایت شائستگی سے نقد کیا ہے اور اپنے علمی خیالات کو عمدگی سے تحریر کیا ہے۔ حافظ عاطف وحید صاحب انچارج اسلامک ریسرچ اینڈ ٹریننگ سینٹر قرآن اکیڈمی لاہور تحریر فرماتے ہیں:
’’زیرنظر کتاب المورد اسلامک ٹرسٹ کے سرپرست، ماہنامہ اشراق کے مدیر اور ’’آج‘‘ ٹی وی کے نامور اسکالر جاوید احمد غامدی کے بعض اہم اصولِ دین کے علمی، تحقیقی اور تجزیاتی مطالعے پر مشتمل ہے۔ اس کتاب کے دو حصے ہیں۔ اس کے مصنف حافظ محمد زبیر حفظہ اللہ تعالیٰ عالم دین ہونے کے ساتھ ساتھ تنظیم اسلامی کے متحرک کارکن بھی ہیں اور مرکزی انجمن خدام القرآن لاہور کے شعبہ تحقیق سے منسلک ہیں۔ اس کتاب کے بیشتر مضامین ایک علمی مجلے ماہنامہ ’’الشریعہ‘‘ میں ایک علمی مناقشہ کے تناظر میں شائع ہوچکے ہیں۔ مذکورہ مجلے کی ادارتی پالیسی کے سبب بعض مضامین کی تفصیلی کتروبیونت کردی گئی تھی جس سے بہت سے اہم دلائل اور مباحث سامنے آنے سے رہ گئے تھے۔ کتاب میں یہ مضامین معمولی حک و اضافے کے ساتھ اپنی اصلی شکل میں شامل کیے گئے ہیں۔
علامہ غامدی کے فکری تفردات اور تجدد پسندانہ نظریات آج کل علمی حلقوں میں بحث و نزاع کا موضوع بنے ہوئے ہیں۔ اسلام کے روشن خیال، اعتدال پسند اور جدید ایڈیشن کو چونکہ یہ نظریات بہت اپیل کرتے ہیں اس لیے علامہ صاحب کو ایسے حلقوں میں کافی پذیرائی حاصل ہوئی ہے۔ ان حالات کا نوٹس لیتے ہوئے دینی حلقوں میں تقریباً ہر طرف سے ان کے افکار کے خلاف تنقیدی مضامین لکھے گئے ہیں۔ لیکن حافظ زبیر صاحب کے یہ مضامین اس لحاظ سے سب سے منفرد ہیں کہ ان میں اُن اصولوں سے بحث کی گئی ہے جن پر علامہ صاحب کے متجددانہ نظریات کی اساس ہے۔ گویا جن شاخوں پر اسلام کے اس جدید ایڈیشن کا آشیانہ تعمیر کیا گیا ہے، حافظ صاحب موصوف نے اس کی جڑوں پر تیشہ رکھ دیا ہے۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ دینِ اسلام کی حقیقی خدمت کے صلے میں فاضل مصنف کو اجرِ عظیم عطا فرمائے۔ آمین!‘‘
کتاب کے مقدمے میں ڈاکٹر زبیر صاحب نے غامدی صاحب اور اہلِ سنت کے اصولوں کا مختصر تقابلی جائزہ پیش کیا ہے جسے ہم یہاں درج کرتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب تحریر فرماتے ہیں:
’’غامدی صاحب اہلِ سنت سے الگ ہیں۔ ان کا اہلِ سنت سے کوئی تعلق نہیں۔ اس کی اہم وجوہات درج ذیل ہیں:
1۔ اہلِ سنت کے ہاں اعتزال (قرآن و سنت کی نصوص سے استدلال کرتے وقت اہلِ علم کے ہاں سلف صالحین کے معروف طریق کار یعنی ان کے متفقہ اصولِ تفسیر و اصولِ فقہ کو نظرانداز کرنا اور اس کے برعکس کسی نئے انداز کو اختیار کرنا) ایک طرح کی ظلمت ہے، جب کہ غامدی صاحب کے نزدیک یہی نادر انداز فخر کا باعث ہے۔ اس اصول کے تحت وہ آئے روز نت نئی تحقیقات پیش کرتے رہتے ہیں۔
2۔ اہلِ سنت، قرآن وسنت کی کسی نص کے مفہوم پر صحابہؓ اور مابعد کے زمانوں کے اجماع کو حجت سمجھتے ہیں اور اس کے خلاف رائے دینے کو ’’اتباع غیر سبیل المؤمنین‘‘ میں شمار کرتے ہیں، جب کہ غامدی صاحب کہتے ہیں کہ صحابہؓ اور ساری امت خطا پر اکٹھی ہوسکتی ہے! اور یہ ممکن ہے کہ گزشتہ چودہ صدیوں میں کوئی شرعی مسئلہ کسی صحابی یا تابعی، عالم یا فقیہ کو سمجھ نہ آیا ہو اور پہلی دفعہ ان پر یا ان کے امام صاحب پر منکشف ہوا ہو۔ اس اصول کے تحت انہوں نے بہت سے اجماعی موقفات کے برعکس اپنی رائے کا اظہار کیا۔
3۔ اگر کسی مسئلے میں اہلِ سنت کے علماء کہتے ہیں کہ اس مسئلے کی دلیل حدیث ہے، تو غامدی صاحب فرماتے ہیں حدیث سے بھی مستقل بالذات دین ثابت نہیں ہوتا۔ یعنی حدیث سے دین میں کسی عقیدہ و عمل کا ہرگز کوئی اضافہ نہیں ہوتا۔ جب کہ علمائے اہلِ سنت کے نزدیک قرآن کی طرح حدیث سے بھی مستقل بالذات دین ثابت ہوتا ہے۔ غامدی صاحب کے بقول حدیث صرف قرآن و سنت (26 قسم کے اعمال) کی شارح ہے اور دین میں کسی ایسی نئی چیز کو ثابت نہیں کرتی جو کہ قرآن اور سنت (26 قسم کے اعمال) میں نہ بیان ہوئی ہے۔
4۔ اہلِ سنت کہتے ہیں کہ قرآن کی طرح حدیث بھی دین اور اللہ کی شریعت کو ثابت کرنے والی ہے کیونکہ یہ وحی خفی ہے۔ غامدی صاحب یہ تو مانتے ہیں کہ قرآن کے علاوہ بھی وحی نازل ہوئی ہے لیکن وہ حدیث کو وحی کی حیثیت دینے سے انکاری ہیں۔ وہ حدیث کو حجت کہتے ہیں لیکن اس کو وحی نہیں مانتے۔
5۔ اہلِ سنت کے مؤقف کے مطابق اسلام کے بنیادی مصادر شریعت، کتاب (قرآن مجید) اور سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ جبکہ غامدی صاحب کا مؤقف یہ ہے کہ جہاں تک سنت کا معاملہ ہے تو سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نہیں ہوتی بلکہ سنت سے مراد سنتِ ابراہیمی ہے، یعنی دین کی وہ روایت جو حضرت ابراہیم علیہ السلام سے جاری ہوئی۔ اسی طرح غامدی صاحب کے نزدیک کتاب سے مراد صرف قرآن نہیں بلکہ کتابِ الٰہی ہے یعنی تورات، انجیل اور صحف ابراہیم بھی اس میں شامل ہیں۔
6۔ جمیع اہلِ سنت قرآن کی سبعہ و عشرہ قرأت کو مانتے ہیں، ان کی تلاوت کو عبادت قرار دیتے ہیں اور ان سے مسائلِ شرعیہ کا استنباط کرتے ہیں۔ جب کہ غامدی صاحب سبعہ و عشرہ قرأت کو فتنہ عجم قرار دیتے ہیں۔
7۔ جمیع اہلِ سنت کے نزدیک عقل و فطرت سے شریعت کا کوئی بھی حکم ثابت نہیں ہوتا، شریعت صرف و صرف اللہ کے حکم سے ثابت ہوتی ہے۔ لیکن غامدی صاحب فطرتِ انسانی سے حلال و حرام (طیبات و خبائث)، اوامرونواہی (معروف و منکر) اور جائز و ناجائز (مباحات فطرت) کی ایک طویل فہرست کا اثبات کرتے ہیں۔
8۔ اہلِ سنت کے نزدیک دین یعنی قرآن و سنت کے ثبوت کا بنیادی ذریعہ قطعی و ظنی خبر ہے۔ جبکہ غامدی صاحب قرآن و سنت کے ثبوت کا بنیادی ذریعہ اجماعِ صحابہ اور قولی و عملی تواتر کو قرار دیتے ہیں۔
9۔ غامدی صاحب کے نزدیک عربی معلی، نظمِ قرآن، زبان کی ابانت اور قرآن کا عرف وغیرہ قرآن کی تفسیر کے قطعی اصول ہیں۔ جب کہ اہلِ سنت کے نزدیک یہ تمام چیزیں قرآن کو سمجھنے اور سمجھانے میں مفید تو ہیں لیکن قرآن کا قطعی مفہوم صرف تین ہی صورتوں میں متعین ہوتا ہے: ایک تفسیر القرآن بالحدیث کے ذریعے، دوسرے قرآن کی لغت کے معنی و مفہوم میں مروی صحابہؓ کے اقوال کے ذریعے، اور تیسرے قرآن کی کسی آیت کے مفہوم پر امت کے اجماع کے ذریعے۔
10۔ اہلِ سنت کے نزدیک قرآن کی کسی آیت کی حدیث کے ذریعے تخصیص و تقیید اور اس پر اضافہ جائز ہے، جب کہ غامدی صاحب کے نزدیک حدیث نہ تو قرآن کی کسی آیت کی تخصیص کرسکتی ہے اور نہ ہی اس پر اضافہ‘‘۔
’’اہلِ سنت کے ہاں کتاب و سنت حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے شروع ہوتی ہے اور انہی پر ختم ہوجاتی ہے، یعنی اہلِ سنت کے نزدیک کتاب سے مراد قرآن مجید ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا، اور سنت سے ان کی مراد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہوتی ہے۔ جب کہ غامدی صاحب کی کتاب و سنت حضرت ابراہیم علیہ السلام سے شروع ہوتی ہے اور (ان کے بعد کے بنی اسرائیل کے تمام انبیاء کو شامل کرتے ہوئے) حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ختم ہوتی ہے۔ اہلِ سنت کے علماء حضرت ابراہیم علیہ السلام سے لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک آنے والے تمام انبیاء و رسل کو مانتے ہیں اور ان پر نازل کردہ اصل کتب مثلاً توریت، انجیل اور صحفِ ابراہیم کو بھی کلام الٰہی مانتے ہیں، لیکن جب وہ کتاب و سنت کو اپنی کتاب میں بطور مآخذِ شریعت بیان کرتے ہیں تو کتاب سے ان کی مراد ’قرآن مجید‘ اور سنت سے مراد سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہوتی ہے‘‘۔
منہج نقد و تحقیق:’’اس کتاب میں غامدی صاحب کے نظریات پر نقد دو اعتبارات سے کی گئی ہے۔ ایک کتاب و سنت کی روشنی میں اور دوسرا خود غامدی صاحب کے اصولوں کی روشنی میں، یعنی انہی کے اصولوں کی تطبیق کرتے ہوئے ان کے اصول و فروع کو غلط ثابت کیا گیا ہے۔ علاوہ ازیں اہلِ سنت کے اصول و قواعد اور مناہج و اسالیب کی روشنی میں بھی ان کی غلطی واضح کی گئی ہے۔
یہ بھی واضح رہے کہ یہ کتاب اصولی نقد پر مشتمل ہے اور اس میں غامدی صاحب کے اصولِ استنباط اور قواعدِ تحقیق پر نقد پیش کی گئی ہے اور ان کی فروعات کو موضوع بحث نہیں بنایا گیا ہے۔ آسان الفاظ میں یہ کتاب غامدی صاحب اور اہلِ سنت کے اصولِ استنباط اور قواعدِ تحقیق یعنی اصولِ فقہ اور اصولِ حدیث کے ایک تقابلی مطالعہ پر مشتمل ہے‘‘۔
کتاب سفید کاغذ پر عمدہ طبع ہوئی ہے۔ مجلّد ہے۔ یہ اس کتاب کا تیسرا ایڈیشن ہے۔
nn