(دوقومی نظریہ(شاہنواز فاروقی

اس نے کہا کہ میں طوفان سے بچنے کے لیے پہاڑ کی چوٹی پر چڑھ جاؤں گا۔ یہ دیکھتے ہوئے حضرت نوح ؑ نے اللہ تعالیٰ سے کہا کہ یہ میرا بیٹا یہ میرے اہل خانہ میں سے ہے۔ اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے حضرت نوحؑ سے کہا کہ یہ تیرا بیٹا نہیں ہے۔ ظاہر ہے کہ حیاتیاتی اور نسلی اعتبار سے تو حضرت نوح ؑ کا بیٹا انہی کا بیٹا تھا، مگر خدا کے نزدیک اصل چیز حیاتیات یا Biology نہیں ہے، اللہ کے نزدیک اصل چیز ایمان، عقیدہ یا نظریہ ہے۔ اس اعتبار سے حضرت نوح ؑ کا بیٹا واقعتا حضرت نوحؑ کا بیٹا نہ تھا۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب نبوت کا اعلان کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نسل نہیں بدل گئی تھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا جغرافیہ تبدیل نہیں کرلیا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زبان یعنی عربی پر اصرار ترک کرکے کوئی اور زبان اختیار نہیں کرلی تھی، بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کلمۂ طیبہ کی حقیقت کا اعلان کیا تھا۔ اس اعلان میں کفر اور شرک کا رد تھا اور توحید پر ایمان کا اظہار تھا۔ اسی بنیاد پر کفار اور مشرک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمن بنے۔ کفار اور مشرکین کہتے تھے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے گھروں اور خاندانوں کو تقسیم کردیا ہے۔ کفار اور مشرکین کا یہ خیال غلط نہ تھا۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیغام نے واقعتا اہلِ ایمان اور غیر اہلِ ایمان کے درمیان ایک لکیر کھینچ دی تھی۔ غزوہ بدر میں یہ صورت تھی کہ باپ اہلِ ایمان کی فوج میں تھا تو بیٹا کفار اور مشرکین کی فوج کا حصہ تھا۔ چچا ایک طرف تھا تو بھتیجا دوسری طرف تھا۔ حضرت ابوبکرؓ کا بیٹا اُس وقت تک ایمان نہیں لایا تھا اور وہ کفار کی فوج میں تھا۔ غزوہ بدر کے بعد اس نے حضرت ابوبکرؓ سے کہا کہ میدانِ جنگ میں آپ کئی بار میری تلوار کی زد میں آئے لیکن میں نے آپ کو والد خیال کرتے ہوئے آپ پر حملہ نہ کیا۔ حضرت ابوبکرؓ نے کہا کہ بخدا اگر تُو میری تلوار کی زد میں آتا تو میں تیری گردن اڑا دیتا۔ حضرت ابوبکرؓ کا یہ خیال دو قومی نظریے ہی کا اظہار تھا۔ ورنہ حیاتیاتی طور پر آپ اپنے بیٹے کے والد تھے۔
سوال یہ ہے کہ برصغیر میں دو قومی نظریے کا آغاز کب اور کیسے ہوا؟ اس سلسلے میں قائداعظم نے ایک بہت زبردست بات کہی ہے۔ قائداعظم نے فرمایا ہے کہ پاکستان تو اسی دن بن گیا تھا جس دن برصغیر میں پہلے مسلمان نے قدم رکھا۔ یہ ایک ایسی بات ہے جو اسلام اور مسلمانوں کی تاریخ کے گہرے شعور کے بغیر کہی ہی نہیں جاسکتی۔ تجزیہ کیا جائے تو کہا جاسکتا ہے کہ ہر مسلمان دو قومی نظریے کی علامت ہے۔ مسلمانوں کی تاریخ یہ ہے کہ وہ جہاں گئے ہیں انہوں نے جداگانہ تہذیبی تجربہ خلق کیا ہے۔ مسلمان اسپین گئے تو انہوں نے ایک جداگانہ تہذیب خلق کرکے دکھائی۔ وہ افریقہ میں گئے تو انہوں نے وہاں بھی جداگانہ تشخص وضع کیا۔ مسلمان برصغیر میں آئے تو یہاں بھی انہوں نے پوری تہذیب کو جنم دیا۔ انہوں نے اپنی جداگانہ معاشرت پیدا کی، جداگانہ لسانی تجربہ خلق کیا، جداگانہ فنِ تعمیر پیدا کیا، جداگانہ شعری روایت پیدا کی، یہاں تک کہ محمد حسن عسکری نے تو یہ تک کہا ہے کہ مسلمانوں نے موسیقی کا فن بھی ہندوؤں کے ہاتھ سے چھین لیا اور اس فن میں ہندوؤں کے استاد بن کر کھڑے ہوگئے۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو پاکستان واقعتا اُسی وقت بن گیا تھا جب برصغیر میں پہلے مسلمان نے قدم رکھا۔ اس کا ایک سبب یہ ہے کہ اسلام کے بعض تقاضے خود کو بروئے کار لانے کے لیے ریاست کا مطالبہ کرتے ہیں، لیکن برصغیر میں بڑی اور واضح سطح پر دو قومی نظریہ سب سے پہلے حضرت مجدد الف ثانیؒ اور جہانگیر کی کشمکش میں ظاہر ہوا۔ جہانگیر سے بہت پہلے اکبر ’’دینِ الٰہی‘‘ ایجاد کرکے اس کا تجربہ کرچکا تھا۔ دین الٰہی تمام مذاہب کے اصولوں کا مجموعہ تھا اور دینِ الٰہی کو ایجاد کرنے کا مفہوم یہ تھا کہ معاذ اللہ اکبر کے نزدیک اسلام ایک کامل دین نہیں تھا اور اسے خود کو کامل بنانے کے لیے دوسرے مذاہب کے ’’اچھے اصولوں‘‘ کی امداد کی ضرورت تھی۔ اگرچہ اکبر اپنی زندگی میں دینِ الٰہی سے تائب ہوگیا تھا لیکن اس کی پیدا کردہ گمراہی جہانگیر کے زمانے میں بھی موجود تھی۔ مثال کے طور پر دربار میں بادشاہ کے سامنے سجدۂ تعظیمی کا رواج موجود تھا۔ ہندوؤں کو خوش کرنے کے لیے کہیں اور کیا دربار تک میں گائے کو ذبح کرنا ممکن نہ تھا۔ اکبر ہندوؤں کے تہواروں مثلاً ہولی، دیوالی اور جنم اشٹمی وغیرہ میں جوش و جذبے سے شریک ہوتا تھا۔ اس کی ایک جھلک جہانگیر کے یہاں بھی موجود تھی۔ چنانچہ مجدد الف ثانیؒ نے تن تنہا توحید کا پرچم بلند کیا۔ انہوں نے جہانگیر کو چیلنج کرتے ہوئے کہا کہ سجدہ صرف خدا کے لیے روا ہے، چنانچہ دربار میں بادشاہ کے آگے سجدہ نہیں کیا جائے گا۔ انہوں نے فرمایا کہ گائے کا ذبیحہ اسلام کے بڑے شعائر میں سے ایک ہے، چنانچہ اسے ہر جگہ بالخصوص دربار میں جاری ہونا چاہیے۔ ہندوؤں کے تہواروں میں مسلمانوں کی شرکت کا کوئی دینی جواز نہیں، اور یہ بات مسلمانوں کے جداگانہ تشخص کو مجروح کرسکتی ہے، چنانچہ ہندوؤں کے تہواروں میں مسلمانوں کی شرکت بند ہونی چاہیے۔ جہانگیر بادشاہِ وقت تھا۔ اسے ایک صوفی اور ایک عالم کا یہ ’’نعرۂ مستانہ‘‘ پسند نہ آیا، چنانچہ اُس نے مجدد الف ثانیؒ کو قید کردیا۔ لیکن حضرت مجدد الف ثانیؒ کی بعض کرامات کے ظہور کا احوال سن کر وہ خوف زدہ ہوگیا اور اس نے نہ صرف یہ کہ حضرت مجدد الف ثانیؒ کو آزاد کردیا بلکہ اُن کی تعظیم کی اور ان کی ہدایت کے مطابق سجدۂ تعظیمی کو ختم کیا اور گائے کے ذبیحہ پر عائد پابندی اٹھالی اور قلعے میں گائے کٹوا کر گائے کے گوشت کے کباب بنائے گئے اور قلعے میں تقسیم کیے گئے۔ یہ ریاستی سطح پر برصغیر میں دو قومی نظریے کی شان و شوکت کے ظہور کا پہلا بڑا واقعہ تھا۔ بہت سے کم نظر اور تنگ نظر لوگ داراشکوہ اور اورنگ زیب کی کشمکش کو اقتدار کی جنگ اور دوشہزادوں کی معرکہ آرائی سمجھتے ہیں۔ حالانکہ داراشکوہ اور اورنگ زیب کی کشمکش اپنی اصل میں ’’دو قومی‘‘ اور ’’ایک قومی‘‘ نظریے کی آویزش تھی۔ اس آویزش میں داراشکوہ ایک قومی نظریے اور اورنگ زیب دو قومی نظریے کی علامت تھا۔ داراشکوہ ہندو ازم سے متاثر تھا اور وہ قرآن اور گیتا کو یکجا کردینا چاہتا تھا۔ یہ ہندوؤں اور مسلمانوں کو ’’ایک قوم‘‘ بنانے کی آرزو تھی۔ اورنگ زیب داراشکوہ کے اس رجحان اور اس میں مضمر خطرات کو سمجھتا تھا۔ چنانچہ اس نے داراشکوہ کے اقتدار میں آنے کی مزاحمت کی۔ اس مزاحمت میں داراشکوہ قتل ہوگیا۔ اگر داراشکوہ اور اورنگ زیب کی کشمکش ذاتی، انفرادی اور اقتدار کے لیے ہوتی تو اُس زمانے کے علماء اور صوفیہ اورنگ زیب کے ساتھ نہ ہوتے۔ ابنِ انشا جیسے پست مزاج لوگ کہتے ہیں کہ اورنگ زیب نے کوئی نماز اورکوئی بھائی نہیں چھوڑا۔ لیکن انہیں اندازہ بھی نہیں کہ اورنگ زیب نے داراشکوہ کا راستہ روک کر برصغیر کی ملتِ اسلامیہ پر کتنا بڑا احسان کیا۔ خیر یہ تو ایک جملۂ معترضہ تھا۔ یہاں کہنے کی اصل بات یہ ہے کہ دو قومی نظریہ ہماری تاریخ کا مرکزی تصور ہے۔
اہم بات یہ ہوئی کہ اس تصور نے بیسویں صدی کے وسط تک آتے آتے برصغیر میں صرف اپنے وجود پر اصرار ہی نہیں کیا بلکہ اس نے اپنے امکانات کے اظہار کے لیے پاکستان کے نام سے ایک الگ ریاست کا مطالبہ بھی کردیا۔ سرسید، اقبال اور قائداعظم انیسویں اور بیسویں صدی میں اس نظریے کی علامتوں کے طور پر ہمارے سامنے آئے۔ دو قومی نظریے کے سلسلے میں سرسید، اقبال اور قائداعظم کی اہمیت یہ ہے کہ تینوں شخصیات اپنی زندگی کے ابتدائی مرحلے میں ’’ایک قومی‘‘ نظریے کی قائل تھیں۔ سرسید کا خیال تھا کہ ہندو اور مسلمان ایک خوبصورت دلہن کی دو آنکھیں ہیں۔ اقبال ’سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا‘ لکھ رہے تھے، اور محمد علی جناح ہندو مسلم اتحاد کی علامت کہلاتے تھے۔ لیکن بالآخر ان تینوں شخصیات کی رائے تبدیل ہوئی اور تینوں دو قومی نظریے کے قائل ہوگئے۔ یہ کوئی حیران کن بات نہیں تھی۔ مسلمانوں کی اصل تاریخ ہی یہ تھی اور یہ تینوں شخصیتیں ایک زمانے میں اس تاریخ سے کچھ فاصلے پر کھڑی تھیں، لیکن بالآخر مسلمانوں کی تاریخ کی ’’مرکز جُو حرکت‘‘، ’’مرکز گریز حرکت‘‘ پر غالب آگئی۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ بیسویں صدی میں دو قومی نظریے کی مخالفت بھی بہت ہوئی۔ یہاں تک کہ بیسویں صدی کے اواخر اور اکیسویں صدی کے اوائل میں دو قومی نظریے کے خلاف سازشیں بھی شدت کے ساتھ ظاہر ہورہی ہیں۔
اس تناظر میں دیکھا جائے تو یہ محض اتفاق نہیں ہے کہ 1971ء میں جب پاکستان دولخت ہوا تو بھارت کی وزیراعظم اندراگاندھی نے یہ کہنا ضروری سمجھا کہ ہم نے آج دو قومی نظریے کو خلیج بنگال میں غرق کردیا ہے۔ وہ دن ہے اور آج کا دن ہے، بھارت نے دو قومی نظریے کا تعاقب ترک نہیں کیا ہے۔ بھارت پاکستان کی بقا اور سلامتی کے درپے ہے، اس لیے کہ پاکستان صرف پاکستان نہیں ہے بلکہ پاکستان اسلامی جمہوریۂ پاکستان ہے اور ملک کے عوام کی عظیم اکثریت جذباتی سطح پر سہی، اسلام کے حوالے سے اپنے تشخص پر فخر کرتی ہے۔ بھارت کی قیادت کے لیے یہ صورتِ حال ناقابلِ قبول ہے اور وہ ’’اکھنڈ بھارت‘‘ کا خواب دیکھنے میں لگی رہتی ہے۔ نریندر مودی کے اقتدار میں آنے کے بعد اکھنڈ بھارت کے تصور کو تقویت حاصل ہوئی ہے۔ بھارت کے مختلف علاقوں کے اسکولوں میں ایسا نصاب پڑھایا جارہا ہے جس میں پاکستان کیا، پورے جنوبی ایشیا کو اکھنڈ بھارت کا حصہ دکھایا گیا ہے۔ بھارت دو قومی نظریے کے کتنا خلاف ہے اس کا اندازہ اس بات سے کیا جاسکتا ہے کہ بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی نے بھی حال ہی میں اس بات کو فخر سے بیان کیا کہ بھارت نے مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔ دو قومی نظریے کے خلاف بھارت کی سازشوں کا ایک پہلو یہ ہے کہ بھارت سے کوئی اداکار، کوئی اہم شخصیت پاکستان آتی ہے تووہ یہ ضرور کہتی ہے کہ پاکستان اور بھارت میں مماثلتیں ہی مماثلتیں ہیں اور سرحد کی لکیر دونوں ملکوں کے عوام کو ایک دوسرے سے جدا نہیں کرسکتی۔ ظاہر ہے کہ یہ پروپیگنڈے کے سوا کچھ نہیں، ورنہ یہ بات کہنے والوں سے پوچھا جاسکتا ہے کہ اگر پاکستان کے مسلمانوں اور بھارت کے ہندوؤں میں سب کچھ مماثل ہے تو پھر بھارت کے 25کروڑ مسلمانوں کو بھارت کا ’’نیا شودر‘‘ کیوں بنادیا گیا ہے؟ آخر مماثلتیں تو بھارت کے ہندوؤں اور بھارت کے مسلمانوں میں بھی ہوں گی! دو قومی نظریے کے سلسلے میں بھارت کے گہرے بغض کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ بھارت کے ’’بہتر لوگ‘‘ بھی دو قومی نظریے کے خلاف ’’میٹھا زہر‘‘ اگلتے رہتے ہیں۔ اس کا تازہ ترین ثبوت بھارت کے سابق وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی کے سابق معاون سدھیندر کلکرنی کی وہ تقریر ہے جو انہوں نے کراچی لٹریچر فیسٹول میں اپنی تصنیف August Voices کی تقریب رونمائی میں کی۔ انہوں نے فرمایا کہ ’’جناح کا “Vision” پاکستان اور بھارت کی کنفیڈریشن کا تھا۔ یہی تصور اقبال کا تھا‘‘۔ یہ بیان جھوٹ کی انتہا ہے۔ لیکن اس بیان سے ظاہر ہوتا ہے کہ بھارت کے بہترین عناصر بھی پاکستان کا مستقبل بھارت کے ساتھ کنفیڈریشن میں دیکھتے ہیں۔ پاک بھارت کنفیڈریشن کا مطلب پاکستان اور اس کے جداگانہ تشخص کے خاتمے کے سوا کیا ہے؟ پاکستان میں بھارت کے ایجنٹ اہلِ پاکستان کو بھارت کے ساتھ جنگ کی خطرناکی سے ڈراتے رہتے ہیں، لیکن پاکستان کے لیے پاک بھارت جنگ سے زیادہ خطرناک وہ ’’نام نہاد امن‘‘ ہے جو کہیں پاکستان کو بھارت کی کالونی کی حیثیت سے دیکھتا اور بیان کرتا ہے، اور کہیں وہ پاکستان کو ایک ایسی کنفیڈریشن میں پھنسا ہوا دیکھنا چاہتا ہے جس میں پاکستان کا سرے سے کوئی نظریہ ہی نہ ہو۔ بعض کم علم اور کم فہم لوگ سمجھتے ہیں کہ تہذیب یافتہ ہونے کا مطلب ہے قوموں کے درمیان مماثلتیں تلاش کرنا۔۔۔ جبکہ حقیقی تہذیب یہ ہے کہ ہم امتیاز، اختلاف اور تنوع کا جشن منائیں اور کہیں کہ تم ہم سے مختلف ہو مگر ہم اس کے باوجود تمہاری عزت کرتے ہیں اور تمہیں زندگی کے ہر دائرے میں اپنی مرضی کی زندگی بسر کرتے دیکھنا چاہتے ہیں۔ لیکن دو قومی نظریہ صرف برصغیر سے متعلق حقیقت نہیں۔ دو قومی نظریہ ایک عالمگیر حقیقت ہے۔ ترکی چالیس سال سے یورپی یونین میں شامل ہونے کے لیے بے تاب ہے، مگر یورپی اتحاد اسے اپنا حصہ بنانے پرآمادہ نہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ترکی ایک مسلم ملک ہے اور یورپی یونین ایک ’’کرسچن کلب‘‘ ہے۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو یورپی یونین اعلان کے بغیر دو قومی نظریے کا ورد کررہی ہے۔ یورپی ممالک میں مساجد اور ان کے میناروں کی تعمیر پر اعتراضات ہورہے ہیں اور مسلم خواتین کو پردے سے روکا جارہا ہے تو اس کا سبب بھی دو قومی نظریہ ہے۔ یورپی اقوام اور یورپی معاشرے اسلامی تہذیب کے مظاہر پر پابندی لگاکر کہہ رہے ہیں کہ مسلمانوں کو یورپ میں رہنا ہے تو ’’ایک قومی‘‘ نظریے کو ماننا پڑے گا۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے سات مسلم ممالک کے تارکینِ وطن کے امریکہ میں داخلے پر پابندی لگائی تو انہوں نے بھی ایک قومی نظریے کا پرچار کیا اور امریکہ میں دو قومی نظریے کے خلاف سازش کی۔ حال ہی میں ڈونلڈ ٹرمپ نے مقبوضہ عرب علاقوں میں دو ریاستی حل کی کھلی مخالفت کرکے مقبوضہ علاقوں میں بھی دو قومی نظریے پر حملہ کیا ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو دو قومی نظریہ ہر جگہ مسلمانوں اور ان کے حریفوں کی تعریف متعین کررہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ برصغیر سے لے کر یورپ تک، یورپ سے لے کر امریکہ تک، اور امریکہ سے لے کر مقبوضہ عرب علاقوں تک ہر جگہ دو قومی نظریے کے خلاف سازشیں عروج پر ہیں۔
nn