آزاد جموں کشمیر اور راجا فاروق حیدر خان

راجا محمد فاروق حیدر خان نے وزارتِ عظمیٰ کا منصب سنبھالنے کے بعد پہلی بار جنوبی آزادکشمیر، میرپور اور بھمبر کا دورہ کیا‘ جہاں انہیں پارٹی کارکنوں اور عوام کے گلے شکووں اور اپوزیشن کی تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔ بھمبر میں جو سینئر وزیر چودھری طارق فاروق کا حلق�ۂ انتخاب ہے، عوام کی ایک معقول تعداد وزیراعظم کو اپنے مسائل سے آگاہ کرنا چاہتی تھی مگر پولیس اور انتظامیہ نے وزیراعظم کو ان فریادی عوام کی بات سننے کا موقع نہیں دیا جس سے ناخوش گوار صورتِ حال پیدا ہوئی اور مسائل زدہ عوام نے وزیراعظم کی گاڑی کے آگے لیٹ کر قافلے کو روکنے کی کوشش کی، جس پر پولیس نے لاٹھی چارج کرکے احتجاج کرنے والوں کو راستے سے ہٹا دیا۔ اس واقعے کو وزیراعظم راجا فاروق حیدر کی آمد کے خلاف مظاہرے کے بجائے سینئر وزیر طارق فاروق اور ان کے سیاسی حریف سابق اسپیکر چودھری انوارالحق یعنی دو جاٹ حریفوں کے داؤ پیچ کے طور پر دیکھا گیا۔ وزیراعظم نے میرپور، بھمبر اور برنالہ میں عوامی اجتماعات سے خطاب کیا اور ہر جگہ انہوں نے آزادکشمیر کے سسٹم کو ٹھیک کرنے کا اپنا روایتی عزم دہرایا۔ ان کا کہنا تھا کہ کوئی اساتذہ کی بھرتی کے لیے ان کے پاس سفارش لے کر نہ آئے۔
حقیقت یہ ہے کہ رشوت، سفارش اور اقربا پروری آزادکشمیر کے سسٹم کو لاحق تین بڑی بیماریاں ہیں جنہوں نے آزاد کشمیر میں میرٹ، انصاف اور ٹیلنٹ کا خون چوس لیا ہے، اور جس کے بعد معاشرہ اب زندہ لاش بن چکا ہے، جہاں اصلاح کی کوئی صورت اور امکان ہی نظر نہیں آرہا۔ یہاں عدل و انصاف کے پیمانے ہی بدل کر رہ گئے ہیں۔ سفارش، برادری اور رشوت یہاں تین رائج الوقت سکّے ہیں۔ جس کی جیب میں یہ سکہ ہے وہ بازارِ حکومت سے کامیابی کا کوئی بھی پھول خرید کر اپنی کلغی میں سجا سکتا ہے۔ جبکہ اس سکّے سے محروم شخص کتنا بھی ذہین اور باصلاحیت ہو، دھکے ہی اس کا مقدر ٹھیرتے ہیں۔ اس لیے وزیراعظم راجا فاروق حیدر جب میرٹ اور عدل کی بات کرتے ہیں تو لوگوں کو یقین ہی نہیں آتا کہ واقعی کوئی وزیراعظم اس طرح کی باتیں بھی کرسکتا ہے۔ لوگوں کو اس کا یقین دلانے کے لیے حکومت کو اس کا عملی ثبوت دینا ہوگا۔
دورے کے دوران سب سے پہلے وزیراعظم آزادکشمیر کو میڈیا کی طرف سے اس سوال کا سامنا کرنا پڑا کہ انہوں نے میرپور ڈویژن آنے میں سات ماہ کیوں لگائے؟ ظاہر ہے نئی حکومت کو اپنے قدم جمانے میں کچھ دیر تو لگتی ہے۔ پھر راجا فاروق حیدر خان کے وزیراعظم منتخب ہونے سے پہلے ہی یہ تاثر تھا کہ وہ وفاق کے زیادہ پسندیدہ نہیں۔ اس حوالے سے ان کی وزارتِ عظمیٰ ’’صبح گیا یا شام گیا‘‘ کے تاثر کے سایوں میں گھری رہی۔کابینہ کا سائز چھوٹا رکھنا اور مالی بحران بھی ایک مشکل فیصلہ اور تنی ہوئی رسّی پر سفر کے مترادف تھا۔ اب لگتا ہے کہ ان مسائل سے کسی حد تک نکلنے کے بعد وہ زیادہ اعتماد کے ساتھ کارِ حکومت چلانے لگے ہیں۔ میرپور کے دورے کے دوران ہی ان سے ایک جملہ منسوب ہوا کہ ہم مہاراجا کے دور کو واپس لائیں گے۔ اس بیان پر سابق وزیراعظم چودھری مجید کے علاوہ مسلم لیگ (ن) کے راہنما ارشد غازی نے بھی تنقید کی اورکہاکہ مہاراجا کے دور کو واپس لانے کی بات شہدا کی قربانیوں کی توہین ہے۔ وزیراعظم سے منسوب یہ جملہ درست ہے یا غلط؟ اس کا تو پتا نہیں، مگر آج کے حالات کو دیکھیں تو سسٹم اور انصاف کے حوالے سے مہاراجا کا دور بدرجہا بہتر تھا۔ مہاراجا کے نظام کا شخصی، ظالمانہ اور متعصبانہ ہونا کسی شک وشبہ سے بالاتر ہے، مگر اُس حکومت نے قوانین کی صورت میں اپنے لیے جو پیرامیٹر طے کر رکھے تھے ان پر عمل کیا جاتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ کشمیر کے منقسم حصوں میں مہاراجا دور کے قوانین آج بھی مستعمل ہیں۔ مہاراجا کے دور کی واپسی کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ کرن سنگھ کو دہلی سے اُٹھا کر سری نگر اور مظفرآباد میں لاکر بٹھایا جائے گا، بلکہ اس کا مطلب ایک ایسے حکومتی سسٹم کی بحالی ہے جس سے مجموعی طور پر عوام مطمئن ہوں اور جو کچھ مثبت بنیادوں پر کھڑا ہو۔
مہاراجا کی شخصی حکمرانی کے خلاف اسلامیانِ کشمیر نے ایک تاریخ ساز جدوجہد کی ہے۔ اس سسٹم میں مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں تھی، مگر حکومت جو قوانین بناتی تھی اُن پر سختی سے عمل کرتی تھی اور سسٹم کی دیوار میں سہولت اور نظریۂ ضرورت کا روزن کھلا نہیں رکھا جاتا تھا۔ اسی طرح انگریز بھی رجواڑوں اور شخصی حکمرانیوں کے دیس ہندوستان میں کوئی نہ کوئی سسٹم دے کر ہی رخصت ہوا۔
آزاد جموں وکشمیر کونسل میں اختیارات کی جنگ اور پبلک سروس کمیشن کے دائرۂ کار سے باہر ہونے کی وجہ سے گریڈ سترہ کی چالیس سے زیادہ اسامیاں خالی پڑی ہیں۔ اے جی آفس، ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن سمیت کونسل کے تمام شعبوں کے لیے وسائل آزادکشمیر کے عوام سے وصول کیے جاتے ہیں مگر نوکریوں کا موقع آتا ہے تو آزادکشمیر کے عوام بری طرح نظرانداز ہوتے ہیں اور ملک کے دوسرے صوبوں سے بھرتیاں کی جاتی ہیں۔ آزاد جموں وکشمیر کونسل آزادکشمیر کا ایک آئینی ادارہ ہے جس کے قیام کا مقصد مظفرآباد اور اسلام آباد کے درمیان اختیارات اور تعلقات کو توازن میں رکھنا اور کسی بھی ناخوش گوار کھینچا تانی کا امکان ختم کرنا تھا۔ یہ ایک دلخراش حکومت ہے۔ کشمیر کونسل کا ادارہ اپنے قیام کا اصل مقصد پورا کرنے میں کامیاب نہیں ہوا۔یہ ادارہ حکومت کے اندر ایک اور حکومت نہیں بلکہ حکومت کے اوپر ایک اور سوپر
(باقی صفحہ 41 پر)
حکومت ہونے کے ذہنی سانچہ اور خبط میں مبتلا ہو گیا ہے۔اس ادارے میں براجمان لوگوں کے لیے آزادکشمیر کی وقعت اوراہمیت ایک چراگاہ سے زیادہ نہیں رہی۔کشمیر کونسل نے آزادکشمیر کے عوام کے ٹیکس جمع کرنے کا کام اپنے ذمے لے رکھا ہے۔ اس کے جواب میں آزادکشمیر کو خیرات کی طرح فنڈ لوٹائے جارہے ہیں۔ کشمیر کونسل کی صورت میں مظفرآباد اور اسلام آباد کے درمیان انتظامی پُل کھڑا کیا گیا تھا مگر کشمیرکونسل کے کار پردازان نے پُل کے بجائے چھت بننے کا راستہ اختیار کیا۔ حساس انتظامی تعلق میں بالادست اور زیردست کی سوچیں نفرتوں کو جنم دیتی ہیں۔ جو یونٹ زیردست ہونے کے احساس میں مبتلا ہوتا ہے اُس میں ردعمل اور نفرت جنم لیتی ہے۔ نت نئے اور پیچیدہ مسائل جنم لیتے ہیں۔ آزادکشمیر کے انتظامی وجود کو ستّر برس کا عرصہ ہوگیا ہے۔ اب اس چھوٹی سی ریاست کو بالغ سمجھا جانا چاہیے۔ وفاق کے پاس دفاع، کرنسی اور خارجہ امور کے محکمے کافی ہیں۔ اس خطے میں اتنا امکان ہے کہ ایکسائز اور ٹیکسیشن جیسے امور بھی انجام دے سکے۔ ریاستوں اور علاقوں کے کام کرنے کی اسپیس وقت کے ساتھ بڑھتی جاتی ہے، مگر آزادکشمیر کا المیہ یہ ہے کہ وزیر دفاع اور ریگولر فوج سے شروع ہونے والے اس خطے کی انتظامی اسپیس ہر گزرتے دن کے ساتھ کم ہوتی چلی گئی۔ اب اس خطے کے اختیار اور الگ شناخت کی علامتیں صدر، وزیراعظم کے نمائشی عہدے اور ایک عبوری ایکٹ ہے، جس پر اس کی روح کے مطابق عمل بھی نہیں کیا جاتا۔ یہ کونسل اور آزاد کشمیر حکومت کے تعلقات کو لاحق ایک عارضہ ہے۔ اس کی تشخیص تو ہوچکی ہے مگر اس کا علاج نہیں کیا جاتا۔ آزاد کشمیر اور پاکستان کے انتظامی تعلقات اور کشمیر کونسل کے تعلقات کا ازسرنو جائزہ لینا ناگزیر ہے۔ آزادکشمیر کے عوام کو کوہالہ اور منگلاپار سے کسی ادارے کی معاونت کی ضرورت تو ہوسکتی ہے، سرپرستی اور بالادستی کی ہرگز نہیں۔