وہ شخص ہم میں سے نہیں

جو دنیا کو آخرت کو ملحوظ رکھتے ہوئے نہیں دیکھتا
پروفیسر عبدالحمید ڈار
اللہ رب العزت نے انسان کو پیدا کیا، آسمانوں پر ابدی جنت میں رکھا، پھر اپنی حکمتِ بالغہ سے اسے فانی دنیا میں بھیجا، جہاں جنت کی زندگی کے برعکس اپنی ضروریاتِ زندگی پوری کرنے کے لیے محنت و مشقت کو اس کے لیے لازم ٹھیرایا۔ اس مقصد کے لیے اسے مطلوبہ ذہنی و جسمانی قویٰ عطا کیے اور زمین کے چپہ چپہ کو وسائلِ رزق سے معمور کردیا۔ اس کے ساتھ ساتھ اسے ان وسائلِ رزق سے استفادہ کرنے کی آزادی اور اختیار بھی دیا تاکہ وہ چاہے تو اپنی آزاد مرضی سے یہ کام اللہ کی رضا کے مطابق انجام دے اور چاہے تو اسے نظرانداز کرکے من مانے طریقے پر چلے۔ مزید برآں اسے بتایا گیا کہ یہ دنیا عارضی اور فانی ہے اور اس کے خاتمے کے بعد ایک دوسرا عالم (عالمِ آخرت) وجود میں آئے گا جو ابدی ہوگا اور جہاں اس کی حیثیت اور مقام کا تعین ان اعمال کی بنا پر ہوگا جو اس نے دنیا کی زندگی میں انجام دیے ہوں گے۔ اگر اس کے نیک اعمال یعنی وہ اعمال جو اس نے اللہ کی رضا کے لیے کیے ہوں گے اس کے بداعمال (جو اس نے اللہ کی رضا کے خلاف من پسند طریقے پر کیے ہوں گے) سے زیادہ ہوئے تو اسے وہاں لازوال نعمتوں سے بھرپور جنت کی قیام گاہ سے نوازا جائے گا، اور اگر اس کے بداعمال کا پلڑا نیک اعمال سے بھاری ہوگا تو اسے جہنم کے عذاب کا مزا چکھنا ہوگا۔
نیک اور بداعمال کون سے ہیں، ان کے متعلق اللہ تعالیٰ نے اپنے وعدے کے مطابق انسان کو آسمانی کتابوں جن میں آخری اور مستند کتاب قرآن پاک ہے، اور انبیاء علیہم السلام جن کے سلسلے کی آخری کڑی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں، کے ذریعے پوری وضاحت کے ساتھ بتا دیا ہے۔ اب دنیا میں زندگی بسر کرنے کا بہترین اور مطلوب طریقہ یہی ہے کہ انسان ہر کام میں اللہ کی رضا کو اپنا مقصود بنائے، اور اللہ کی رضا اس میں ہے کہ زندگی کے ہر شعبے میں ہر کام آخرت کی کامیابی کو سامنے رکھ کر انجام دیا جائے۔ دنیا کی لذات میں کھو کر اور اس کی دلفریبیوں کا شکار ہوکر بڑی سے بڑی منفعت، دولت اور مال و متاع بھی انسان کو حاصل ہوتا ہے وہ محض چند روزہ ہے۔ اگر انسان ان ہی عارضی چیزوں کو مقصودِ حیات بنالے اور ان کے جال میں پھنس کر نیک و بد اور حلال و حرام کی تمیز سے بے نیاز اور آخرت میں پیش آنے والے نتائج سے بے فکر ہوجائے تو یہ بات اسلام اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات سے کوئی مطابقت نہیں رکھتی اور انجامِ کار کے اعتبار سے یہ نفع کا نہیں بہت بڑے گھاٹے کا سودا ہے۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کا مقصد انسان کو دوزخ کے عذاب سے بچانا اور جنت کی نعمتوں سے ہمکنار کرنا ہے۔ اس وجہ سے آپ نے انسان کو ہر وہ چیز بتادی ہے جو جہنم سے بچا کر اسے جنت میں پہنچا سکتی ہے۔ زیرنظر حدیث بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ جنت کے طلب گار کی نگاہ ہر وقت اعمال کے اس انجام پر رہنی چاہیے جو عالمِ آخرت میں ظاہر ہونے والا ہے۔ ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ دنیا کے عاجلہ یعنی جلد حاصل ہوجانے والے فوائد اس کی آنکھوں کو خیرہ کردیں اور اسے ابدی عذاب کے جہنم میں گرا دینے کا باعث بن جائیں۔ یہ حدیثِ پاک تر کِ دنیا کی تعلیم نہیں دیتی، بلکہ وسائلِ حیات کے صحیح طریقِ استعمال کی طرف رہنمائی کرتی ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا کو آخرت کی کھیتی قرار دیا ہے، اس لیے یہ دنیا چھوڑنے کے لیے نہیں بلکہ برتنے کے لیے ہے، البتہ اس کا استعمال اللہ کی رضا اور انبیاء علیہم السلام کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق ہونا چاہیے۔ لیکن افسوس کہ بالعموم انسان اس فانی دنیا کی لذتوں اور دلفریبیوں کو آخرت پر ترجیح دیتا ہے، حالانکہ آخرت اس سے بدرجہا بہتر اور دائمی طور پر باقی رہنے والی ہے۔ (القرآن۔ سورہ الاعلیٰ 17)
اللہ تعالیٰ دنیا پرستی کے اس دور میں فکر و نظر کے فتنوں سے بچا کر فکرِ آخرت کو ہمارے دلوں کی دھڑکن بنا دے۔
(آمین)