پروفیسر ملک محمد حسین
ہمارے دیکھتے دیکھتے نظام تعلیم فری فار آل بنا، حکومت کی تعلیمی پالیسیاں بے معنی ہوکر رہ گئیں، نصاب پر کنٹرول ختم ہوا۔ کتاب غیروں کے ہاتھ میں چلی گئی۔ تعلیمی اداروں میں اختلاطِ مرد و زن بلاکسی روک ٹوک عام ہوا۔ پرائیویٹ تو پرائیویٹ، سرکاری اسکولوں میں بھی مخلوط تعلیم رائج ہوئی۔ لڑکوں کے ہائی اسکولوں میں خواتین اساتذہ مقرر کی جاتی رہیں۔ تعلیمی اداروں میں جنسی ہوس کے مظاہرے عام ہوئے۔ ہائر ایجوکیشن کے اداروں میں مغربی ثقافت کا چلن عام ہوا۔ سرمایہ داری تعلیمی اداروں میں کھلاناچ ناچتی رہی۔ پیسے کی ہوس نے دہندروں کے بند بھی توڑ ڈالے۔ ہم سب بدرَو کی رو میں بہہ گئے اور ہم نہ صرف چپ رہے بلکہ خاموشی کے ساتھ کاروانِ کفر و شر کے ساتھ ہولیے۔ ہمارے دیکھتے دیکھتے ٹیچر ایجوکیشن برباد ہوئی۔ ہم جو یونیورسٹی آف ٹیچر ایجوکیشن کے قیام کی جدوجہد کرتے رہے، آخرکار یونیورسٹی آف ایجوکیشن قائم ہوئی اور اسی یونیورسٹی آف ایجوکیشن نے اوپن یونیورسٹی کے بعد ٹیچر ایجوکیشن کی فاتحہ خوانی کے ساتھ قل اور چالیسواں بھی پڑھا دیا۔ اب ایک سالہ بی۔ایڈ پروگرام میں بے کاری اور نالائقی کے جو گل کھلاتے تھے اب وہ بی۔ ایڈ آنرز کے چار سالہ پروگرام میں چار گنا زیادہ گل افشانی کرکے مستقبل کے اساتذہ کی جڑیں کاٹیں گے۔ اپنے گریبان میں جھانکنے کے بجائے اسے بھی امریکہ کی سازش قرار دے کر مطمئن ہوجائیں گے۔
ہمارے دیکھتے ہی دیکھتے فیڈرل پبلک سروس کمیشن کے سی ایس ایس کے امتحان میں ساڑھے نو ہزار امیدواروں میں سے صرف 202 پاس ہوئے، اور اس طرح ’’اعلیٰ تعلیم‘‘ یافتہ ملک کی کریم یوتھ کی علمی قابلیت کا بھانڈا بیچ چوراہے چکنا چور ہوا، اور ہم 180 یونیورسٹیوں اور ڈگری ایوارڈنگ انسٹی ٹیوٹس کے ذریعے کروڑوں، اربوں کما کر ڈگریاں بانٹتے رہے اور قوم کے ضمیر پر کوئی جوں تک نہیں رینگی، کیونکہ ہم تو اب خواتین تحفظ بل اور غیرت کے نام پر قتل کے بل پر غور وخوص میں مصروف ہیں۔
ہمارے دیکھتے ہی دیکھتے غیرت کے نام پر قتل کا بل 2004ء حکومت، پارلیمنٹ اور پارلیمانی کمیٹیوں کے زیر غور رہا، جو آخر اکتوبر 2016ء میں آکر اچانک پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں پاس ہوگیا۔ بل کے زیرغور رہنے کے مرحلے میں ہم کرپشن کے خلاف مہم چلاتے رہے اور اب بل پاس ہوکر قانون بن جانے کے بعد ہمیں اچانک معلوم ہوا کہ شریعت کی خلاف ورزی ہوگئی ہے اور ہمیں اس کے خلاف احتجاج کرنا چاہیے۔
ہمارے دیکھتے ہی دیکھتے عورت کو جنسِ بازار بنادیا گیا۔ اس کے استحصال کی ہرصورت جائز ٹھیری۔ اسے بسوں کا کنڈیکٹر بناکر ہوس آلود نظروں کا شکار کردیا گیا، اس کے چہرے پر سرخی پاؤڈر کے لیپ لگا کر تعلیمی اداروں کے فرنٹ آفسز اور بینکوں کے فرنٹ ڈیسک کی زینت بنادیا گیا تاکہ یوتھ کوAttract کیا جائے اور کاروبار کو فروغ حاصل ہو۔ مائیں کمائی پر لگادی گئیں اور بچے ڈے کیئر سینٹرز کے حوالے ہوئے۔ اس طرح قوم نے ترقی کی راہ ڈھونڈ لی۔ اگرچہ ہم نے یہ سب کچھ قبول کرلیا لیکن اسلامی نظام کے گلے پھاڑ نعرے پھر بھی گونجتے رہے، اور یہ سب کچھ ہمارے دیکھتے ہی دیکھتے ہوتا رہا اور ہم چپ ہی رہے۔
ہمارے دیکھتے ہی دیکھتے اسّی سے زیادہ ٹی وی چینلز نے بیڈرومز کے سارے مناظر ڈرائنگ رومز تک پہنچادیے۔ قتل و غارت لرزہ خیز نہ رہا، جنسی ہوس شرم و حیا کی ہر پابندی سے آزاد ہوگئی، مذہب کو جنسِ بازار بنادیا گیا، اداکار اور اداکارائیں واعظ بن کر مذہبی نیلام گھر چلانے لگے، اور چہرہ نمائی کے شوقین نام نہاد علماء سُو جبہ و دستار کے ساتھ میڈیا کے تاجروں کے ہاتھ لگ گئے۔ نعت کے نام پر سُر اور دھن کو مقبول بنایا گیا اور سیرتِ سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم کو پسِ پشت ڈال دیا گیا، مذہبی پروگرام کے درمیان وقفوں میں لچرکمرشل چلا کر مذہبی امور کا تمسخر اڑایا گیا۔ یہ سب کچھ ہمارے دیکھتے ہی دیکھتے ہوتا رہا اور ہم چپ ہی رہے۔
ہم خواتین یونیورسٹی کا مطالبہ کررہے تھے اور ہمارے دیکھتے ہی دیکھتے کئی خواتین یونیورسٹیاں قائم ہوگئیں، لیکن فرق کیا پڑا؟ کیا خواتین کی مطلوبہ تعلیم انہیں ملنے لگی؟ کیا مخلوط کیمپس ختم ہوگئے اورکیا نسوانیت کو تحفظ مل گیا؟ یہ سب خواب، خواب ہی رہے۔ ہمارے دیکھتے ہی دیکھتے خواتین استحصال کا شکار ہوتی رہیں، کبھی مردوں کے ہاتھوں اور کبھی اپنی ہی جنس کی چیرہ دستیوں کے ہاتھوں، اور ہم خاموش تماشائی بنے چپ سادھے رہے۔ ہمارے دیکھتے ہی دیکھتے خواتین تحفظ بل پاس ہوا۔ غیرت کے نام پر قتل کے خلاف قانون سازی ہوئی۔ این جی اوز اور اقوام متحدہ تک نے ہماری تحسین کی، لیکن حوا کی بیٹی ہوس کا نشانہ بنتی رہی، چھوٹی بچیوں سے لے کر جوان دوشیزاؤں تک کو نوچا جاتا رہا، ریپ کا شکار کیا جاتا رہا، اور ریپ کے بعد حوا کی یہ بیٹیاں قتل ہوتی رہیں۔ حوا کی بیٹیوں کی ویڈیو کی ویڈیو بلیک میلنگ عروج پر رہی اور بدمعاش کھلے عام پھرتے رہے، معزز سرعام رسوا ہوتے رہے او رہم اسباب کو کھلی چھوٹ دے کر نتائج کی گرفت پر قانون سازی کرتے رہے، قانون کا منہ چڑایا جاتا رہا اور ہم چپ ہی رہے، اس لیے کہ پوری قوم اور اس کے ’’باشعور‘‘ طبقے چپ ہیں، علماء کرام چپ ہیں، اساتذہ کرام مہر بہ لب ہیں، سماجی محققین نے اپنی تحقیق کا دائرہ بند کردیا ہے اور معاشرتی اصلاح کی تنظیمیں صرف ’’مفید‘‘ کاموں میں مصروف ہیں، دینی سیاسی جماعتیں اپنی بقا کی جدوجہد میں مصروف ہیں اور خالص دینی حلقے اس طرح کے بکھیڑوں میں پڑنا غیر اسلامی سمجھتے ہیں۔ عمائدین سیاست کو مالی کرپشن نظر آتی ہے لیکن اخلاقی کرپشن انہیں دکھائی نہیں دیتی۔ عجیب صورت حال ہے کہ ہمارے دیکھتے ہی دیکھتے سب کچھ ہوگیا اورہم چپ سادھے رہے۔