امریکہ، روس اور بڑی طاقتوں کی شام میں جاری جنگ میں عام مسلمانوں کا قتلِ عام ہورہا ہے۔ معصوم لوگ لقمۂ اجل بن رہے ہیں۔ ایسی تصویریں سامنے آرہی ہیں جن کی اشاعت بھی مشکل ہے۔عالم اسلام اور بین الاقوامی صورتِ حال پر گہری نظر رکھنے والے صحافی مسعود ابدالی نے شام کے عقوبت خانے کی ڈیلی میل لندن میں شائع ہونے والی جو تصاویر شیئر کی ہیں وہ رونگٹے کھڑے کردینے کے لیے کافی ہیں کہ کس طرح بڑے سے ہال میں لوگ برہنہ حالت میں خون آلود پڑے ہیں۔ شاید ان میں سے زیادہ تر مرہی گئے ہوں گے، اور جو زندہ بھی ہوں گے وہ اپنی موت کی دعا کررہے ہوں گے کہ انہیں زندگی کی اس تکلیف سے نجات مل سکے جوظالم و جابر حکمراں کے ظلم کے خلاف احتجاج کرنیپر مل رہی ہے۔ شام میں روزانہ کی بنیاد پر بچوں کو ماؤں، بیویوں کو شوہروں کے سامنے قربان کیا جارہا ہے۔ شام سسک رہا ہے اور رو رہا ہے اور بدقسمتی سے امتِ مسلمہ کے حکمرانوں کو کیا، عوام کو بھی ان مظلوموں کے آنسو پونچھنے کا شعور نہیں ہے۔ امت کا درد ہے کہ بڑھتا جارہا ہے لیکن کہیں سے مرہم نہیں مل رہا کہ اس درد اور تکلیف کو کم کیا جاسکے۔ مسلمانوں کے خلاف مغربی دہشت گردی ہے جو تسلسل سے جاری ہے۔ امریکہ اور روس مسلمانوں کو مسلمانوں کے ذریعے مل کر گن گن کر اور چن چن کر تہِ تیغ کررہے ہیں۔ روس کے ساتھ شام، ایران اور عراق جیسے ملک ہیں، جب کہ روس کے خلاف امریکہ کی قیادت میں برطانیہ، سعودی عرب، اسرائیل اور مغربی ممالک ہیں۔ ترکی کا کردار اس معاملے میں کچھ مختلف ہے اور وہ کردار مثبت بھی ہے اور اس میں امتِ مسلمہ کی ترجمانی بھی ہے۔ ترکی کے صدر رجب طیب اردوان کے دل میں باقی نام نہاد مسلم ممالک کے حکمرانوں کے برعکس درد بھی ہے۔ شام کی جنگ اب عالمی سیاست کے کھیل اور گریٹ گیم کا حصہ بن چکی ہے۔ یہ دنیا کی دو بڑی طاقتوں امریکہ اور روس کے درمیان پراکسی وار بھی ہے اور امتِ مسلمہ کو رسوا اور تباہ کرنے کا امریکی ایجنڈا بھی۔ شام میں اس عرصے میں پانچ لاکھ سے زائد شہری ہلاک، بے شمار زخمی اور معذور ہوچکے ہیں، ساتھ ہی بیس لاکھ سے زائد افراد بے گھر ہوگئے ہیں۔ شام معاشی اور معاشرتی طور پر مکمل تباہ ہوگیا ہے۔ 2011ء سے پہلے شام میں 60 فیصد لوگوں کا تعلق متوسط طبقے سے تھا جو شامی معاشرے کا بڑا حصہ تھا۔ ان میں ڈاکٹر،انجینئر، اساتذہ، چھوٹے تاجر، دیگر شعبوں میں خدمات انجام دینے والے ملازمین شامل تھے۔ ایک رپورٹ کے مطابق 2016ء کے آخر میں یہ طبقہ شامی معاشرے میں صرف 9.4 فیصد رہ گیا تھا اور2017ء ان کے لیے مزید المیوں کا سال بنتا جارہا ہے۔ حقوقِ انسانی کی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق شام کی ایک جیل میں خفیہ طور پر 13 ہزار کے قریب لوگوں کو پھانسی دی گئی۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کا کہنا ہے کہ پھانسی پانے والوں میں اکثریت عام شہریوں کی تھی۔ ایمنسٹی کی رپورٹ میں الزام عائد کیا گیا ہے کہ صیدنایا نامی جیل میں ستمبر 2011ء سے دسمبر 2015ء تک ہر ہفتے اجتماعی پھانسی دی جاتی رہی ہے۔ ان مبینہ پھانسیوں کی منظوری شامی حکومت میں اعلیٰ سطح پر ملنے والی منظوری کے بعد دی گئی۔ اقوام متحدہ کے حقوقِ انسانی کے ماہرین نے ایک برس قبل عینی شاہدین اور دیگر شواہد کی مدد سے رپورٹ کیا تھا کہ شام میں ہزاروں افراد کو حراست میں لیا گیا اور دورانِ حراست بڑے پیمانے پر ہلاکتیں ہوئی ہیں۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اپنی رپورٹ میں 84 افراد کے انٹرویو کیے ہیں جن میں جیل کے سابق محافظ، حراست میں لیے گئے افراد اور جیل کے عملے کے ارکان شامل تھے۔ رپورٹ میں الزام عائد کیا گیا کہ دارالحکومت دمشق کے شمال میں واقع جیل میں ہفتے میں ایک بار، اور کئی مرتبہ تو ہفتے میں دو بار 20 سے 50 لوگوں کو پھانسی دی جاتی تھی۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ حراست میں لیے جانے والے افراد کو پھانسی دینے سے پہلے دمشق کے ضلع القابونی میں واقع فوجی عدالت میں پیش کیا جاتا، جہاں ایک سے تین منٹ کی مختصر سماعت ہوتی تھی۔
فوجی عدالت کے سابق جج نے ایمنسٹی انٹرنیشنل کو بتایا ہے کہ ’’زیر حراست افراد سے پوچھا گیا کہ مبینہ جرائم میں وہ ملوث ہیں کہ نہیں؟ اور اس پر اگر جواب ’ہاں‘ کے علاوہ ’نہیں‘ بھی ہوتا تو ان کو مجرم قرار دے دیا جاتا تھا‘‘۔ رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہے کہ زیر حراست افراد کو پھانسی والے دن ہی اس کے بارے میں آگاہ کیا جاتا تھا اور انہیں وہاں سے سویلین جیل میں منتقل کیا جاتا جہاں ایک سیل میں ان پر دو سے تین گھنٹے تشدد کیا جاتا تھا، اس کے بعد درمیانی شب میں ان کی آنکھوں پر پٹیاں باندھ کر انھیں جیل کے ایک دوسرے حصے میں منتقل کیا جاتا تھا، جہاں ایک کمرے میں ان کی گردن میں پھندا ڈالنے سے چند منٹ پہلے انہیں پھانسی دینے کے بارے میں بتایا جاتا، اور اس کے بعد لاشوں کو ٹرکوں کے ذریعے دمشق کے ایک فوجی ہسپتال میں بھیجا جاتا، جہاں کاغذی کارروائی کے بعد فوج کی زمین پر واقع قبرستان میں اجتماعی قبر میں دفنا دیا جاتا تھا۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے عینی شاہدین کی مدد سے حاصل کی جانے والی معلومات کی بنیاد پر اندازہ لگایا ہے کہ پانچ برس کے دوران تقریباً 13 ہزار افراد کو پھانسی دی گئی۔
اسی طرح ایک اور تازہ ترین رپورٹ میں انسانی حقوق کے بین الاقوامی ادارے’ہیومن رائٹس واچ‘ نے دعویٰ کیا ہے کہ شام کی سرکاری فوج نے گزشتہ برس کے آخر میں حلب شہر پر قبضہ بحالی کی جنگ کے دوران باغیوں کے خلاف کیمیائی ہتھیاروں کا بے دریغ استعمال کیا جس کے نتیجے میں انسانی جانوں کے ضیاع میں غیر معمولی اضافہ ہوا۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 17 نومبر سے 13 دسمبر 2016ء کے دوران بشارالاسد کی فوج جنگی ہیلی کاپٹروں کی مدد سے حلب کی شہری آبادی پر ’کلور بموں‘ سے بمباری کرتی رہی ہے۔ ہیومن رائٹس واچ نے ایک ویڈیو رپورٹ میں شہریوں کے بیانات، تصاویر، سوشل میڈیا پر شائع ہونے والے بلاگز اور دیگر معلومات کی روشنی میں بتایا ہے کہ روسی فوج کی جانب سے شامی شہریوں پر کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کا کوئی ثبوت نہیں مل سکا تاہم شامی فوج نے حلب میں بے دریغ کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال کیا تھا۔ رپورٹ کے مطابق حلب میں شامی فوج کے ’کلور‘ بم سے کیے گئے ایک حملے میں چار بچوں سمیت 9 شہری جاں بحق اور 200 زخمی ہوگئے تھے۔ تنظیم کے ایمرجنسی شعبے کے ڈپٹی ڈائریکٹر اولی سولفانگ نے بتایا کہ شامی فوج کی اگلی صفوں میں موجود فوجی اہلکار کیمیائی ہتھیاروں کا اس طرح استعمال کرتے جیسے وہ کارروائی کا محوری حصہ ہے۔
خیال رہے کہ شامی فوج پر کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کا الزام پہلی بار عائد نہیں کیا گیا۔ انسانی حقوق کی عالمی تنظیمیں بار بار یہ دعویٰ کرتی آرہی ہیں کہ فوج شام میں جنگی جرائم، انسانیت کے خلاف جرائم کے ارتکاب اور ممنوعہ کیمیائی ہتھیاروں کا بے دریغ استعمال کررہی ہے۔ اس میں کلورگیس سے تیار کردہ بموں کا استعمال بھی شامل ہے۔اس سے قبل اقوام متحدہ اور کیمیائی اسلحہ کے استعمال کی پابندی کی ذمہ دار تنظیم نے اپنی رپورٹوں میں بتایا تھا کہ 2014ء اور 2015ء کے دوران شامی فوج تین بار کلور گیس کے ذریعے باغیوں کے زیرکنٹرول علاقوں پر حملے کرچکی ہے جب کہ داعش نے بھی رائی گیس کے ذریعے متعدد بار حملے کیے ہیں۔ عالمی قوانین اور بین الاقوامی معاہدوں میں کلور گیس کا استعمال سختی سے منع کیا گیا ہے۔ 2013ء میں شام بھی اس معاہدے کا حصہ بنا جب کلورگیس کو ہائیڈرو کلورک گیس میں تبدیل کرنے کا عمل شروع کیا گیا، لیکن شاید مسلمانوں اور مسلم ممالک کے لیے بڑی طاقتوں نے کچھ الگ سے قوانین بنا رکھے ہیں جس کا محور و مرکز مسلمانوں کو کمزور اور رسوا کرنا ہے۔
اصل بات یہ ہے کہ دنیا اس وقت اگر دہشت گردی اور ظلم میں گھری ہوئی ہے تو اس کا اصل ذمہ دار امریکہ ہے، یہ صرف ہم نہیں کہتے بلکہ وہ تاریخی حقائق اور شواہد کہتے ہیں جن کو خود امریکی دانشور بیان کرتے ہیں۔ پروفیسر نوم چومسکی جو ممتاز مصنف اور امریکی دانشور ہیں وہ امریکہ کے بارے میں کہتے ہیں کہ ’’اگر عالمی قوانین نافذ کیے جائیں تو امریکہ دہشت گردوں کی فہرست میں پہلے نمبر پر آتا ہے۔ امریکہ نے دوسرے ممالک کے قدرتی وسائل پر قبضہ کرنے کے لیے وار آن ٹیرر کا ڈھونگ 1980ء میں رونالڈ ریگن کے دورِ حکومت میں شروع کیا جو آج تک جاری ہے‘‘۔ عراق پر امریکی حملے پر ان کا کہنا تھا کہ ’’2003ء میں وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کی موجودگی کا بہانہ بناکر نہ صرف عراق کو تباہ کردیا گیا بلکہ دس لاکھ عراقی شہریوں کو بھی موت کی نیند سلا دیا گیا‘‘۔ وہ تسلسل کے ساتھ یہ کہتے رہے ہیں کہ ’’عالمی رائے عامہ کے مطابق امریکہ عالمی امن کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہے۔ کوئی دوسرا ملک اس سلسلے میں امریکہ کے قریب بھی نہیں۔ دنیا کی سب سے بڑی دہشت گردی کی مہم واشنگٹن میں چلائی جارہی ہے۔ یہاں دنیا بھر میں انسان کُشی (ڈرون حملوں) کے منصوبے بنائے جاتے ہیں‘‘۔ نوم چومسکی کے مطابق انہوں نے اس سے زیادہ دہشت گردی کہیں نہیں دیکھی۔ ولیم بیلم نے اپنی کتاب ’’روگ اسٹیٹ‘‘ اور نوم چومسکی نے اپنی کتاب میں امریکی دہشت گردی اور مختلف ممالک میں مداخلت کی 1889ء سے 2003ء تک مکمل فہرست پیش کی ہے، جسے پڑھنے کے بعد نوم چومسکی کے یہ الفاظ کہ ’’امریکہ دنیا کا سب سے بڑا دہشت گرد ملک ہے‘‘ بالکل درست معلوم ہوتے ہیں۔
امریکہ کیا سوچتا ہے اور کس فلسفے پر عمل پیرا ہے، اس کا اندازہ toward hell Marching” ” کے عنوان سے لکھی گئی کتاب میں اہم اور چونکا دینے والی حقیقتوں کو دیکھ کر ہوتا ہے۔ اس کتاب کا ذیلی عنوان ہے”America & Iraq after Islam” جس میں کتاب کا مصنف مائیکل شوئر (جو 20 سال سے زیادہ عرصے تک سی آئی اے سے وابستہ رہا، 1996ء سے 1999ء تک وہ سی آئی اے کے بن لادن یونٹ المعروف ’’الیک اسٹیشن‘‘ کا سربراہ بھی رہا، یہ یونٹ انسدادِ دہشت گردی کے مرکز میں اسامہ بن لادن کا پتا چلانے اور اس کی سرگرمیوں پر نظر رکھنے کے لیے قائم کیا گیا تھا، اس کے بعد مائیکل شوئر نے اسی یونٹ کے چیف ایڈوائزر کے طور پر ستمبر 2001ء سے نومبر 2004ء تک فرائض انجام دیے) لکھتا ہے:
’’آج سے پانچ سو سال قبل اٹلی کے سیاسی مفکر میکاولی نے اپنے پڑھنے والوں کو یہ بات ہمیشہ کے لیے ذہن نشین کرلینے کو کہا تھا کہ کسی بھی قوم کو دشمن پر غلبہ حاصل کرلینے کے بعد اس سے کسی قسم کے درگزر اور اچھائی کا برتاؤ نہیں کرنا چاہیے بلکہ اس سے پورا انتقام اس طرح کے سبق آموز اقدامات سے لینا چاہیے کہ موجودہ نسل کو پوری طرح نیست و نابود کردیا جائے تاکہ دشمن کی آئندہ نسلیں بھی آپ پر حملہ آور ہونے سے پہلے کئی بار سوچیں کہ کہیں انہیں بھی اپنے سے پہلی نسل جیسے انجام سے دوچار نہ ہونا پڑے‘‘۔
غالباً آج کے امریکیوں کی حالتِ زارکے بارے میں اس سے اچھا اگرچہ ذرا سخت الفاظ میں بیان ممکن نہیں، جو خانہ جنگی کے زمانے کے ایک جرنیل فلپ ایچ شریڈین نے اپنی یادداشتوں میں تحریر کیا ہے کہ ’’کسی بھی اچھی جنگی حکمتِ عملی کے لیے دو باتیں بنیادی اہمیت رکھتی ہیں۔ پہلی یہ کہ دشمن پر جس قدر ممکن ہوسکے بھاری ہاتھ ڈالو، اور جب ایک بار وہ تمہارے قابو میں آجائے تو اس کے ملک پر اتنے مصائب نازل کرو کہ وہاں کے عوام اپنے حکمرانوں سے یہ مطالبہ کرنے لگیں کہ جس طرح بھی ممکن ہو وہ انہیں ان مصائب سے نجات دلائیں۔ وہاں کے لوگوں کے پاس سوائے ماتم کے اور کچھ نہ رہنے دو۔‘‘
یہ سوچ اور اس کے مطابق آج امریکہ اور مغرب کا عمل ہے کہ جس کے نتیجے میں امتِ مسلمہ میں موت کا رقص جاری ہے اور انہوں نے مسلم ممالک کے حکمرانوں کو غلام بنا کر رکھا ہے۔
جہاں یہ ایک حقیقت ہے کہ امریکہ اور روس کے شام میں اپنے اپنے مفادات ہیں جس کے لیے وہ مسلم ممالک کے کٹھ پتلی حکمرانوں کے ساتھ مل کر عراق اور افغانستان اور کئی اسلامی ممالک کو برباد کرکے شام کو بھی تباہ کررہے ہیں، وہیں یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ مغرب بحیثیتِ مجموعی امتِ مسلمہ کا دشمن ہے اور تاریخی طور پر وہ اپنی دشمنی نبھا رہا ہے۔ اسلام کو دہشت گرد مذہب قرار دینا ڈونلڈ ٹرمپ کا کوئی جذباتی نعرہ نہیں بلکہ اس کے پیچھے ایک مکمل فریم ورک اور ایجنڈا موجود ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ امتِ مسلمہ یہ لڑائی کس طرح لڑے اور شام سمیت تمام اسلامی ممالک کا امن کس طرح بحال ہو؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ امتِ مسلمہ کو اپنے لیے جینے کے بجائے امت کے لیے جینے کی سوچ پیدا کرنا ہوگی، امت کے درد کو محسوس کرنا ہوگا اور عالم اسلام کے حکمرانوں کو مجبور کرنا ہوگا کہ وہ غلامی کا طوق اتار کر پھینکیں۔ اس پس منظر میں جماعت اسلامی پاکستان کے امیر سینیٹر سراج الحق کا کہنا ٹھیک اور درست ہے کہ ’’شام اور برما میں مسلمانوں پر ظلم ہورہا ہے اور عالم اسلام کے حکمرانوں نے امت کے مسائل پر خاموشی اختیار کررکھی ہے، مسلم حکمرانوں کو عالم اسلام کے لیے، ڈیڑھ ارب سے زائد مسلمانوں کے لیے اقوام متحدہ کے اندر اپنا حق مانگنا ہوگا، ورنہ اپنی الگ عالمی تنظیم بنائی جائے، حکمرانوں کو یہ فیصلہ کرنا پڑے گا کہ وہ غلامی چاہتے ہیں یا آزادی؟ مسلمانوں کو ایک مشترکہ پلیٹ فارم، مشترکہ معاشی منڈی اور مشترکہ فوج بنانے کی ضرورت ہے۔ مسلمانوں کے لیے زندگی کا واحد راستہ اتحاد و یکجہتی اور جدوجہد کا راستہ ہے۔‘‘
قبائل کے ساتھ اصلاحات کے نام پر پچھلے ڈیڑھ سال سے جو ڈراما کھیلا جارہا تھا گوکہ اس کا باقاعدہ ڈراپ سین تو ابھی ہونا باقی ہے، البتہ گزشتہ دنوں وفاقی کابینہ کے ایجنڈے سے جب اصلاحات اور قبائلی علاقوں کے خیبر پختون خوا میں انضمام کے نکتے کو حذف کیا گیا اور جب مولانا فضل الرحمن نے پشاور میں جمعیت وکلاء فورم کے کنونشن سے خطاب میں واضح طور پر یہ کہہ دیا کہ کابینہ کے اجلاس سے فاٹا اصلاحات کا نکتہ جمعیت (ف) کے وفاقی وزیر اکرم خان درانی کے اختلاف کے بعد نکالا گیا ہے اور یہ کہ فاٹا کے خیبر پختون خوا میں انضمام کے بجائے اب اسے قومی دھارے میں لایا جائے گا تو اس صورت حال پر یہ شعر سو فیصد صادق آتا ہے کہ
یہ پھول اپنی لطافت کی داد پا نہ سکا
کھلا ضرور مگر کھل کے مسکرا نہ سکا
یعنی فاٹا اصلاحات کے نام پر ایک کروڑ قبائل کو ڈیڑھ سال تک سولی پر لٹکائے رکھنے کے بعد عین آخری لمحات میں ان کے منہ سے اس نوالے کا چھینا جانا قبائل کے ساتھ حد درجہ زیادتی اور ناانصافی ہے۔ سوال یہ ہے کہ آخر یہ فیصلہ کب کیا جائے گا کہ اس اہم ترین اور نازک مسئلے کا آخری اور حتمی حل کیا ہوگا، اور یہ کہ یہ مسئلہ آخرکار کون حل کرے گا۔
فاٹا اصلاحات اور فاٹا کو قومی دھارے میں لانے کے متعلق آرمی چیف جنرل قمرجاوید باجوہ کے جنوبی وزیرستان میں فوجی جوانوں سے خطاب کی صورت میں جو پیش رفت ہوئی ہے وہ اگر ایک جانب حوصلہ افزا اور باعثِ اطمینان ہے تو دوسری طرف آرمی چیف اور مولانا فضل الرحمن کے بیانات میں پائی جانے والی ہم آہنگی اور دونوں کی جانب سے فاٹا کے خیبر پختون خوا میں انضمام کے اعلانات کے بجائے فاٹا کو قومی دھارے میں لانے کے مبہم الفاظ کے استعمال اور خواہشات کے اظہار سے اس دیرینہ اور اہم مسئلے کے مزید پیچیدہ ہونے کے خدشات کو رد نہیں کیا جا سکتا۔ مولانا فضل الرحمن نے صرف اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ انھوں نے وکلا کے درمیان کھڑے ہوکر ببانگِ دہل یہ اعتراف بھی کیا کہ جنرل پرویزمشرف کے خلاف وکلا کی چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی بحالی کی تحریک میں ان کا مؤقف بالکل واضح تھا اور بعد کے حالات نے بھی ان کے اس مؤقف کی واضح تائید کی تھی، اسی طرح اب انہوں نے فاٹا کے خیبر پختون خوا میں انضمام کی مخالفت میں کا جو موقف اختیار کیا ہے بہت جلد سب لوگ ان کے اس مؤقف کی تائید پر بھی مجبور ہوں گے۔
یہ محض اتفاق ہے یا پھر حالات کی ستم ظریفی کہ جس دن آرمی چیف اور مولانا فضل الرحمن کے فاٹا کے مستقبل کے حوالے سے بیانات ذرائع ابلاغ کی زینت بنے اسی روز گورنر خیبر پختون خوا کا یہ بیان بھی میڈیا میں شائع اور نشر ہوا کہ وزیراعظم عنقریب قبائلی علاقوں کے خیبر پختون خوا میں انضمام کا اعلان کریں گے۔ یہاں ہمیں اس حقیقت کو بھی فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ مولانا فضل الرحمن اب یہ کھل کر کہنے پر مجبور نظر آتے ہیں کہ وہ اور ان کی جماعت فاٹا کے خیبر پختون خوا میں انضمام کے خلاف نہیں ہیں بلکہ انہیں اصل اعتراض انضمام کے الفاظ اور طریقہ کار پر ہے۔ اس لیے وہ اب ایک قدم پیچھے ہٹتے ہوئے انضمام کے بجائے قبائلی علاقوں کو قومی دھارے میں لانے کے الفاظ استعمال کرتے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔ قومی دھارے سے ان کی کیا مراد ہے؟ اور کیا خیبر پختون خوا میں انضمام سے قبائل قومی دھارے سے باہر ہوجائیں گے؟ یہ ایسے سوالات ہیں جن کا تسلی بخش جواب دیئے بغیر مولانا فضل الرحمن اتنی آسانی سے اس اہم ترین مسئلے کو یوں آسانی سے ایک کروڑ قبائل کی نظروں سے اوجھل کرنے کی جو دانستہ یا نادانستہ کوشش کررہے ہیں اس میں اُن کا کامیاب ہونا یقیناًبعیداز قیاس ہے۔ فاٹا اصلاحات کو حکومت اور اس کے اتحادی مولانا فضل الرحمن اور محمود خان اچکزئی جس طرح پیچیدہ اور مبہم بنانے کی کوشش کررہے ہیں اس سے قبائل کی زندگی اور موت کے اس مسئلے کو جو اِن دنوں ’اب یا کبھی نہیں‘ کے مرحلے میں داخل ہوچکا ہے، اس حد تک سیاسی بنادیا گیا ہے کہ اب ہر کوئی اس گرم تندور پر روٹیاں لگانے کی مشق کرتا ہوا نظر آرہا ہے۔ اے این پی، قومی وطن پارٹی، پی ٹی آئی اور جماعت اسلامی واضح موقف اختیار کرتے ہوئے فاٹا اصلاحات کے نفاذ کے لیے میدان میں نکل آئی ہیں۔ صوبے میں انضمام کے مسئلے پر اختلافات سے یہ خدشات جنم لیتے جارہے ہیں کہ مبادا فاٹا انضمام کا مسئلہ رستا ہوا ناسور نہ بن جائے۔ قومی وطن پارٹی کے گزشتہ دنوں حیات محمد خان شیرپاؤ کی42 ویں برسی کے سلسلے میں منعقدہ جلسہ عام سے خطاب میں آفتاب احمد خان شیرپاؤ نے کہا کہ اگر 12مارچ سے قبل فاٹا کو خیبر پختون خوا میں ضم نہ کیا گیا تو قومی وطن پارٹی قبائل کے شانہ بشانہ جدوجہد کرے گی۔ انہوں نے کہا کہ وہ ہر ایجنسی کا دورہ کرکے قبائل کو خیبرپختون خوا میں ضم ہونے پر آمادہ کریں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ فاٹا کے خیبرپختون خوا میں انضمام سے خیبر پختون خوا ملک کا دوسرا بڑا صوبہ بن جائے گا۔ قومی وطن پارٹی اور اس کے قائد آفتاب شیرپاؤ کی جارحانہ پالیسی کے بارے میں سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ قومی وطن پارٹی۔۔۔ جو صوبائی حکومت کا حصہ ہونے کے ناتے اب تک محتاط بیٹنگ کررہی تھی اور جس میں صوبے کی بعض دیگر جماعتوں کے برعکس اب تک کسی بڑی سیاسی شخصیت نے شمولیت اختیار نہیں کی ہے۔۔۔ کو اپنے آپ کو سیاسی تنہائی سے نکالنے کے لیے فاٹا کے خیبر پختون خوا میں انضمام کا اچھا ایشو ہاتھ آیا ہے، اور شاید یہی وجہ ہے کہ وہ اس ایشو پر زیادہ جارحانہ انداز اختیار کرتی ہوئی نظر آرہی ہے۔ اسی طرح اے این پی نے بھی فاٹا کے خیبر پختون خوا میں انضمام کے ایشو پر جو واضح اور دوٹوک مؤقف اپنایا ہوا ہے اس کو بھی سیاسی ماہرین اسی تناطر میں دیکھ رہے ہیں۔ واضح رہے کہ اے این پی کی قیادت نے گزشتہ دنوں چارسدہ میں باچا خان اور عبدالولی خان کی برسی کے موقع پر اپنی جس سیاسی قوت کا مظاہرہ کیا ہے اس میں بھی اے این پی کی توپوں کا رخ اگر ایک طرف پی ٹی آئی کی قیادت اور صوبائی حکومت کی جانب تھا تو دوسری جانب اے این پی کی قیادت نے فاٹا انضمام کے ایشو پر مسلم لیگ(ن) کی قیادت اور وفاقی حکومت کو بھی آڑے ہاتھوں لیا تھا۔ اے این پی جو ان دنوں کچھ زیادہ ہی متحرک ہے، کی طرف سے فاٹا کے انضمام کے معاملے پر مولانا فضل الرحمن اور محمود خان اچکزئی کے ردعمل میں یہ مؤقف سامنے آیا ہے کہ قبائل کو بھی وہی حقوق ملنے چاہئیں جو مولانا فضل الرحمن کو ڈیرہ اسماعیل خان اور محمود خان اچکزئی کو کوئٹہ میں حاصل ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ وزیراعظم کو چند لوگوں کو خوش کرنے کے بجائے قبائلی عوام کی رائے کا احترام کرتے ہوئے ان کے احساسِ محرومی کے خاتمے میں کردار ادا کرنا چاہیے۔ انہوں نے ریفرنڈم کی تجویز کو مضحکہ خیز قرار دیتے ہوئے کہاکہ اگر یہ پنڈورا باکس کھولا گیا تو پھر کل کسی بھی علاقے کو ایسے کسی بھی مطالبے سے روکنا ممکن نہیں ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ ہم تمام پختونوں کو متحد کرنے کے لیے کسی بھی حد تک جانے سے گریز نہیں کریں گے۔
اے این پی کی جانب سے فاٹا انضمام کے ایشو پر قبائل کو متحرک کرنے اور اس معاملے کو ڈیل کرنے کے لیے مرکزی سیکرٹری جنرل میاں افتخار حسین کی سربراہی میں پانچ رکنی کمیٹی کے قیام سے پتا چلتا ہے کہ اے این پی اس ایشو کو چھوڑنے یا اس پر خاموشی اختیار کرنے کے لیے قطعاً تیار نہیں ہے، بلکہ مستقبل قریب میں یوں لگتا ہے کہ وہ اس ایشو کو بنیاد بناکر نہ صرف خیبرپختون خوا میں اپنے کارکنان کو متحرک رکھنے کی پالیسی پر گامزن رہے گی بلکہ قبائلی علاقوں میں بھی اپنے قدم جمانے کے لیے اس ایشو کو استعمال کرنے کا موقع ضائع نہیں ہونے دے گی۔
دوسری جانب جماعت اسلامی بھی قبائلی علاقوں میں پریس کانفرنسوں اور احتجاجی مظاہروں کے اعلان کے ذریعے فاٹا اصلاحات پر جارحانہ موڈ میں نظر آتی ہے۔ واضح رہے کہ جماعت اسلامی باجوڑ، مہمند اور خیبر ایجنسی میں خاصا اثر رسوخ رکھتی ہے اور ان تینوں ایجنسیوں میں فاٹا انضمام کے حوالے سے چونکہ باقی ایجنسیوں کی نسبت زیادہ سیاسی شعور اور گرمجوشی پائی جاتی ہے۔
فاٹا انضمام کے حق میں سرگرم عمل جماعتوں کی سرگرمیوں میں تیزی کے ساتھ ساتھ انضمام مخالف جماعت جمعیت (ف) کو چونکہ اس بات کے خدشات لاحق ہیں کہ کہیں وہ اپنے غیر مقبول مؤقف کی وجہ سے قبائلی علاقوں میں سیاسی تنہائی کا شکار نہ ہوجائے، تو اب اس کی جانب سے کم از کم قبائلی علاقوں کے اندر سے اس ایشو پر وہ آواز اٹھتی ہوئی نظر نہیں آرہی ہے جس کا اظہار اب تک کیا جارہا تھا، حتیٰ کہ اب تو مولانا فضل الرحمن کو بھی گزشتہ روز یہ کہنا پڑا ہے کہ وہ قبائلی علاقوں کے خیبر پختون خوا میں انضمام کے خلاف نہیں ہیں بلکہ وہ اس ضمن میں جہاں قبائل سے وسیع تر مشاورت کے متمنی ہیں وہاں وہ چاہتے ہیں کہ انضمام سے پہلے قبائلی علاقوں میں تعمیر وترقی کے لیے وسیع البنیاد اقدامات اٹھانے چاہئیں۔ یہاں ہمیں اس نازک پہلوکو بھی ہرگز نظرانداز نہیں کرنا چاہیے کہ اگر انضمام کے معاملے کو جلد از جلد منطقی انجام تک نہ پہنچایا گیا اور اس سلسلے میں ٹال مٹول کی پالیسی جاری رکھی گئی تو ان خدشات کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا کہ بعض غیر ملکی قوتیں بالخصوص بھارت اور افغانستان اس نازک ایشو اور خاص کر قبائل کے مخصوص مزاج اور حالات کو کسی بھی وقت اپنے مذموم مقاصد کے لیے استعمال کرسکتے ہیں۔ لہٰذا حکومت کو ان خدشات کو مدنظر رکھتے ہوئے جتنا جلدی ہوسکے یہ کڑوا گھونٹ حلق سے اتارتے ہوئے فاٹا کے خیبر پختون خوا میں انضمام کا مقبولِ عام فیصلہ کرلینا چاہیے، یہی اس دیرینہ اور پیچیدہ مسئلے کا مناسب اور واحد حل ہے۔