دبئی میں سابق صدر پاکستان جنرل (ر) پرویز مشرف

دبئی میں سابق صدر پاکستان جنرل (ر) پرویز مشرف کے ساتھ بعض سیاسی رہنماؤں کی ملاقاتوں کے بعد پاکستان کی اندرونی سیاست میں ایک ارتعاش سا پیدا ہوا ہے۔ سردست ان ملاقاتوں کی نہ تو اندرونی کہانیاں سامنے آتی ہیں کہ ان کے مقاصد واضح ہوئے ہیں۔ لیکن تجزیہ نگار ‘ اندازے لگارہے ہیں اور مستقبل کے سیاسی نقشوں میں رنگ آمیزی کررہے ہیں۔ اگرچہ پرویز مشرف کے ساتھ اپنے سابقہ تعلق اور مستتقبل کے منصوبوں کے حوالے سے ؟؟؟؟ اکثر سیاستدان ملاقاتیں کرتے رہتے ہیں لیکن اس بار یہ ملاقاتیں زیادہ تواتر سے اور مخصوص ملکی حالات میں ہوئی ہیں اس لے ان کی اہمیت بڑھ گئی ہے۔
جنرل (ر) پرویز مشرف کے ساتھ بہت سے اہم ملاقات پاکستان مسلم لیگ (ق) کے سربراہ چوہدری شجاعت حسین اورپاکستان مسلم لیگ پگاڑا کے سربراہ پیر صاحب پگاڑا شری نے کی ہے اور اس کی بازگشت تاحال سنائی دے رہی ہے اور اس پس منظر میں اس سے قبل بعد میں ہونے والی ملاقاتوں کا جائزہ لیا جارہا ہے۔
ان دونوں ملاقاتوں کے بارے میں تینوں جماعتوں کے روایتی بیانات کے سوا کوئی ٹھوس چیز سامنے نہین شکی۔ لیکن بیستر تجزیہ نگاروں نے یہ رائے ظاہر کی ہ کہ ان ملاقاتوں کے دو واضح مقاصد ہیں ایک مسلم لیگ کا اتحاد اور دوسر اموجودہ حکومت کے خلاف موثر اپوزیشن کی تشکیل۔ (ق) لیگ اور پگاًڑا گروپ دونوں متذکرہ بالا مقصد کے حصول کے لیے پرویز مسڑف کی خدمات حاصل کرنا چاہتے ہیں جو دراصل اسٹبلشمنٹ کی حمایت ہوگی۔ ان رہنماؤں کا خیال ہے کہ فوج کا ادارہ اب بھی پرویز مشرف کے ساتھ ہے اور اپنے تحفظات کی وجہ سے اس اتحاد کو آگے بڑھاسکتا ہے۔ یہ اتحاد ملکی ہی نہیں اس وقت عالمی ضرورت بھی ہے۔ اگر مسلم لیگیوں کے اتحاد کی بات آگے بڑھی ہے تو بہت جلد عوامی مسلم لیگ کی سربراہ شیخ رشید اور مسلم لیگ (ضیاء) کے سربراہ اعجاز الحق پرویز مشرف سے ملاقات کرسکتے ہیں شیخ رشید تو اس کام کے لیے کسی بھی حد تک جاسکتے ہیں لیکن اعجاز الحق جو اس حکومت کے اتحادی ہین ان کے لیے یہ فیصلہ ذرا مشکل ہوگا لیکن اپنے سابقہ فوجی پس منظر کی وجہ سے وہ بھی اس طرف آسکتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ یہ چاروں مسلم لیگی دھڑے اکھٹے بھی ہوجائیں تو موجودہ وفاقی حکومت کا کیا بگاڑلیں گے۔ نہ ان کے پاس پارلیمنٹ میں کوئی بڑی تعداد موجود ہے اور نہ عوام میں موثر پذیرائی۔ تاہم ان کا اتحاد اپوزیشن کو مضبوط ضرور کردے گا اور اسٹبلشمنٹ کے ان کی پشت پر آکھڑے ہونے سے (جس کی امید کی جارہی ہے)یہ کوئی فیصلہ کن کردار ادا کرسکے گا۔ چنانچہ مسلم لیگ (ن) نے اس خدشے کو بھانپ لیا ہے لاہور اور ہری پور میں اس کے ورکرز کنونشن میں بڑی سخت زبان استعمال کی گئی ہے اور اس کام کے لیے پرویز رشید بھی متحرک ہوئے ہیں۔ ہری پور میں خواجہ سعد رفیق نے یہاں تکہا ہے کہ ہمیں ہٹانے کی کوشش کی گئی تو مزاحمت کریں گے۔ یہ بات انہوں نے بلاوجہ نہیں کہی۔ خود نواز شریف ‘شہباز شریف اور حمزہ شہباز بھی عومای جلسوں میں سخت زبان استعمال کررہے ہیں۔ بعض حلقوں کا خیال ہے کہ پگاڑا مشرف ملاقات کا مقصد سندھ حکومت کے لیے مشکلات پیدا کرنا ہے۔
پرویز مشرف ‘شجاعت ‘ پگاڑا ملاقات کے بعد ڈاکٹر عشرت العباد ننے بھی پرویز مشرف سے ملاقات کی ہے اور سابق صدر زرداری کی ملاقات کی بھی افواہیں گردش کررہی ہیں۔ ساتھ ہی ایم کیو ایم کے پیدائشی جیالے سلیم شہزاد کی اچانک وطن واپسی۔ گرفتاری۔ ایم کیو ایم لندن کا ان کی آمد پر اظہار برہمی اور ایم کیو ایم پاکستان اور پاکس رزمین پارٹی کی بظاہر بڑھتی ہوئی مقبولیت اور مصطفی کمال کی جانب سے میئر کراچی کی حمایت کرنا بلاوجہ نہیں ہے۔ یہ سیاسی کھچڑی کیا رنگ دکھائے گی اس کا اندازہ آنے والے چند دنوں میں ہوجائے گا کہ یہ محض سیاسی تفریح ثابت ہوتی ہیں یا کوئی ٹھوس نتائج بھی پیدا کرتی ہیں۔ یہ بات بھی اہمیت کی حامل ہے کہ خود پرویز مشرف نے بھی ایک بار پھر وطن واپسی کی بات کی ہے جبکہ مسلم لیگ(ن) نے اپنی قوپوں کا رخ ایک بار پھر ڈاکٹر طاہر القادری کی جانب کردیاہے۔ یہ سب کچھ بلاوجہ نہیں ہے۔ پانامہ لیکس کے فیصلے اور ڈان لیکس کی رپورٹ کے بعد صورتحال زیادہ واضح ہوتی نظر آرہی ہے۔