پانچ فروری کو جب خیبر سے کراچی تک پاکستانی عوام مقبوضہ کشمیر کے مظلوم لوگوں کے ساتھ یک جہتی کا اظہار کررہے تھے اور دنیا کو یہ پیغام دیا جا رہا تھا کہ پاکستانی عوام سیاسی وابستگی اور تفریق سے بالاتر ہوکر کشمیریوں کی حمایت میں یک آواز اور یک جہت ہیں تو عین اسی روز اظہارِ یک جہتی کے طور پر آزادکشمیر قانون ساز اسمبلی اور کشمیر کونسل کا مشترکہ اجلاس بھی منعقد ہورہا تھا۔ اس اجلاس سے وزیراعظم پاکستان میاں محمد نوازشریف کا خطاب بھی متوقع تھا جو موسم کی خرابی کا عذر اپناکر مظفر آباد نہ آسکے اور ان کی نمائندگی وفاقی وزیر امور کشمیر چودھری برجیس طاہر نے کی۔ آزادکشمیر کی ننھی منی اپوزیشن نے اس اجلاس کا بائیکاٹ کردیا۔
آزادکشمیر اسمبلی میں اس وقت اپوزیشن کے حالات زیادہ اچھے نہیں۔ یوں لگتا ہے کہ اپوزیشن کا اسمبلی میں وجود بس تبرکاً ہی ہے جسے ٹوکن بھی کہا جا سکتا ہے۔ 49 رکنی ایوان میں اپوزیشن کی چار جماعتوں کے 10 ارکان ہیں اور وہ بھی کسی ایک نکتے پر متفق نہیں۔ ایوان میں پیپلزپارٹی کے 4، مسلم کانفرنس کے 3 ، پی ٹی آئی کے 2 اور جموں وکشمیر پیپلزپارٹی کا ایک رکن ہے۔ ان ارکان میں چودھری مجید اور سردار عتیق احمد خان کی صورت میں دو سابق وزرائے اعظم، چودھری یاسین کی صورت میں ایک سابق سینئر وزیر اور سردار خالد ابراہیم خان کی صورت میں ایک پارٹی سربراہ بھی شامل ہیں۔ لیکن ابھی تک اپوزیشن کی پارلیمانی کارکردگی کچھ زیادہ اچھی نہیں رہی۔ پیپلز پارٹی ابتدائی مرحلے میں ہی حکومت کے ساتھ مفاہمت کرکے قائدِ حزبِ اختلاف کا عہدہ اور خواتین کی ایک مخصوص نشست حاصل کرنے میں کامیاب رہی، اور فی الحال وہ اسی کامیابی میں مست ہے، جبکہ مسلم کانفرنس اور پی ٹی آئی اور جموں وکشمیر پیپلزپارٹی اپنی اپنی دنیاؤں میں گم ہیں۔ اس طرح دیکھا جائے تو اپوزیشن نے ابھی تک عوامی مسائل اور آزادکشمیر کے آئینی اور سیاسی امور پر کوئی کردار ادا نہیں کیا۔ ایسے میں اپوزیشن نے ایک ایسے اجلاس کا بائیکاٹ کرنا ضروری سمجھا جو کشمیر کے نام پر بلایا گیا تھا اور جس میں کشمیری عوام کی حمایت میں آواز بلند ہونا تھی۔
دوسرے روز وزیراعظم راجا فاروق حیدرخان نے خصوصی طور پر بلائی گئی ایک پریس کانفرنس میں اپوزیشن کو آڑے ہاتھوں لیا اور الزام عائد کیا کہ اپوزیشن ترقیاتی اسکیموں کے لیے فنڈز مانگ رہی تھی اور اسی لیے ناراض ہوکر بیٹھ گئی۔ اس کے جواب میں قائد حزب اختلاف چودھری یاسین اور دوسری اپوزیشن جماعتوں نے دوسرے لفظوں میں اس الزام کو یوں قبول کیا کہ حکومت نے ترقیاتی اسکیموں کے فنڈز میں اپوزیشن کو دیوار سے لگا رکھا ہے، اس رویّے کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے انہوں نے اجلاس میں شرکت نہیں کی۔ پی ٹی آئی کے دو ارکان اسمبلی دیوان غلام محی الدین اور عبدالماجد خان نے ایک مشترکہ بیان میں الزام عائد کیا کہ وزیراعظم میاں نوازشریف نے اپنا دورہ نریندر مودی کو خوش کرنے کے لیے منسوخ کیا۔ پانچ فروری کو جوتیوں میں دال بٹنے کے اس منظر کے باعث حکومت اور اپوزیشن میں خلیج گہری ہوگئی۔
حکومتوں کی اپنی مجبوریاں اور مصلحتیں ہوتی ہیں، مگر اس نظام میں صدر نسبتاً ایک غیرجانبدار شخصیت ہوتا ہے۔ غیر جانبدار کا مطلب غیر سیاسی ہونا ہرگز نہیں ہوتا، مگر تب بھی وہ اپنے منصب کے تقاضوں کے پیش نظر اپنا کردار مصلحانہ رکھتا ہے۔ اس وقت صدر کے منصب پر سردار مسعود خان جیسی شخصیت فائز ہے، جو اگرچہ سیاسی تجربہ تو نہیں رکھتے مگر ان کے پاس سفارت کاری کا وسیع تجربہ ہے۔ ایک سفارت کار کا کام ہی مفاہمت قائم کرنا،کشیدگی کے پہاڑوں کو چیر کر راستہ بنانا، تعلقات کی منجمد برف کو پگھلانا اور متحارب فریقوں کو قریب لانا ہوتا ہے۔ ایک ڈپلومیٹ بری سے بری بات کو اچھے انداز سے کہنے کے فن میں یدِ طولیٰ رکھتا ہے۔ سردار مسعود خان ان صلاحیتوں سے مالامال ہیں، بس شاید انہیں اپنی صلاحیتوں کو نئے منصب کے تقاضوں کے ساتھ ٹیون کرنے کے لیے کچھ وقت درکار ہے، مگر آزادکشمیر میں ایک ڈپلومیٹ صدر کی موجودگی میں اپوزیشن کا ایک اہم قومی ایشو پر اسمبلی سے غیر حاضر رہنا سوالیہ نشان ہے۔ آزادکشمیر کی سیاست ان کی ڈپلومیسی کی مہارت اور تجربے کے استعمال کا تقاضا کرتی ہے۔ صدر آزادکشمیر سردار مسعود خان کو اب یہ جان لینا چاہیے کہ وہ دفتر خارجہ میں نہیں بلکہ آزادکشمیر کے سب سے بالاتر آئینی ادارے کے سربراہ ہیں۔ اور اس حقیقت کا ادراک کرتے ہوئے انہیں آزادکشمیر میں سیاسی اور قومی مفاہمت کے لیے اپنا کردار ادا کرنا چاہیے ۔
nn