کراچی کو روشنیوں کا شہر کہا جاتا ہے، مگر اِس وقت شہر میں گندگی کا ڈھیر لگا ہوا ہے۔ شہرِ قائد جزوی طور پر گویا تباہ ہوچکا ہے، جس کے ذمے دار ہم اور ہمارے حکمران ہیں۔ کہنے کو تو کراچی پاکستان کی آمدنی میں 70 فیصد کا شراکت دار ہے، مگر اس شہر کے ساتھ وہ سلوک روا رکھا جارہا ہے جو ملک کے تیسرے اور چوتھے درجے کے شہر کے ساتھ بھی نہیں ہوتا۔ کراچی کو کچرے کا ڈھیر اس لیے بنایا جارہا ہے تاکہ دیگر شہروں کو اہمیت دی جاسکے۔ گندگی کو ہی لے لیجیے۔۔۔ جگہ جگہ کچرا پڑا ہے، نکاسئ آب کا نظام درہم برہم ہے، سڑکوں پر گندا پانی جمع ہے، جس کی وجہ سے سڑکوں کی حالت انتہائی خستہ ہوتی جارہی ہے، نتیجتاً ٹریفک جام بھی معمول بن گیا ہے۔ اس سب کا خمیازہ سب سے زیادہ کاروباری حضرات یا بڑے بڑے کارخانوں کو بھگتنا پڑتا ہے۔ اور سب سے افسوس ناک بات یہ ہے کہ ہم اپنے شہر کا کچرا خود نہیں اٹھا سکتے، اس کے لیے بھی چائنا سے مدد لی جارہی ہے۔
کسی بھی شہر کی معیشت کا اندازہ وہاں ہونے والی سرمایہ کاری سے لگایا جاتا ہے خواہ ملکی ہو یا غیر ملکی۔ جبکہ پورے پاکستان کی معیشت کا انحصار کراچی پر ہے۔ شہر کی گندگی سے پریشان ہوکر سرمایہ کار دوسرے شہروں میں منتقل ہورہے ہیں۔ پاکستان کی جی ڈی پی میں حد درجہ کمی واقع ہوئی ہے۔ کیونکہ درآمد و برآمد کے لیے سب سے سستا راستہ سمندری ہے اور سمندر صرف کراچی اور گوادر میں ہے۔ ہمارے حکمرانوں کو یہ تسلیم کرلینا چاہیے کہ انہیں کسی صوبے یا شہر کے امتیاز سے بالاتر ہوکر کراچی کو بچانا ہے، کیونکہ اگر کراچی تباہ ہوا تو پورا ملک تباہ ہوجائے گا۔ وفاقی حکومت کو اپنی پالیسی تبدیل کرکے کراچی کو سنوارنا ہوگا۔ شہرِ قائد پاکستان کی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔ حکمرانوں کو ایک بار پھر نئے سرے سے باور کرانا ہوگا کہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کو کراچی سے کسی دوسرے شہر میں لے جانا، کراچی اسٹاک ایکسچینج کو شہر سے ہٹاکر کہیں اور منتقل کردینا یہاں کی صنعتوں کو تباہ کرنے کے مترادف ہوگا۔ انہیں اس بات کا اندازہ نہیں ہے کہ کراچی اور پاکستان کی تباہی میں یہ اقدامات کلیدی کردار ادا کریں گے۔ وفاقی حکومت کو سندھ حکومت اور بلدیاتی اداروں کے ساتھ مل کر ایک بار پھر کراچی کو روشنیوں کا شہر بنانا ہوگا تاکہ سرمایہ کار اس طرف متوجہ ہوں۔ اس سے کراچی کا ہی نہیں بلکہ پورے ملک میں رہنے والے افراد کا بھی فائدہ ہے۔
سید عاصم علی ، کراچی