(کشمیر کانفرنس (میاں منیر احمد

135ماعت اسلامی کے زیراہتمام مسئلہ کشمیر پر کل جماعتی کانفرنس ہوئی جس کی میزبانی جماعت اسلامی کے امیر سینیٹر سراج الحق نے کی۔ کانفرنس سے پاکستان تحریک انصاف کے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی، آزاد کشمیر کے سابق صدر جنرل (ر) محمد انور خان، سابق وزیراعظم آزاد کشمیر سردار عتیق احمد خان، سابق چیئرمین سینیٹ اور پیپلز پارٹی کے سیکریٹری جنرل سید نیر حسین بخاری، جے یو آئی (س) کے سربراہ مولانا سمیع الحق، سینیٹ کے ڈپٹی چیئرمین جے یو آئی کے سیکریٹری جنرل مولانا عبدالغفور حیدری، مسلم لیگ ضیاء کے سربراہ محمد اعجاز الحق، جاوید ہاشمی، ملّی یکجہتی کونسل کے صدر صاحبزادہ ابوالخیر، پاکستان عوامی تحریک کے رہنما خرم نواز گنڈاپور، تنظیم اسلامی کے صدر حافظ عاکف سعید، جماعت اسلامی آزاد کشمیر کے امیر عبدالرشید ترابی، حریت کانفرنس کے رہنماؤں غلام محمد صفی، میر طاہر مسعود، رفیق ڈار اور دیگر نے خطاب کیا۔ اس کانفرنس میں عنایت اللہ شمالی، مشتاق احمد ایڈووکیٹ، میاں محمد اسلم، حامد میر، رفیق ڈار، ثاقب اکبر، علامہ عارف واحدی، سمیحہ راحیل قاضی، عائشہ سید، رفعت عزیز، مشعال ملک سمیت دیگر قائدین نے بھی شرکت کی۔ کشمیر یکجہتی کانفرنس میں شریک کئی رہنماؤں نے حکمران جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) کی کانفرنس میں عدم شرکت پر شدید الفاظ میں نکتہ چینی کرتے ہوئے کہا کہ اس سے حکمران جماعت اور موجودہ حکومت کی کشمیر پالیسی میں دلچسپی بے نقاب ہوگئی ہے، اور اُس کے کشمیر یکجہتی کانفرنس کا بائیکاٹ کرنے سے مقبوضہ کشمیر میں منفی تاثر اور پیغام جائے گا، پاکستان کی تمام سیاسی اور مذہبی جماعتیں کشمیر کے ون پوائنٹ ایجنڈے پر ایک ہیں لیکن آج حکمران جماعت نے اس مؤقف کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی ہے۔ یہ کانفرنس 5 فروری کی مناسبت سے ہوئی جس میں مطالبہ کیا گیا کہ قومی و کشمیری قیادت کی مشاورت سے مسئلہ کشمیر پر قومی پالیسی بنائی جائے، وزیراعظم نوازشریف کشمیر پر خصوصی نمائندے کا تقرر کریں، پاکستان میں بھارتی فلموں کی نمائش پر پابندی لگائی جائے، دنیا میں کشمیر کا مقدمہ پیش کرنے کے لیے وزیر خارجہ کا تقرر کیا جائے، بھارت سے دو طرفہ مذاکرات میں مسئلہ کشمیر کو سرفہرست رکھا جائے، جماعت الدعوۃ پر پابندی ختم اور حافظ سعید کو رہا کیا جائے۔ جبکہ پاکستان، آزاد کشمیر اور مقبوضہ کشمیر کے سیاسی قائدین نے کانفرنس کے اختتام پر اعلامیے کی منظوری دی۔ اعلامیے میں حکومتِ پاکستان سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ قومی اور کشمیری قیادت کی مشاورت سے ایسی کشمیر پالیسی تشکیل دی جائے جس سے کشمیری حریت پسندوں کے حوصلے بلند ہوں اور بھارت پر دباؤ بڑھے۔ اعلامیے میں یہ بھی مطالبہ کیا گیا ہے کہ یوم یکجہتی کشمیر کے موقع پر پارلیمنٹ، صوبائی اسمبلیوں، آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کی اسمبلیوں میں قراردادیں پاس کی جائیں۔ مقبوضہ کشمیر سے پاکستان آنے والے شہریوں کو آزاد کشمیر جانے سے روکا نہ جائے۔ اعلامیے میں لکھا گیا ہے کہ یہ کانفرنس مقبوضہ جموں وکشمیر میں جاری بھارتی ریاستی دہشت گردی، مسلسل کرفیو کے نفاذ، کالے قوانین، پیلٹ گن جیسے ممنوع ہتھیاروں کے ذریعے نہتے کشمیریوں کے قتل عام، 15ہزار نوجوانوں کو بینائی سے محروم کرنے، جائدادیں اور ہسپتال لوٹنے اورتباہ کرنے، نیز سید علی گیلانی، میر واعظ عمر فاروق، شبیر احمد شاہ، یاسین ملک، آسیہ اندرابی اور دیگر حریت پسندوں کی اندھا دھند نظربندی اورگرفتاریوں کی شدید مذمت کرتی ہے۔ کانفرنس میں بھارتی حکومت کی طرف سے غیر ریاستی باشندوں کی آبادکاری کے ذریعے ریاست میں مسلم تشخص کو ختم کرنے کی حکمت عملی پر شدید تشویش کا اظہار کیا گیا اور اس عمل کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کی روح کے منافی قراردیا گیا۔ اعلامیے میں کہا گیا کہ یہ اجلاس اقوام متحدہ اور عالمی برادری سے مطالبہ کرتا ہے کہ بھارت پر دباؤ ڈالا جائے کہ وہ اقوام متحدہ کی قراردادوں اور چارٹر کی روشنی میں کشمیریوں کی حقِ خودارادیت کے حصول کی تحریک کی کامیابی کے لیے اپنا کردار ادا کرے اور بھارت کو مجبور کرے کہ وہ فوجی انخلاء کرے، کالے قوانین ختم کرے، گرفتار شدگان کو رہا کرے، قائدین حریت کی نظربندی اور گرفتاریوں کا سلسلہ ختم کرتے ہوئے انھیں سفری دستاویزات فراہم کرے تاکہ وہ دنیا تک اپنا مؤقف پہنچا سکیں۔ پیلٹ گن کے ذریعے ہزاروں زخمی نوجوانوں کے علاج معالجے کی اندرون ملک اور بیرون ملک سہولت فراہم کرے۔ انسانی حقوق کی تنظیموں، ریلیف ایجنسیوں اور میڈیا کو مقبوضہ جموں وکشمیر جانے کی اجازت فراہم کرے۔ اجلاس حکومتِ ہندوستان سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ یشونت سنہا کی کمیٹی کی حالیہ سفارشات اور اپنے اہلِ دانش سیاسی رہنماؤں اور انسانی حقوق کی تنظیموں کی حقائق پر مبنی تجاویز کی روشنی میں نوشتۂ دیوار پڑھتے ہوئے انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ختم کرے، اٹوٹ انگ کی رٹ ترک کرے اور مسئلے کے حل کے لیے سنجیدگی سے مذاکرات کا عمل شروع کرے۔ اجلاس حکومتِ پاکستان سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ اس مسئلے کے فریق اور وکیل کی حیثیت سے برہان مظفروانی کی شہادت کے نتیجے میں تحریک آزادی کی انقلابی لہر کو مایوسی سے بچانے اور نتیجہ خیز بنانے کے لیے قومی اور کشمیری قیادت کی مشاورت سے ایک ایسی جامع حکمت عملی تشکیل دے جس سے حریت پسندوں کے حوصلے بھی بلند ہوں اور بین الاقوامی سطح پر بھارت پر ٹھوس دباؤ مرتب ہوسکے، جو اسے مسئلہ حل کرنے پر مجبور کرے۔ اس سلسلے میں درج ذیل اقدامات کیے جائیں:
5 فروری کو حکومتی اور عوامی سطح پر بھرپور طور پر یوم یکجہتی کشمیر منایا جائے۔ پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیاں، آزاد جموں و کشمیر، گلگت بلتستان کی اسمبلیاں قراردادیں منظور کریں۔ وزیراعظم پاکستان مظفر آباد میں حسبِ روایت اسمبلی اور کونسل کے مشترکہ اجلاس میں قومی مؤقف کا اعادہ کرتے ہوئے جامع خطاب کریں اور کشمیریوں کو یقین دلائیں کہ حق خودارادیت کے حصول کی اس جدوجہد میں پوری قوم ان کے ساتھ ہے۔ اقوام متحدہ، اسلامی کانفرنس تنظیم (او آئی سی) اور دیگر بین الاقوامی اداروں میں مسئلہ کشمیرکو زیربحث لایا جائے اورکشمیریوں کے حقِ خودارادیت کے حصول کی حمایت حاصل کی جائے۔ وزارتِ خارجہ اور سفارت خانوں کو متحرک کرنے کے ساتھ وزیراعظم خود اہم دارالحکومتوں کا دورہ کریں، نیز ایسے پارلیمانی وفود بھیجے جائیں جن میں مسئلہ کشمیر سے آگاہی رکھنے والے ماہرین شامل ہوں، بھارت سے دوطرفہ مذاکرت کی صورت میں مسئلہ کشمیر سرفہرست رکھا جائے اور تجارتی، ثقافتی اور دیگر باہمی تعلقات کو مسئلہ کشمیر پر پیش رفت سے مشروط کیا جائے۔
سراج الحق امیر جماعت اسلامی پاکستان نے اظہار خیال کیا کہ کشمیر کا مسئلہ ہی پاکستانی ملت کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرسکتا ہے۔ کشمیر کے حوالے سے حکومتِ پاکستان پر جو ذمہ داریاں ہیں وہ پوری نہیں کی جارہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان ایک جسم ہے اور کشمیر اس کی روح ہے، اگر روح نہیں ہے تو جسم بھی بے معنی ہے۔ کشمیر کے مسئلے کے حل کے لیے متحرک سفارتی تحریک شروع کی جائے، اس سلسلے میں کل وقتی وزیر خارجہ کا تقرر بھی کیا جائے، حافظ سعید کی نظربندی کی مذمت کی جانی چاہیے، حکومتِ پاکستان‘ پاکستان کی دینی جماعتوں کو مودی اور ٹرمپ کی عینکوں سے دیکھنے کے بجائے پاکستان کے مفاد سے دیکھے۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ کشمیر کے سلسلے میں اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عملدرآمد کیا جائے۔ کشمیری تکمیلِ پاکستان کی جنگ لڑرہے ہیں۔ یوم یکجہتی کشمیر پاکستان، آزاد کشمیر، گلگت بلتستان کے علاوہ پوری دنیا میں بھی منایا جائے۔ حکومت نے کانفرنس میں شرکت نہ کرکے کشمیریوں کو منفی پیغام دیا ہے، حکومت مسئلہ کشمیر کے سلسلے میں اور کشمیر پر کوئی مثبت قدم اٹھائے گی تو ہم دس قدم بڑھ کر اس کا ساتھ دیں گے، مگر بدقسمتی سے آج کی کانفرنس میں حکومتی نمائندوں کی عدم شرکت سے منفی تاثر پیدا ہوا۔ پاکستان کی خارجہ پالیسی میں خرابیاں ہیں، وزیر خارجہ موجود نہیں ہیں، بعض اسلامی ممالک بالخصوص متحدہ عرب امارات کا بھارت کی طرف جھکاؤ پاکستان کی کمزور خارجہ پالیسی کا اظہار کرتا ہے۔ شاہ محمود قریشی وائس چیئرمین تحریک انصاف نے کہا کہ کشمیر کے مسئلے پر پاکستانی سیاسی قیادت میں کوئی اختلاف نہیں ہے، پاکستان کی ہر حکومت اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عملدرآمد کا مطالبہ کرتی رہی ہے، موجودہ حکومت نے کشمیر کاز کو پس پشت رکھا ہوا ہے۔ مظفر وانی کی شہادت کے بعد مقبوضہ کشمیر کے نوجوانوں نے ایک خاص پیغام دیا ہے کہ پاکستان اپنے مسائل میں جکڑا ہوا ہے مگر کشمیری عوام پُرامن طور پر اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے، بھارتی فوج کا تشدد انہیں نہیں روک سکتا، اور یہ کہ بھارت سے حقِ خود ارادیت لے کر رہیں گے۔ بدلتے ہوئے حالات میں ہمیں اپنی پالیسی پر نظرثانی کرنا ہوگی، ماضی میں ہم بیک چینل ڈپلومیسی کے ذریعے مسئلہ کشمیر پر کام کرتے رہے ہیں، مگر یاد رکھیں کہ کشمیر دو طرفہ مسئلہ نہیں بلکہ سہ فریقی مسئلہ ہے، اگر بیک چینل ڈپلومیسی سے مسئلہ کشمیر کے کسی حل کی طرف پیش رفت ہوتی ہے تو وہ ناپائیدار ہوگی جب تک اس میں کشمیری شامل نہ ہوں۔ محمد اعجازالحق صدر مسلم لیگ (ضیاء) نے کہا کہ مسئلہ کشمیر پر حکومت خصوصی نمائندے کا تقرر کرے، سفارت خانوں میں کشمیر ڈیسک قائم کیے جائیں۔ سید نیر حسین بخاری سیکرٹری جنرل پیپلزپارٹی نے کہا کہ کشمیر کے مسئلے پر پاکستان کی سب جماعتوں کا ایک ہی مؤقف ہے، ہندوستان ستّر برسوں سے مقبوضہ کشمیر میں مظالم ڈھا رہا ہے، اور ہم صرف ان کی داستان بیان کرتے ہیں، ہمیں آگے بڑھ کر اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عمل درآمدکروانے کے لیے بھرپورکردار ادا کرنا چاہیے۔ ڈپٹی چیئرمین سینیٹ مولانا عبدالغفور حیدری نے کہا کہ ہندوستان نے اول روز سے پاکستان کو تسلیم نہیں کیا، کشمیریوں کو حقِ خود ارادیت دیا جائے، جب تک کشمیریوں کو حق نہیں دیا جاتا اُس وقت تک امن قائم نہیں ہوسکتا۔ کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے عوامی مسلم لیگ کے چیئرمین شیخ رشید احمد نے کہا کہ کشمیری مجاہدین کی قربانیوں کے نتیجے میں مسئلہ کشمیر فلیش پوائنٹ بنا ہے، تسلسل کے ساتھ عالمی برادری کو بیدار رکھنے کی ضرورت ہے۔ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے جمعیت علمائے پاکستان کے صدر اور ملّی یکجہتی کونسل پاکستان کے صدر صاحبزادہ ابوالخیر زبیر نے کہا کہ برہان مظفر وانی کی شہادت کے بعد مسئلہ کشمیر پوری دنیا میں اجاگر ہوا اور خود ہندوستان کے اندر بھی آوازیں اٹھی ہیں، کشمیری پاکستان کی بقاء کی جنگ لڑ رہے ہیں۔کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے امیر جماعت اسلامی آزاد جموں وکشمیر عبدالرشید ترابی نے کہا کہ ہندوستان مقبوضہ کشمیر سے فوجی انخلاء کا اعلان کرے، کالے قوانین کا خاتمہ کرے، اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق کشمیریوں کو حق خودارادیت فراہم کرے، برہان مظفروانی کی شہادت کے بعد جو انقلاب شروع ہوا ہے وہ آزادی کی منزل کے حصول تک جاری رہے گا۔
nn