مستقبل کا بلوچستان ایک سنہر ا پاکستان

گوادرکا نیلگوں سحر انگیز ساحل مستقبل کے بلوچستان کو سونے کی چڑیا میں بدل دے گا، اس کا اندازہ کسی کو نہ تھا۔ گوادر میں آغا خانی لوگ رہائش پذیر تھے۔ ان کی قدیم کالونی موجود ہے، ان کی عبادت گاہ بھی موجود ہے۔ نیپ کے دورِ حکومت میں مرحوم بزنجو نے گوادر پرنس کریم آغا خان کو دینے کا منصوبہ بنایا تھا لیکن نواب خیر بخش مری اس کی راہ میں رکاوٹ بن گئے، اور یوں یہ ساحل پرنس کریم آغا خان کو نہ مل سکا۔ مرحوم بزنجو نے کہا تھا کہ ہم گوادر کا استعمال نہیں کرسکتے، آغا خان اس کو لے لیں گے تو کم از کم یہ علاقہ ترقی یافتہ بن جائے گا۔ ان کا یہ خواب پورا نہ ہوسکا۔ اس کے بعد سوویت یونین نے منصوبہ بنایا اور اسے گوادر کا نیلگوں سحر انگیز ساحل پہلے مرحلے میں افغانستان کھینچ لایا، حالانکہ افغانستان ایک پسماندہ ترین ملک تھا، لیکن سوویت یونین کی نظر مشرق وسطیٰ کے تیل اور گوادر کے ساحل پر تھی۔ اور پھر جو کچھ اُس کے ساتھ افغانستان میں ہوا وہ تاریخ کا ایسا باب ہے جو بین الاقوامی تاریخ میں سیاہ ترین باب کے طور پر ثبت ہوگیا اور افغان جہاد نے سوویت یونین کو صفحۂ ہستی سے مٹا دیا۔ آج سوویت یونین نہیں ہے بلکہ قدیم روس ہے۔
سوویت یونین تو گوادر نہ پہنچ سکا لیکن ماؤزے تنگ کا چین بغیر کسی مزاحمت کے پاکستان کے راستے گوادر میں پہنچ گیا۔ مستقبل میں مؤرخ یہ ضرور لکھے گا کہ لینن کا سوویت یونین شکست کھا گیا اور ماؤزے تنگ کا چین جیت گیا۔ سوویت یونین کی جارحانہ یلغار اسے لے ڈوبی۔ چین نے بھی اسی طرح کا ایک قدم انڈونیشیا میں اٹھایا تھا لیکن وہاں کے عوام اور فوج نے مل کر اس سازش کو ناکام بنادیا۔ چین کے بعد دوسری بڑی کمیونسٹ پارٹی انڈونیشیا کی تھی۔ بغاوت کی رات قتلِ عام ہوا اور لاکھوں لوگ مارے گئے، اور چین کا سوشلزم مات کھا گیا۔ اس بدترین شکست کے بعد چین نے اپنی پالیسی تبدیل کرلی اور تجارت کے راستے داخل ہونے کی پالیسی اختیار کرلی اس لیے چین محفوظ رہا، لیکن سوویت یونین نے اپنا ہی بگاڑ کیا اور دنیا سے اس کی جارحانہ یلغار نظریاتی طور پر ختم ہوگئی اور اس کی شکست کے ساتھ ہی سوشلزم کا خواب بھی بکھر گیا۔اب چین سوویت یونین کے بعد ایک عالمگیر معاشی قوت کے طور پر ابھر کر دنیا کے سامنے آگیا ہے اور اس کے سنہری دور کا آغاز بلوچستان کے ساحل گوادر سے ہونے والا ہے۔ لیکن کیا امریکہ اس معاشی دیو کا راستہ نہیں روکے گا؟ یقیناًروکے گا۔ اب اُس کے لیے پاکستان میں سوویت یونین کے سابقہ حامی اِس کام کے لیے کارآمد ثابت ہوں گے۔ اس وقت پاکستان میں بایاں بازو اور قوم پرست پارٹیاں امریکی کیمپ میں کھڑی ہیں، اور سی پیک کے خلاف وہ امریکہ کے لیے استعمال ہوں گے۔ امریکہ یہ کس طرح کرے گا، اُس کی پالیسی سے عیاں ہوجائے گااور ہم اس کا مشاہدہ کرلیں گے۔ اب یہ واضح ہورہا ہے کہ امریکہ اپنی یہ جنگ افغانستان کی سرزمین سے لڑے گا، اب اس نے واپسی کا ارادہ ترک کردیا ہے اور عملی اقدامات کے لیے پاکستان میں اس کا عمل دخل نظر آنا شروع ہوجائے گا۔ گوادر نہ صرف امریکہ اور مغرب کے لیے سرخ جھنڈی کی حیثیت رکھتا ہے بلکہ بلوچستان جنوبی ایشیا میں پاکستان کو ایک معاشی قوت میں تبدیل کردے گا۔ 42 ارب ڈالر سے شروع ہونے والا منصوبہ اب ایک اور پیش رفت کے بعد 52 ارب ڈالر کا منصوبہ بن جائے گا۔ چین کی ایک اور کمپنی نے اپنا منصوبہ بلوچستان سے تیار کرلیا ہے۔ جہاں جہاں سے اقتصادی راہداری گزرے گی وہاں وہاں معاشی قوت نظر آنا شروع ہوجائے گی۔ بلوچستان میں بوستان، خضدار، ژوب، کوئٹہ، چمن، قلعہ سیف اللہ میں اکنامک زون بننے جارہے ہیں جس سے بلوچستان کے مختلف حصوں میں ہزاروں ایکڑ زمین پر معاشی حب نظر آنا شروع ہوجائیں گے۔ گوادر ائیرپورٹ مستقبل میں پاکستان کا سب سے بڑا ائیرپورٹ ہوگا۔ مستقبل میں یہ شہر دنیا کی نگاہوں کو نہ صرف خیرہ کرے گا بلکہ اس کی چکاچوند حیرت زدہ کردے گی۔
اس حوالے سے بلوچستان کے وزیراعلیٰ نواب ثنا اللہ زہری نے اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے اکنامک زون کی طرف نشاندہی کی ہے۔ انہوں نے پریس کانفرنس میں بتایا کہ خضدار میں 5 ہزار ایکڑ پر محیط اکنامک زون بنے گا۔ تربت میں اکنامک زون ایک ہزار ایکڑ پر محیط ہوگا، قلعہ سیف اللہ میں بھی اس کا دائرہ ایک ہزار ایکڑ پر محیط ہوگا۔ انہوں نے بتایا کہ منصوبے پر عمل درآمد کے لیے گوادر میں 3 ہزار ایکڑ پر مشتمل اسپیشل اکنامک زون بنایا جائے گا۔ پہلے یہ منصوبہ انڈسٹریل اسٹیٹ کا تھا، اب اس کو اکنامک زون میں تبدیل کردیا جائے، اور خضدار کو اس کی اہمیت کی بنا پر Notable City قرار دیا گیا ہے۔ چمن میں چین کولڈ اسٹوریج اور پروسیسنگ یونٹس میں دلچسپی رکھتا ہے۔ چمن میں اکنامک زون سے معاشی ترقی بڑھ جائے گی۔
ایک اکنامک زون میں 14 ہزار افراد مطلوب ہوں گے جو مختلف کام کریں گے، یوں ایک لحاظ سے یہ زون معاشی شہر بن جائے گا۔ مستقبل کے بلوچستان میں ژوب سے کوئٹہ تک جدید ریلوے لائن کا منصوبہ ہے اور اس کے ساتھ ساتھ ژوب سے کوئٹہ تک سڑک بنے گی، اور یہ جدید ٹریک ہو گا۔ اس کے مکمل ہونے کے بعد اس روٹ پر ابتدا میں ایک ہزار ٹرالر سفر کرسکیں گے، اس کے بعد اس میں مزید اضافہ ہوتا چلا جائے گا۔ اندازہ ہے کہ 2020ء تک اس پر 10ہزار ٹرالر رواں دواں ہوں گے اور وقت کے ساتھ ساتھ اس میں اضافہ ہوتا چلا جائے گا۔ ہم مستقبل پر نگاہ ڈالیں تو اس نیلگوں سحر انگیز ساحل کے سنگ سنگ ایک جدید ترقی یافتہ پاکستان اور بلوچستان دنیا کے نقشے پر طلوع ہوگا۔
nn