آئیے آج پہلے اپنی خبر لیتے ہیں۔ سنڈے میگزین کے تازہ شمارے (22 تا 28 جنوری) میں ایک دلچسپ نظم ہے، صفحہ 24 پر۔ پہلا شعر ہے:
بوچھار میں کلکاریاں بھرتا ہوا بچہ
ماں ہول رہی ہے کہیں گر جائے نہ چھجہ
شعر اچھا ہے، اس میں نیا پن ہے۔ لیکن شاعر کو شاید کلکاریاں کا مطلب نہیں معلوم۔ اول تو یہ کہ کلکاریاں بھری نہیں جاتیں، ماری جاتی ہیں اور اس عمل سے چھجے کے گرنے کا کوئی خدشہ نہیں ہوتا، ماں خوامخواہ ہول رہی ہے۔ شاید شاعر کا خیال ہے کہ کلکاریاں بھرنے کا مطلب اچھل، کود کرنا ہے۔ کلکاری کا مطلب ہے زور کی آواز، چیخ وغیرہ۔ بچہ جب خوش ہوکر آوازیں نکالتا ہے تو اسے کلکاریاں مارنا کہتے ہیں۔ اس کا مطلب کدکڑے لگانا نہیں ہے۔ یہ نظم خضر خان کا انتخاب ہے۔ انہیں چاہیے کہ بچے کی ماں کو تسلی دیں۔
فرائیڈے اسپیشل کے شمارہ 20 تا 26 جنوری میں علامہ اقبال کی نظم ’’دریوزۂ خلافت‘‘ میں آخری شعر فارسی میں ہے جس کا دوسرا مصرع ہے ’’کہ از دیگراں خواستن مومیائی‘‘۔ اس کی تشریح تو کردی گئی ہے کہ دوسروں کے سامنے مومیائی کے لیے ہاتھ پھیلانا (باعثِ شرم ہے) لیکن ’’مومیائی‘‘ کیا ہے، اس کی وضاحت بھی ہوجانی چاہیے تھی، ورنہ کچھ لوگ سمجھیں گے کہ یہ موم سے بنی ہوئی کوئی شے ہے۔ مومیائی کا آسان مطلب تو ہے مرہم۔ یہ لفظ یونانی سے آیا ہے جہاں یہ مومیا تھا۔ ذوقؔ کا شعر ہے:
گلوں کے حق میں شبنم مرہم زخمِ جگر
شاخ بشکستہ کو ہے باراں کا قطرہ مومیا
مومیائی ایک دوائی کا نام ہے جو موم کی طرح ملائم ہوتی ہے اور پہاڑوں سے حاصل ہوتی ہے۔ ضرب و زخم کے واسطے بڑی مفید ہے۔ مومیائی نکالنا کا مطلب چربی، تیل نکالنا، سخت محنت لینا بھی ہے۔
آج کل پاناما مقدمے کے حوالے سے ایک لفظ تقریروں اور برقی ذرائع ابلاغ پر بہت استعمال ہورہا ہے اور وہ ہے ’’ملکیت‘‘۔ اس کے میم کو جانے کیوں بالفتح یعنی زبر کرلیا گیا ہے۔ جس کے پاس بہت سی املاک ہوں وہ تو خود ہی زبر اور زبردست ہوجاتا ہے۔ لیکن ملکیت خواہ کسی کی ہو اور کتنی ہی ہو، میم بالکسر ہے یعنی اس کے نیچے زیر ہے۔ یہ دُہری تعریف اس لیے کرنی پڑتی ہے کہ بعض قارئین پوچھتے ہیں کہ یہ جو آپ ’بال۔ کسر‘ اور ’بال۔ فتح‘ لکھتے ہیں اس کا کیا مطلب ہے؟ ہونا تو یہ چاہیے کہ بل۔ کسر اور بالفتح یا بل ضم لکھا جائے۔ بالکل کو تو آپ لوگ ’بلکل‘ لکھنے لگے ہیں۔
ملکیت کو مَل کیت کہنا ایک وزیر باتدبیر مصدق ملک کو تو زیب دیتا ہے کیونکہ ملک کا میم بالفتح ہے۔ مَلک، مِلک اور مُلک تینوں الفاظ کے ہجے ایک ہی ہیں لیکن تینوں کے معانی مختلف ہیں۔ مَلَک کہتے ہیں فرشتہ کو، جیسے مَلَک الموت۔ مَلکی صفات یعنی فرشتہ خُو۔ مَلِک (بفتح اول، کسر دوم) بادشاہ، سلطان، فرماں روا۔ زبانِ قدیم میں بمعنی امیر، ملک التجار یعنی بہت بڑا تاجر، یا ملک الشعراء۔ مِلک سمیت مذکورہ تینوں الفاظ عربی کے ہیں۔ مِلک (میم بالکسر) مونث، ملکیت جس پر قبضہ ہو، وہ چیز جو کسی کے قبضہ و تصرف میں ہو۔ ملکیت اردو میں ملک سے بنا لیا گیا ہے، تشدید اور بغیر تشدید دونوں طرح مستعمل ہے۔ بیشتر زبانوں میں بغیر تشدید کے ہے، لیکن میم پر زبر ہرگز نہیں خواہ مصدق ملک کچھ کہتے رہیں۔ جائداد، زمینداری کے معنوں میں بھی آتا ہے۔ استاد جلیل مانکپوری کا شعرہے:
گھر خیال دلربا کا دل ہمارا ہو گیا
کس کی ملکیت تھی قبضہ ہائے کس کا ہو گیا
ہم اپنے وزیروں کی اصلاح تو نہیں کرسکتے لیکن برقی ذرائع ابلاغ پر جو ہمارے بھائی بند بیٹھے ہیں وہ مِلکیت کہیں تو بچوں کی زبان مزید خراب نہیں ہوگی۔ ہم نے ایک بار خبر میں سعودی فرماں روا کو ’’ملک فہد‘‘ لکھ دیا تھا تو پروف ریڈر صاحب نے اعتراض کیا کہ وہاں ملک کہاں ہوتے ہیں۔ صحیح بھی ہے، سب ہمارے حصے میں آگئے۔
گزشتہ شمارے میں ہم نے کسی لغت کے حوالے سے لکھاری کا ذکر کیا تھا۔ اس پر سید محسن نقوی نے دبئی میں ہمارے ممدوح جناب عبدالمتین منیری کو اپنا تبصرہ بھیجا۔ منیری صاحب نے اپنے حاشیے یا نوٹ کے ساتھ محسن نقوی کا تبصرہ ہمیں بھیج دیا ہے۔ محسن نقوی کی آمد خوشگوار اضافہ ہے۔ یہ جوں کا توں نذر قارئین ہے:
’’جناب سید محسن نقوی صاحب، لکھاری پر اس سے قبل آپ کی کوئی تحریر نظر سے نہیں گزری۔ بس یاد پڑتا ہے کہ ہمارے استعمال کرنے پر اپنی ناپسندیدگی کا اظہار کیا تھا۔آپ کا تبصرہ ہاشمی صاحب کو بھیج رہا ہوں۔ موصوف سے جب بھی رابطہ ہوتا ہے وہ اپنی ان تحریروں پر موصولہ نقد و تبصرہ کی فرمائش کرتے ہیں۔ اس سے نئے موضوعات سوچنے میں انہیں مدد ملتی ہے۔ احباب سے گزارش ہے کہ وہ کالم پڑھنے کے بعد اپنے تبصروں سے ضرور نوازیں تاکہ ہمیں بھی محسوس ہو کہ محنت رائیگاں نہیں جارہی ہے۔ احباب کی فعال شرکت ایک تعمیری عمل ہوگا۔ نقوی صاحب کا بہت بہت شکریہ۔ آپ کے نقد و تبصرے کا ہمیشہ خیرمقدم ہوگا۔ شکریہ
عبدالمتین منیری۔ بھٹکل
محسن نقوی کا تبصرہ درج ذیل ہے:
’’ہم اس لفظ لکھاری پر اس فورم میں پہلے بھی گفتگو کرچکے ہیں۔
اطہر ہاشمی صاحب کے تازہ کالم میں یہ لفظ دیکھ کر تعجب ہوا۔ بہرحال، ہم عادتاً اپنا احتجاج رجسٹر کیے دیتے ہیں۔
یہ لفظ لکھاری ہندوستان کی کسی بھی زبان میں نہیں ملتا۔ البتہ ایک موجودہ ڈکشنری میں ضرور اس کو درج کیاگیا ہے۔ ملاحظہ فرمائیے۔ حبیب محترم احمد ندیم رفیع صاحب نے یہ تفصیل ہم کو اپنے مراسلہ مورخہ 17 ستمبر2012ء میں یوں بھیجی تھی:
ایک آن لائن لغت میں کچھ یوں درج ہے جس سے ایسا لگتا ہے کہ اس لفظ کا وجود ہے۔
لِکھاری [لِکھا 228 ری] (سنسکرت)
لکھ لِکھاری
سنسکرت سے ماخوذ اسم ’لکھ‘ کے ساتھ ’اری‘ بطور لاحقۂ صفت لگانے سے ’لکھاری‘ بنا۔ اردو میں بطور صفت استعمال ہوتا ہے۔ 1987ء کو ’’دردِ آگہی‘‘ میں مستعمل ملتا ہے۔
اسم نکرہ (مذکر ۔ واحد)
جمع غیر ندائی: لِکھارِیوں [لِکھا 228 رِیوں (و مجہول)]
1۔ قلمکار، لکھنے والا، مصنف۔
یہ پنجابی اور اردو کا بڑا اچھا لکھاری ہے
یہ موٹا تو نہیں اتنا، مگر سب پر ہی بھاری ہے (1991ء، چھیڑ خانیاں، 170)
یہ بھی بالکل ثابت ہوچکا ہے کہ اس قسم کی حرکتیں اردو زبان کے ساتھ پاکستان ہی سے شروع ہوئی ہیں اور ان کی تاریخ بھی 1980ء ہی سے شروع ہوتی ہے۔
جس شخص نے بھی یہ آن لائن لغت تیار کی ہے اس کو سنسکرت سے کوئی علاقہ نہیں ہے۔
سنسکرت کا مادّہ لِکھ نہیں ہے بلکہ لیکھ ہے۔ اس سے اردو کا مصدر آیا ہے جو کہ کھڑی بولی سے لیا گیا ہے۔ یعنی لکھنا۔
سنسکرت سے ماخوذ وہ سب زبانیں جو مشرق سے مغرب تک شمالی ہندوستان میں پائی جاتی ہیں یعنی بنگلہ، بھوج پوری، برج بھاشا، اودھی، کھڑی بولی، مراٹھی، سندھی اور گجراتی وغیرہ، سب میں لکھنے والے یعنی اسم فاعل کے لیے ایک ہی لفظ ہے اور وہ ہے لیکھک
جیسا کہ میں نے عرض کیا یہ نیا لفظ کسی ایسے عقلمند کی ایجاد ہے جس کو نہ تو علم لسانیات سے کوئی شغف ہے اور نہ اسے زبانوں کے ارتقاء کے علم سے کوئی واقفیت ہے۔ اس لیے میں ہر بار بڑی شدو مد سے اس لفظ کی قبولیت کے خلاف آواز اٹھاتا رہتا ہوں۔
اس قسم کے مرکب الفاظ بننے کا ایک بنیادی اصول ہے۔ ایسا لفظ اپنے اصل یعنی root کے ساتھ کسی لاحقہ یعنی subscript کو جوڑنے سے بنتا ہے۔ اصل اور لاحقہ دونوں کو بامعنی ہونا چاہیے۔ یہاں جو فاضل ڈکشنری کے مؤلف ہیں انہوں نے پہلے تو اصل ہی کو غلط لکھا، یعنی بجائے ’لیکھ‘ کے انہوں نے اسے ’لکھ‘ کہا ہے۔ دوسرے جو لاحقہ لگا ہے یعنی آری، وہ بے معنیِ ہے اور اپنی جگہ پر کوئی مفہوم نہیں رکھتا۔ ویسے تو آری لکڑی کاٹنے کے اوزار کو بھی کہتے ہیں۔ مثال کے لیے ایک اور لفظ دیکھتے چلیے۔
ایک لفظ ہے بھکھاری۔ یہ کیسے بناہے؟
بھیک 228 ہاری۔ (باقی صفحہ41)
بھیک تو ہندی کے لفظ بھکشا سے بنا ہے۔ ہاری کھانے والے کو کہتے ہیں۔ یعنی بھیک کھانے والا۔ اسی طرح اور الفاظ ہیں جیسے شاکا ہاری یعنی ساگ کھانے والا vegetarian اور مانس ہاری یعنی گوشت خور، وغیرہ۔
بہرحال ہماری اردو زبان میں تو اہلِ قلم، ادیب، قلم طراز، مؤلف اور بہت کچھ دوسری اصطلاحیں موجود ہیں۔ تو اب ایک اور بہت ہی بے ہودہ لفظ ایجاد کرنے کی کیا ضرورت ہے!
نئے الفاظ کی ضرورت وہاں ہوتی ہے جہاں کوئی نئی چیز ایجاد ہوئی ہو اور اس کا استعمال اردو زبان میں ہوگیا ہو۔ مثلاً کمپیوٹر، سوفٹ ویر، ڈیٹا بیس وغیرہ۔
توجہ کے لیے شکریہ۔
مخلص۔ سید محسن نقوی‘‘
شکر ہے کہ ہم خود کو لکھاری نہیں سمجھتے ورنہ ہم پر بھی بے ہودگی کا اطلاق ہوجاتا۔