کیا حجاب ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہے؟

اسلام دینِ فطرت ہے اور حجاب اسلامی عورت کا شعار ہے۔ اور کیسے یہ بات سوچی جا سکتی ہے کہ خالق اپنی مخلوق کے لیے اس چیز کو پسند کرے جسے اپناتے ہوئے ایک مسلمان عورت معاشرے کا ناکارہ عضو بن جائے؟ کسی بھی مرد پر بوجھ کی صورت ساری زندگی گزار دے؟ ایک عورت جسے ہم عام فہم زبان میں ہاؤس وائف کہتے ہیں اُس کے اس کام کو تحقیر آمیز نظروں سے نہ دیکھا جائے، کیوں کہ وہ بیک وقت ایک ماں، بہو اور بیوی کے فرائض سرانجام دیتی ہے، اور اسلام نے اسے بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھا ہے۔
جدید دور کی روشن خیالی نے عوام الناس کے ذہن میں یہ بات پیدا کردی ہے کہ اسلام چونکہ چودہ سو سال پرانا مذہب ہے اس لیے اس پر عمل پیرا ہوکر آج کی مسلمان عورت معاشرے کا کارآمد فرد نہیں بن سکتی، کیونکہ اس کا حجاب اس کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہے۔ مگر میرے نزدیک حجاب عورت کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ نہیں ، اگر میں کہوں کہ یہ میرا نہیں بلکہ تمام مسلمان خواتین کا نقطہ نظر ہے تو بے جا نہ ہوگا۔ اس نقطہ نظر کو سمجھنے کے لیے سب سے پہلے ہمیں یہ طے کرنا ہوگا کہ آیا ہمارے نزدیک ترقی ہے کیا؟ اگر ہمارے نزدیک ناکافی لباس پہن کر الیکٹرونک یا پرنٹ میڈیا کے اشتہارات کے لیے کام کرنا ترقی ہے،کسی بھی محفل میں جاذب نظر بن جانا ترقی ہے، اپنے آؤٹ فٹ کو کسی اداکارہ یا کسی ماڈل گرل کے مشابہ بنا لینا ترقی ہے، اگر ہماری نظر میں ترقی یہ ہے کہ کپڑے کم سے کم ہوتے چلے جائیں بلکہ نہ ہونے کے برابر ہوں لیکن پردہ تو دل کا ہونا چاہیے۔۔۔ تو بہت معذرت کے ساتھ، یہ ترقی نہیں بلکہ تاریکی ہے، جہالت ہے۔ ہم مغربی دنیا کی خواتین کی رودادیں پڑھ سکتے ہیں جنھوں نے قبولِ اسلام کے بعد اسلام اور حجاب کو اپنے لیے نعمت قرار دیا اور وہ اسلام کے دائرے میں داخل ہی اس لیے ہوئیں کہ اسلام حجاب کی صورت انہیں ایک محافظ عطا کرتا ہے۔
جہاں تک عورتوں اور مردوں کی تعلیم کا تعلق ہے تو یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ لڑکیاں تعلیم کے میدان میں لڑکوں سے آگے ہیں، بلکہ ان کے شانہ بشانہ ہر شعبے اور ہر عہدے پر موجود ہیں۔ پاکستان کی پہلی شہید خاتون پائلٹ مریم مختارکے نام سے کوئی بھی انجان نہیں، لیکن ساتھ ہی اس بات کا تذکرہ ضرور کروں گی کہ عورتیں کسی بھی شعبے میں فرائض سرانجام دے رہی ہوتی ہیں تو آگے چل کر ان کی ذمے داریاں دہری ہوجاتی ہیں، اور میرے خیال میں اس حقیقت سے کسی کو انکار نہیں ہوسکتا۔
یہاں قطعاً کسی کے ذہن میں یہ بات نہیں ہونی چاہیے کہ گھر کی چار دیواری میں رہ کر کوئی عورت اپنے علم اور ترقی کو استعمال نہیں کرسکتی اور معاشرے کی ترقی میں کردار ادا نہیں کرسکتی۔ گھریلو صنعتوں کا رجحان ہمارے شہروں میں کم نظر آتا ہے، لیکن دیہاتی خواتین گھریلو صنعت میں کمالات دکھا رہی ہیں اور اپنی تعلیم اور ہنر کے سبب شہری خواتین سے کسی طور پر پیچھے نہیں ہیں۔
آج کے معاشرے میں ہم دیکھتے ہیں کہ مختلف شعبوں میں خواتین مکمل حجاب کے ساتھ اپنا کام بہترین طور پر سر انجام دے رہی ہیں۔ میری نظر میں ایک عورت حجاب کے ساتھ صرف اس غرض سے باہر نکلتی ہے کہ اپنی تعلیم اور ٹیلنٹ کو اپنے لیے، اپنے خاندان کے لیے اور معاشرے کی ترقی کے لیے استعمال کرسکے، تو یہ عمل بہترین ہے۔ لیکن یہاں ایک اور بات ذہن نشین کرلینے کی ضرورت ہے کہ اگر حجاب عورت کے لیے کسی شعبے میں آگے بڑھنے میں رکاوٹ بن جائے تو بہتر ہے کہ اس شعبے کو اللہ کی رضا کے لیے چھوڑ دیا جائے۔
صائمہ عبدالواحد۔۔۔کراچی
اسلامی تعلیمات کے مطابق بچوں کی تعلیم و تربیت کی ضرورت
اللہ تعالیٰ کی بے شمار نعمتوں، نوازشوں اور احسانات میں سے ایک عظیم نعمت اولاد اور بچے ہیں۔ اس نعمت کی قدر ذرا اُن لوگوں سے پوچھ کر دیکھیے جو اس سے محروم ہیں۔ بچے اللہ تعالیٰ کی امانت ہیں۔ قیامت کے دن والدین سے ان کے بارے میں بازپرس ہوگی کہ آیا انہوں نے اس ذمہ داری کو محسوس کرکے اس امانت کی حفاظت کی تھی یا اسے برباد کردیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے بچے زندگی کی زینت بنے ہوتے ہیں۔ اگر دین اسلام کے مطابق ان کی تعلیم و تربیت نہ کی جائے اور انہیں اچھے اخلاق نہ سکھائے جائیں تو یہ رونق و جمال بننے کے بجائے وبال بن جاتے ہیں۔ اپنے بچوں کی مفید دینی تعلیم و تربیت کے بارے میں غفلت و لاپروائی برتنے والے اور انہیں بے مقصد چھوڑ دینے والے والدین برے انجام سے دوچار ہوتے ہیں کیونکہ اکثر بچے اس طرح خراب ہوتے اور بگڑتے ہیں۔ یہ لوگ بچپن میں دین کے فرائض و احکام اور سنن اور واجبات نہیں سکھاتے۔ چنانچہ وہ بڑے ہوکر خود بھی کسی لائق نہیں رہتے اور اپنے والدین کو بھی فائدہ نہیں پہنچا سکتے، بلکہ الٹا دردِ سر بن جاتے ہیں۔ بچوں کی تربیت میں سب سے اہم اور قابلِ لحاظ نکتہ یہ ہے کہ ان کے دلوں میں اللہ کی توحید اور فقط اس کی عبادت و بندگی کا شعور پیدا کرنا چاہیے جو انسانی زندگی کا اصل مقصد ہے۔ عقیدۂ توحید کے ساتھ ساتھ اپنی اولاد کی عقیدۂ رسالت، عقیدۂ ختم نبوت، محبتِ رسولؐ، اطاعتِ رسولؐ اور ادبِ رسولؐ کے حوالے سے بھرپور رہنمائی کرنی چاہیے۔
کلمۂ شہادت کے بعد سب سے اہم فریضہ پانچ وقت نماز ہے۔ بچے کے دل میں اس کی اہمیت اور قدرو منزلت کا شعور و احساس بٹھانا چاہیے۔ سات سال کا ہوتے ہی اسے نماز کا حکم دینا چاہیے اور دس سال کا ہوجانے کے بعد کوتاہی کرنے پر سزا دینی چاہیے۔ اس عمر میں بچہ باپ کے ساتھ مسجد جاتے ہوئے بہت خوش ہوتا ہے۔ جو بچہ اس عمر میں نماز کا پابند ہوجائے گا وہ بعد میں ان شاء اللہ کبھی نماز نہیں چھوڑ سکتا۔ سات سال سے دس سال کی عمر یعنی تین سال کی مدت میں تقریباً پانچ ہزار سے زائد دفعہ نماز کا وقت آتا ہے، بھلا وہ بچہ جو پانچ ہزار مرتبہ نماز پابندی سے پڑھ چکا ہو بعد میں اسے کیسے چھوڑ سکتا ہے!
بچے کی تعلیم و تربیت، اس کی خاطر شب بیداری، نگرانی و توجہ، اس کے اخراجات، اس کو خوش رکھنا اور اس سے دل لگی کی باتیں کرنا، سب عبادت میں شامل ہے، بشرطیکہ آدمی ان سب پر اللہ سے اجر و ثواب چاہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’آدمی اہل و عیال پر اجروثواب کی نیت سے جو کچھ خرچ کرتا ہے وہ اس کے لیے صدقہ ہے‘‘۔ (بخاری و مسلم)
قرآن مجید میں سیدنا ابراہیمؑ کے حوالے سے مذکور ہے کہ انہوں نے اپنی اولاد کے لیے شرک سے حفاظت کی دعا فرمائی۔ دعائیں وہ ہتھیار ہیں جن سے ہدایت حاصل کی جاسکتی ہے اور بگڑے ہوئے سدھر جاتے ہیں۔ اپنے بچوں کے لیے رزقِ حلال کا اہتمام کرنا چاہیے اور حرام سے بچنا چاہیے۔ تربیت کی کامیابی کا ایک اہم عامل صبر ہے۔ واضح رہے کہ کوئی بھی مقصد حاصل کرنے کے لیے محنت کرنا پڑتی اور قربانی دینی ہوتی ہے تب کہیں جاکر کامیابی حاصل کی جا سکتی ہے۔
۔۔۔محمد علیم نظامی۔۔۔