پاکستان میں نئی انتخابی اصلاحات کا عمل ہمیشہ سے سیاسی فریقین میں متنازع رہا ہے۔ کیونکہ انتخابی اصلاحات کا اصل مقصد انتخابی عمل کو آسان اور شفاف بنانا ہوتا ہے، لیکن پاکستان کی سیاسی تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو اس میں در آنے والے بحرانوں اور تلخیوں کا سبب شفاف انتخابی عمل کا فقدان ہینظر آتا ہے۔ پاکستان میں انتخابی اصلاحات کا عمل ہمیشہ سے چار حوالوں سے زیر بحث رہا ہے۔ اول: ہمارا انتخابی نظام پرانا اور بوسیدہ ہوچکا ہے اور جدید دور کے تقاضوں کو پورا نہیں کرتا۔ دوئم: انتخابی نظام ایک مخصوص طاقت ور طبقے کے گرد گھومتا ہے اور اس میں عام آدمی کے لیے انتخابی عمل میں حصہ لینے کی گنجائش بہت کم ہے۔ سوئم: انتخابات کی شفافیت پر ہمیشہ سے ہی سوالات اٹھائے جاتے ہیں ۔ چہارم: الیکشن کمیشن جس کی نگرانی میں یہ انتخابی عمل ہوتا ہے اُس کی اپنی خودمختاری، صلاحیت اور حیثیت پر سوالات اٹھائے جاتے ہیں۔ 2013ء کے انتخابات کے بعد تحریک انصاف کی جانب سے انتخابی دھاندلیوں پر بہت زیادہ شور یا مزاحمت کا عمل دیکھا گیا۔ اگرچہ حکمران جماعت سمیت انتخابات میں حصہ لینے والی تمام جماعتوں نے انتخابی دھاندلی کی بات کی، لیکن اصل مزاحمت تحریک انصاف نے کی جس کے نتیجے میں پہلی بار ہماری سیاسی تاریخ میں انتخابی دھاندلیوں کو جانچنے کے لیے ’’عدالتی کمیشن‘‘ بنایا گیا۔ اگرچہ عدالتی کمیشن نے انتخابی دھاندلی کے حق میں فیصلہ نہیں دیا، لیکن یہ اعتراف ضرور کیا کہ انتخابی بے ضابطگیاں بڑے پیمانے پر ہوئیں۔ عدالتی کمیشن نے انتخابی بے ضابطگیوں کی درستی کے لیے جو چالیس کے قریب نکات دیے تھے ان پر ابھی تک سوالیہ نشان موجود ہیں۔ جو چالیس نکات عدالتی کمیشن نے دیے تھے تو خیال تھا کہ الیکشن کمیشن نہ صرف ان معاملات پر توجہ دے گا بلکہ وہ لوگ جن کی شعوری یا لاشعوری کوششوں سے انتخابی عمل میں بے ضابطگیاں ہوئی تھیں ان کو احتساب کے دائرے میں لایا جائے گا۔ لیکن سب نے دیکھ لیا کہ کسی بھی طرح نہ تو احتساب ہوسکا اور نہ ہی کوئی ایسا نظام سامنے آسکا جو مستقبل کے حوالے سے نئی امید پیدا کرسکے۔ انتخابی دھاندلی پر جو تحقیقاتی کمیشن سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی سربراہی میں بنا تھا، اس کی تحقیقات کے دوران یہ دیکھ کر لوگ دنگ رہ گئے تھے کہ انتخابی ووٹوں کے تھیلوں میں سے سوائے ردی کے کچھ نہیں ملا، اور جو ریکارڈ دیکھنے کی کوشش کی گئی اُس میں وسیع پیمانے پر پائی جانے والی بے ضابطگیوں نے پورے انتخابی نظام کی صحت کو ہی مشکوک بنا ڈالا تھا اور لوگوں کو بھی پہلی بار اندازہ ہوا کہ ہمارا انتخابی نظام کس قدر خراب ہے اور یہ توقع کرنا کہ انتخابات کا عمل شفاف ہوسکتا ہے، محض خام خیالی ہے۔
اسی طرح حکومتی سطح پر تمام جماعتوں پر مشتمل 35 رکنی پارلیمانی کمیٹی بھی انتخابی اصلاحات کے تناظر میں تشکیل دی گئی، لیکن اس کے نتائج بھی ابھی تک واضح طور پر سامنے نہیں آسکے ہیں۔ یہ پارلیمانی کمیٹی بھی اس وقت حکومت نے تحریک انصاف کے دباؤ پر بنائی تھی، اور دعویٰ کیا گیا تھا کہ یہ کمیٹی نہ صرف نئی انتخابی اصلاحات کو یقینی بنائے گی بلکہ اس کی مدد سے 2018ء کے انتخابی عمل کو بھی شفاف بنانے میں مدد ملے گی۔ کہا جاتا ہے کہ اس پارلیمانی کمیٹی نے اپنی سفارشات کو حتمی شکل دے دی ہے، لیکن ابھی تک کمیٹی کی سفارشات سامنے نہیں آسکی ہیں۔ حکومت اور حزب اختلاف دونوں کمیٹی کی سفارشات کو حتمی شکل دینے میں تاخیر کی ذمہ دار ہیں۔ اصل میں جب حکومت نے دیکھا کہ اس کو عدالتی کمیشن کی جانب سے انتخابی دھاندلی کے حوالے سے ریلیف مل گیا ہے تو اُس نے نئی انتخابی اصلاحات کے حوالے سے بہت زیادہ گرم جوشی نہیں دکھائی۔ اصل مسئلہ ایک مخصوص طبقے کی سیاسی نظام میں اجارہ داری کا ہے۔ یہ مخصوص طبقہ شعوری طور پر انتخابی نظام کو اپنے کنٹرول میں رکھ کر آگے بڑھنا چاہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انتخابی اور سیاسی اصلاحات کی باتیں تو بہت سننے کو ملتی ہیں، لیکن عمل دیکھنے کو کم ملتا ہے۔ اصل میں پارلیمانی اور جمہوری سیاست کی خوبی یہ ہوتی ہے کہ جیسے جیسے مسائل سامنے آتے ہیں، مسائل کا حل بھی تلاش کرکے آگے کی طرف بڑھا جاتا ہے۔ لیکن یہاں مسئلہ یہ ہے کہ ہم مسائل تو پیدا کرتے ہیں، لیکن مسائل کے حل کی طرف ہماری کوئی سنجیدہ کوشش نہیں ہوتی۔ کچھ جماعتیں اپنے قد سے بڑھ کر انتخابی اصلاحات کا نعرہ تو لگاتی ہیں اور کچھ تجاویز بھی سامنے لاتی ہیں، لیکن ان کی آواز میں وہ طاقت نہیں ہوتی جو حکمران طبقات کو کسی بڑی تبدیلی کے لیے تیار کرسکے۔
کیا شفاف انتخابات کی راہ میں بڑی رکاوٹ محض انتخابی اصلاحات نہ ہونا ہے؟ اگرملک میں منصفانہ انداز میں انتخابی اصلاحات ہوجائیں تو مسئلہ حل ہوجائے گا؟اس میں کوئی شبہ نہیں کہ انتخابی اصلاحات ہماری انتخابی سیاست کی اولین ضرورت ہیں، لیکن یہ سوال زیربحث رہنا چاہیے کہ دھاندلی سے پاک انتخابی عمل میں اصل رکاوٹ انتخابی اصلاحات ہیں یا یہ کرپٹ اور فرسودہ یا یرغمالی سیاسی نظام اور اس سے وابستہ سیاسی، انتظامی اور قانونی ادارے؟ کیونکہ ابھی جو انتخابی نظام ہمارے پاس موجود ہے اس کے قوانین پر عملدرآمد نہیں ہوتا۔ہم نے نظام کو جان بوجھ کر کمزور بنایا ہوا ہے کیونکہ ہمیں لگتا ہے کہ اگر نظام کمزور ہوگا تو ہم اس کی مدد سے اپنی مرضی کے نتائج حاصل کرسکیں گے۔ اس لیے مسئلہ حکمران طبقات کی ترجیحات کا ہے۔اگر ملک میں اداروں کے مقابلے میں افراد کی حکمرانی کا نظام ہوگا اور قانون طاقت ور افراد کے سامنے بے بس ہوگا تو ادارے شفافیت کے نظام کو قائم کرنے میں ناکام رہیں گے۔ اس لیے اچھی انتخابی اصلاحات کا عمل براِہ راست اداروں کی خودمختاری اور شفافیت سے جڑا ہوا سوال ہے۔ مسئلہ محض الیکشن کمیشن کی خودمختاری تک محدود نہیں، بلکہ انتخابات کے انعقاد سے وابستہ تمام سیاسی، انتظامی اور قانونی اداروں کو ساتھ جوڑ کر ہی ہم ایک شفاف انتخابی نظام قائم کرسکتے ہیں۔ اس لیے جو لوگ محض سارا غصہ الیکشن کمیشن پر نکالتے ہیں وہ بھی ٹھیک نہیں کرتے۔ ہم کو مجموعی تناظر میں انتخابات کی سیاست کو سمجھنا ہوگا اور دیکھنا ہوگا کہ اس میں کون کون سے فریق ہیں جو کسی نہ کسی شکل میں انتخابات کی سیاست پر اثرانداز ہوتے ہیں۔
انتخابی عمل اور اس کی شفافیت کے حوالے سے سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے یہاں سیاسی جماعتیں نہ تو مضبوط ہیں اور نہ ہی وہ کوئی بہتر جمہوری مزاج اور ڈھانچہ قائم کرسکیں۔ سیاسی جماعتیں اور بالخصوص بڑی سیاسی جماعتیں خود ایسے حربے جان بوجھ کر اختیار کرتی ہیں جو شفافیت کے نظام میں رکاوٹ بنتے ہیں۔ کیونکہ سیاسی جماعتیں خود طاقت، دھونس اور دھاندلی کی بنیاد پر انتخابی عمل میں حصہ لیتی ہیں اور کوشش کرتی ہیں کہ وہ ایسے طور طریقے اختیار کریں جس سے اداروں پر اثرانداز ہوکر اپنی مرضی کے مطابق نتائج کو یقینی بناسکیں۔ اگر ہم انتخابی نظام کے تینوں اہم مراحل کو دیکھیں یعنی اول انتخاباتی مہم، دوئم انتخاب کا دن اور نتائج، اور سوئم حکومت سازی کا عمل، تو ہمیں ان تینوں محاذوں پر دھاندلی کا عمل کسی نہ کسی شکل میں دیکھنے کو ملتا ہے۔ یہ عمل محض انفرادی سطح پر نہیں ہوتا بلکہ افراد یا جماعتیں اداروں کی مدد سے یا ان کی ملی بھگت سے انتخابی عمل پر اثرانداز ہوتے ہیں۔
ایک مسئلہ پاکستان کی مضبوط اسٹیبلشمنٹ کا بھی ہے۔ انتخابی سیاست سمیت حکومت کی تشکیل کے مراحل میں اسٹیبلشمنٹ طاقت ور فریق کے طور پر نہ صرف موجود ہوتی ہے بلکہ انتخابی سیاست پر اپنا اثر ونفوذ بڑھاکر مرضی کے نتائج بھی حاصل کرتی ہے۔ اب مسئلہ محض داخلی اسٹیبلشمنٹ تک محدود نہیں بلکہ دیگر ممالک کی طاقت ور اسٹیبلشمنٹ اور حکومتیں بھی ہمارے انتخابات پر اثرانداز ہوتی ہیں۔ یہ کہنا کہ یہاں حکومتوں کی تشکیل کا عمل کسی سیاسی تنہائی میں ہوتا ہے، غلط ہوگا۔ کیونکہ اس میں داخلی اور خارجی محاذ پر موجود طاقت ور فریقین اپنی مرضی کے نتائج حاصل کرتے ہیں۔ اس لیے شفاف انتخابات کی راہ میں پردے کے پیچھے چھپی ہوئی بہت سی طاقتیں ہیں جو انتخابی نتائج پر اثرانداز ہوتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ملک میں ووٹوں کی سیاست سے تبدیلی نہیں آتی۔انتخابات کا عمل محض ایک ’’جمہوری تماشے‘‘ کے طور پر ہوتا ہے۔بیشتر فریقین انتخابات کی صحت یا شفافیت پر سوال تو اٹھاتے ہیں، لیکن انتخابات کے بعد کئی طرح کے سیاسی سمجھوتوں کے باعث ان کی خاموشی اس کرپٹ نظام کو اور زیادہ طاقت دیتی ہے۔
ان طاقت ور قوتوں کو اندازہ ہوتا ہے کہ پاکستان میں انتخابات اور دھاندلی کے مابین گٹھ جوڑ کو ایک سطح پر قبول کرلیا گیا ہے۔ اس لیے ایسے انتخابی نظام میں جو کرپٹ ہو، بہتر انتخابی اصلاحات کرلی جائیں تو بھی نتائج ماضی سے کسی بھی صورت میں مختلف نہیں ہوں گے۔ اس لیے کہ انتخابی اصلاحات کا براہِ راست تعلق انتظامی اور قانونی نظام سمیت اداروں سے جڑا ہوا ہے۔ اگر ہم نے اچھی انتخابی اصلاحات کر بھی لیں، لیکن ان اداروں کی اصلاح پر توجہ نہ دی تو انتخابی اصلاحات کا عمل کچھ بھی نہیں کرسکے گا۔
لگتا یہ ہے کہ 2018ء کے انتخابات کے تناظر میں شفافیت پر مبنی انتخابی اصلاحات سمیت ادارہ جاتی سطح پر اقدامات کرنا تھے، ان کے امکانات محدود ہوتے جارہے ہیں۔ اس لیے یہ توقع رکھنا کہ بغیر کسی بڑی جدوجہد یا مزاحمت کے ہم 2018ء کے انتخابات کو شفاف دیکھ سکیں گے، سوائے خوش فہمی کے کچھ نہیں۔ ایک مسئلہ نگران حکومت کے چناؤ کا بھی ہے۔ جب حکومتی جماعت اور حزب اختلاف یعنی مسلم لیگ(ن) اور پیپلز پارٹی کی قیادت مل کر الیکشن کمیشن کے ارکان کا چناؤ کرتے ہیں تو اسی نکتہ پر انتخابات کی شفافیت پر سوال اٹھ جاتے ہیں۔ کیونکہ 2013ء کے انتخابات میں بھی ان دونوں سیاسی قوتوں نے اپنی مرضی اور منشا کے مطابق ایسے ہی ارکان کا چناؤ کیا جو ان کے لیے سودمند ہوسکتے تھے۔ اسی طرح نگران وزیراعظم اور وزرائے اعلیٰ کے چناؤ کا معاملہ بھی متنازع بنا، اور بعد میں بعض سیاسی فریقین نے اعتراف کیا کہ نگران حکومتوں کے چناؤ کے معاملے سے خرابیاں پیدا ہوئیں۔ 2013ء کے انتخابات میں بطور چیف الیکشن کمشنر جسٹس(ر) فخرالدین جی ابراہیم انتخابات میں دھاندلی کے شور کے باوجود خاموش ہی رہے اور آج تک ان کی زبان بندی ہے۔ اس لیے اگر واقعی 2018ء کے انتخابات کو بھی 2013ء کے انتخابات کی طرز پرہونا ہے تو اس سے شفاف انتخابات کی توقعات وابستہ کرنا خوش فہمی کے زمرے میں آتا ہے۔ شفاف انتخابات کا عمل وسیع پیمانے پر ایک بڑی تبدیلی کا متقاضی ہے اور یہ تبدیلی کسی ایک یا دو جماعتوں کی مرضی سے نہیں بلکہ تمام سیاسی فریقین کی رضامندی سے ہونی چاہیے۔ لیکن یہ سب کچھ کیسے ہوگا؟ بظاہر اس کے امکانات نظر نہیں آتے۔ ابھی سے جس انداز سے وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے 2017ء کو بنیاد بناکر 2018ء کے انتخابات کی تیاری شروع کردی ہے اسی میں دھاندلی کا آغاز بھی ہوگیا ہے۔ ریاستی و حکومتی وسائل کو بنیاد بنا کر وفاقی اور صوبائی حکومتیں براہِ راست انتخابات کی شفافیت پر اثرانداز ہونے کے ایجنڈے پر عمل پیرا ہوگئی ہیں۔ بالخصوص ملک میں جو نئی مقامی حکومتیں بنی ہیں، سندھ اور پنجاب کے حکمران طبقات ان کے وسائل کو بنیاد بناکر انتخابات پر اثرانداز ہونے کے ایجنڈے پر عمل پیرا ہیں۔ بلدیاتی اداروں کا بھی انتخابات کی سیاست کے تناظر میں بری طرح سیاسی استحصال کیا جائے گا۔ وزیراعظم نوازشریف اور آصف علی زرداری سمیت ان کے دیگر اتحادی ابھی سے انتخابی حکمت عملی کے تحت کچھ لو اور کچھ دو کے فارمولے پر انتخابی نتائج کی تقسیم کے کھیل میں حصہ دار بن گئے ہیں۔ ایسے میں شفاف انتخابات کی بحث ایک بار پھر بہت پیچھے چلی جائے گی۔ جو سیاسی طاقتیں ہیں یا جو طاقتور طبقہ ہے وہ ہماری انتخابی سیاست کو عملاً اپنے کنٹرول میں کیے ہوئے ہے، اور اس سے اِس نظام کو آزاد کیے بغیر شفاف انتخابات کا عمل ممکن نہیں۔
nn