سپریم کورٹ میں پاناما کیس کی سماعت جاری ہے، اور مقدمہ حتمی فیصلے کے قریب پہنچ چکا ہے۔ اس کیس میں بنیادی طور پر یہ سوالات اٹھائے گئے ہیں کہ لندن کے فلیٹس نوازشریف کی ملکیت ہیں یا نہیں؟ فلیٹس کے لیے رقم کہاں سے کہاں منتقل ہوئی؟ مریم نوازشریف کس کے زیرکفالت ہیں اور وزیراعظم نوازشریف کا ان فلیٹس سے کیا تعلق ہے؟ پاناما کیس دراصل ایک مغربی اخبار میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ سے شروع ہوا۔ تحریک انصاف امریکی اخبار نیویارک ٹائمز میں شائع ہونے والی اس خبر کی بنیاد پر عدالت میں یہ معاملہ لے کر پہنچی، اس کے بعد شیخ رشید احمد اس کیس میں فریق بنے، اور جماعت اسلامی نے بھی پاناما لیکس کی تحقیقات کے لیے کمیشن بنانے کی استدعا کے ساتھ عدالتِ عظمیٰ سے رجوع کیا۔ ابتدا میں تحریک انصاف کے حامد خان عدالت میں پیش ہوئے لیکن وہ اپنی پارٹی کے اندر ہارڈ لائنرز کی سخت تنقید کے باعث خود ہی اس مقدمے سے الگ ہوگئے۔ وزیراعظم نوازشریف اور مریم نواز نے الگ الگ وکلا کی خدمات حاصل کیں۔ جماعت اسلامی نے توفیق آصف کی خدمات حاصل کیں جنہیں سابق چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے قانونی نکات سے متعلق مسلسل براہِ راست رہنمائی دی اور پٹیشن کی تیاری میں بھی مدد کی۔ مسلسل سماعت کے بعد اِس وقت یہ مقدمہ عدالت میں اپنے حتمی مرحلے میں داخل ہوچکا ہے اور دلائل بھی مکمل ہوگئے ہیں، اس کیس کے آخری اور حتمی مرحلے میں وزیراعظم کے وکیل کو جماعت اسلامی کے وکیل کے دلائل کا جواب دینا ہے۔ اس جواب الجواب کے بعد کیس کی سماعت مکمل ہوجائے گی اور پھر فیصلہ سنا دیا جائے گا۔
اس کیس میں وکلا کے دلائل کا جائزہ لیا جائے تو اگرچہ یہ صورت حال سامنے آتی ہے کہ مقدمے میں اٹھائے جانے والے نکات کی وضاحت کے لیے حکومتی اور مخالف فریقین کے وکلا نے زمین و آسمان کے قلابے ملانے کی کوشش کی، دلائل کے انبار لگائے لیکن اس کے باوجود عدالت مطمئن نہیں ہوئی۔ عدالت میں سچ اور جھوٹ میں فرق کیا جانا مقصود تھا، لیکن عدالت کے سامنے سچ نہیں آسکا۔ تحریک انصاف نے ابتدائی دلائل میں فلیٹس کی ملکیت ثابت کرنے کی کوشش کی لیکن ناکامی پر وزیراعظم کی اسمبلی میں کی جانے والی تقریر کو بنیاد بناکر انہیں آرٹیکل 62۔63 کے ذریعے نااہل قرار دینے کی استدعا کی، لیکن عدالت اس حوالے سے دیے جانے والے دلائل سے بھی مطمئن نظر نہیں آئی۔ پھر نکتہ اٹھایا گیا کہ چونکہ وزیراعظم عوامی نمائندہ ہیں لہٰذا عدالت آئین کے آرٹیکل 184/3کے تحت کارروائی کرے اور وزیراعظم کو نااہل قرار دے۔ یہ دلائل بھی عدالت نے سن لیے ہیں لیکن ان دلائل کو تسلیم کرتی ہوئی نظر نہیں آرہی۔ جماعت اسلامی کے وکیل توفیق آصف نے تحریک انصاف کے وکیل کے ہی دلائل کو آگے بڑھانے کی کوشش کی، لیکن اُن کا نکتہ تحریک انصاف کے وکیل سے بہت مختلف تھا۔ توفیق آصف کے دلائل تھے کہ ’’اسمبلی کی کارروائی کا ریکارڈ منگوایا جائے، جو ریکارڈ وزیراعظم نے اسپیکر کو پیش کیا وہ بھی منگوایا جائے وزیراعظم کی تقریر اسمبلی کی کارروائی کے ایجنڈے کا حصہ نہیں تھی اور یہ تقریر نجی معاملہ تھا‘‘۔ ان کے دلائل پر عدالت کے ریمارکس تھے کہ ’’وہ تمام ریکارڈ جو اسمبلی