اس دورِ قحط الرجال میں ایک ایسے عالمِ دین کی ہمارے سماج میں بے حد اہمیت اور وقعت ہے جو سادگی، درویشی، صبر و رضا اور قناعت کا پیکر ہونے کے ساتھ ساتھ ہمارے اسلاف کا عملی نمونہ بن کر سارے ماحول اور معاشرے کو علم کی روشنی سے منور و تاباں کرے، اور بدلے میں کوئی صلہ چاہے اور نہ ہی کسی ستائش کا آرزومند ہو۔ اس دورِ نفسانفسی میں جہاں تقریباً ہر فرد آج اپنے مستقبل کو تابناک بنانے کے لیے سرگرداں اور بے تاب ہے، وہاں ایسے ماحول اور حالات میں اگر کوئی فردِ فرید بڑی خاموشی کے ساتھ اور بے لوث انداز میں دینی تعلیم اور سلسلۂ تدریس میں محو اور مگن ہو، وہ بلاشبہ صحیح معنوں میں زمین کا نمک ہے اور ہیرے جواہرات میں تولنے کے لائق بھی۔
ایسے ہی انمول اور نایاب افراد میں سے ایک محترم استاد جناب مولانا واحد بخش خلجی مرحوم بھی تھے۔ خلجی صاحب نے شکارپور جیسے علمی و ادبی شہر میں 1946ء میں محمد ابراہیم خلجی کے گھر میں آنکھ کھولی۔ سائیں خلجی مرحوم و مغفور کے آبا و اجداد ہندوستان کے صوبہ راجستھان سے ہجرت کرکے شکارپور میں ایک عرصہ پیشتر آن آباد ہوئے تھے۔ ان کے والد محترم کی پیدائش بھی شکارپور میں ہی ہوئی۔ اُس دور میں شکارپور اپنی صفائی ستھرائی اور علمی و تعلیمی بلند پایہ اداروں اور طبی سہولیات کے باعث بجا طور پر ’’سندھ کا پیرس‘‘ کہلایا کرتا تھا۔ اس وجہ سے متحدہ ہندوستان میں شکارپور کی طرف دیگر علاقوں سے لوگ بعینہٖ اسی طرح بڑی تعداد میں رخ کرتے تھے جس طرح سے آج کراچی آیا کرتے ہیں۔ اُس وقت شکارپور کاروباری سرگرمیوں کا بھی ایک اہم مرکز تھا۔ محمد ابراہیم خلجی کے ہاں دو صاحبزادوں نے جنم لیا۔ بڑے صاحبزادے کا نامِ نامی غلام رسول خلجی تھا جو محکمہ تعلیم سے بعد ازاں ڈی او کے عہدے سے ریٹائر ہوئے اور ماشاء اللہ بقیدِ حیات ہیں۔ جبکہ دوسرے صاحبزادے مولانا واحد بخش خلجی مرحوم تھے جنہیں اللہ تعالیٰ نے ذہانت، فطانت اور حافظہ کی نعمت سے نواز رکھا تھا۔ حصولِ تعلیم کی عمر کو پہنچتے ہی مدرسہ دارالقرآن میں داخل کرا دیا گیا۔ اس مدرسے میں مولانا جناب خلیل اللہ ربانی جو ایک جیّد عالم دین اور دارالعلوم دیوبند سے فارغ التحصیل تھے اور انہیں ’’علم میراث‘‘ میں تخصص کا درجہ بھی حاصل تھا، سمیت مولانا عبدالسلام بمبل مرحوم اور مولانا تاج محمد سدھایو (فارغ التحصیل مدینہ یونیورسٹی) ان کے اساتذہ کرام تھے۔ سائیں خلجی مرحوم و مغفور نے سب سے زیادہ تعلیم ملک کے نامور عالم مولانا محمد اسماعیل عودویؒ سے حاصل کی۔ موصوف بھی دارالعلوم دیوبند سے فارغ التحصیل تھے اور جنہیں یہ منفرد اعزاز بھی حاصل ہے کہ اس سندھی عالم دین نے شاعرِ مشرق حکیم الامت علامہ اقبالؒ کو فلسفۂ اسلام سمجھایا تھا، اور عودوی ؒ نے بزبانِ عربی قرآن حکیم کی تفسیر بہ عنوان ’’مفردات القرآن‘‘ بھی لکھی تھی، جس پر کئی اہلِ علم نے پی ایچ ڈی کے مقالہ جات بھی بعد ازاں قلم بند کیے۔ بہرکیف سائیں خلجی روزانہ ان کے مطب پر جاکر ان سے پڑھا کرتے تھے۔گویا خلجی صاحب مرحوم و مغفور کو اپنے وقت کے بڑے بڑے اور نامور علمائے دین سے حصولِ تعلیم کی سعادت حاصل رہی۔ انہوں نے دورۂ حدیث غالباً1967ء میں جامعہ اشرفیہ سکھر سے مکمل کیا۔ یہاں بھی انہیں مولانا میرک شاہ کشمیری جیسے دیگر بڑے علمائے کرام کی صحبت میسر آئی۔ مولانا خلجی مرحوم علمی فیض سے استفادہ کرنے کے بعد کچھ عرصے تک منصورہ ہالا حیدرآباد و جیکب آباد اور پھر سکھر کی معروف درس گاہ تفہیم القرآن میں پانچ برس تک بطور مہتمم مدرسہ اور صدر مدرس کے اپنے فرائض نبھاتے رہے، جہاں ان کی زیرسرپرستی متعدد علماء فارغ التحصیل ہوئے۔
1970ء تا دمِ حیات یعنی لگ بھگ 46 طویل برس انہوں نے کندھ کوٹ میں بسر کیے جہاں معروف ادیب اور دانشور مولانا پروفیسر عبدالخالق سہریانی بلوچ اور اُس وقت ضلع جیکب آباد کے امیر، درویش اور ولی صفت احمد نور مغل مرحوم و مغفور کے مشورے سے خلجی مرحوم نے ایک مدرسہ ’’دارالعلوم الاسلامیہ‘‘ کی بنیاد رکھی، اور تھوڑے ہی عرصے میں مولانا خلجی مرحوم اپنے علم و فضل اور شخصی اعلیٰ اوصاف کی بدولت علاقہ بھر میں معروف اور ممتاز ہوگئے۔ مختلف دوردراز علاقوں سے بھی طالبانِ علم اُن کے پاس حصولِ علم کے لیے آنا شروع ہوگئے اور انہوں نے خلجی مرحوم کے علم و فضل سے استفادہ کیا۔ سائیں محترم خلجی مرحوم کے شاگردوں کی ویسے تو ایک طویل فہرست ہے لیکن یہاں چند کا نام لکھنا ضروری سمجھتا ہوں:
پروفیسر ڈاکٹر عبدالحئی ابڑو، مولانا رفیع الدین چنا، مولانا حامد اللہ شاہوانی، مولانا عبدالخالق بروہی، مولانا عبدالحمید بروہی، مولانا عبدالشکور تنیو، حافظ نصراللہ عزیز چنا، مولانا محمد یعقوب قلندرانی، مولانا علی دوست قلندرانی، مولانا عبدالعزیز تنیو، مولانا عبدالستار بگٹی، مولانا عبدالکریم مہر، مولانا غلام شبیر بلیدی، مولانا محمد یوسف مزاری، ان کے اپنے فرزندِ ارجمند مولانا سلیم اللہ خلجی، اور راقم الحروف کو بھی خلجی مرحوم کے سامنے زنوائے تلمذ تہہ کرنے کا شرف حاصل رہا۔
استادِ محترم خلجی مرحوم کو اللہ تعالیٰ نے 8 صاحبزادوں اور 4 صاحبزادیوں سے نوازا۔ بڑے صاحبزادے خلیل اللہ عالم جوانی میں ہی دارِ فانی سے رخصت ہوگئے۔ حافظ سلیم اللہ خلجی اس وقت امیر ضلع جماعت اسلامی کشمور کندھ کوٹ ہیں۔ کلیم اللہ خلجی کندھ کوٹ کے معروف سینئر جرنلسٹ ہیں۔ حمیداللہ خلجی سول جج، سعید اللہ ہائی اسکول ٹیچر، حافظ فرید اللہ محکمہ پولیس میں ملازم، شہید اللہ اپنے پرائیویٹ اسکول کے پرنسپل اور نعیم اللہ خلجی دینار اسپتال لاڑکانہ میں بہ طور ٹیکنیشن اپنے فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔ جب کہ چاروں صاحب زادیاں شادی شدہ ہیں۔
مولانا خلجی مرحوم باوجود وسائل اور سہولیات کی کمی کے، تادمِ آخر سلسلۂ تعلیم و تعلم سے بڑی یکسوئی کے ساتھ اور بے لوث انداز میں وابستہ رہے۔ دورانِ تدریس بلاشبہ انہوں نے سینکڑوں شاگرد تیار کیے جو اس وقت سندھ، بلوچستان اورپنجاب میں پھیلے ہوئے ہیں۔ خلجی صاحب مرحوم صبر و رضا کے پیکر تھے، تدریس کے عمل میں انہوں نے کبھی وسائل کی کمی کو آڑے آنے نہیں دیا اور اس بارے میں کبھی کوئی حرفِ شکایت تک لب پر نہ لائے۔ وہ حضرت علامہ اقبالؒ کے اس شعر کی منہ بولتی اور جیتی جاگتی تصویر تھے:
مرا طریق امیری نہیں فقیری ہے
خودی نہ بیچ غریبی میں نام پیدا کر
مولانا خلجی مرحوم نے 1980ء کی دہائی میں تعلیم و تدریس کے سلسلے کے ساتھ وابستہ رہتے ہوئے سیاسی وسماجی امور کی انجام دہی کی طرف بھی اپنی توجہ مبذول کی۔ اس حوالے سے بھی وہ تحریکِ اسلامی کے وابستگان کے لیے ایک روشن مثال ہیں۔ اپنی گوناگوں تدریسی مصروفیات اور ذمہ داریوں کے باوجود عوامی مشکلات اور مسائل کے حل کے لیے بھی سعی کی اور عوام سے اپنے روابط استوار کیے رکھے۔ ان کی خدمات کی وجہ سے انہیں اوائل میں زکوٰۃ و عشر کمیٹی کا چیئرمین منتخب کیا گیا، اور اس منصب کو مرحوم خلجی صاحب نے کچھ اس حسن وخوبی، قابلیت اور ایمان داری کے ساتھ نبھایا کہ سارے علاقے میں ان کی دیانت داری کی شہرت اور چرچا عام ہوگیا۔ عام افراد تو رہے ایک طرف، معززینِ علاقہ بھی ان کی ایمان داری اور صلاحیتوں کے قائل ہوکر ان کے گن گانے لگے۔ سیاسی طور پر بھی انہوں نے ایک متحرک اور فعال زندگی گزاری۔ جب بلدیاتی انتخابات میں حصہ لینے کا ارادہ کیا تو مقامی وڈیروں اور بھوتاروں نے اول اول یہ خیال کیا اور سوچا کہ بھلا ایک مولوی صاحب کو کون ووٹ دے گا۔ لیکن جب انتخابات کا نتیجہ آیا تو سب حیرت میں پڑ گئے کیونکہ مولانا مرحوم کندھ کوٹ کی ایک بڑی برادری کے رئیس (وڈیرہ) کو شکست دے کر کندھ کوٹ میونسپل کمیٹی کے رکن منتخب ہوچکے تھے۔ بعد ازاں استادِ محترم خلجی مرحوم نے جب بھی بلدیاتی انتخابات میں حصہ لیا اہلِ علاقہ نے بھاری اکثریت سے انہیں کامیاب کرایا۔
خلجی مرحوم کی ایک نمایاں خوبی یہ تھی کہ وہ نہ صرف اہلِ حلقہ بلکہ سارے اہلِ شہر کے مصائب اور مسائل کے حل کے لیے کوشاں اور سرگرم رہا کرتے تھے۔ عوام میں ان کی مقبولیت اور ہردلعزیزی کا احساس کرکے ضلع کندھ کوٹ کی معروف سیاسی اور قبائلی شخصیات سردار سندر خان سندرانی مرحوم اور میر ہزار خان بجارانی بھی ان کے معترف اور دوست بن گئے۔ جب کندھ کوٹ کے شہریوں کے مسائل کے حل کے لیے ’’شہری اتحاد‘‘ کی تشکیل ہوئی تو خلجی صاحب اس کے نائب صدر بنائے گئے۔ کندھ کوٹ میں قبائلی جھگڑوں کی وجہ سے بے گناہ افراد کی ہلاکتوں کا المناک مسئلہ ہو یا اغوا برائے تاوان کے معاملات۔۔۔ خلجی صاحب اہلِ شہر کے ہمراہ ان کی قیادت کرتے ہوئے دکھائی دیا کرتے تھے، جس کی بنا پر اہلِ شہر بھی ان کے اس کردار کے معترف ہوکر ان سے عقیدت و محبت کا ایک بے لوث رشتہ قائم کیے ہوئے تھے اور اپنے ہر مسئلے کے حل کے لیے مولانا خلجی مرحوم ہی کو اپنے نمائندے کے طور پر منتخب کیا کرتے تھے۔ خواہ مسلمان ہو یا ہندو، ہر ایک اُن کی شخصی خوبیوں کی وجہ سے ان کے قریب ہوچکا تھا اور اُن سے خلوص پر مبنی محبت کا سلسلہ قائم کررکھا تھا۔ 1990ء کی دہائی میں خلجی مرحوم کو ذیابیطس کا موذی مرض لاحق ہوگیا تھا جس کی اوائل میں تو انہوں نے کوئی پروا نہ کی، لیکن اس مرض نے شروع میں ان کی آنکھوں اور پھر گردوں پر اپنے برے اثرات مرتب کر ڈالے، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ مرحوم کے دونوں گردے بالآخر جواب دے گئے۔ ڈاکٹروں نے انہیں ڈائیلاسز کرانے کا مشورہ دیا، جس کی وجہ سے مرحوم ہر ہفتہ اپنے گردوں کا ڈائیلاسز کرانے کے لیے کندھ کوٹ سے سکھر جایا کرتے تھے۔ جب سکھر جاتے تو صرف تنہا نہیں بلکہ کئی دیگر مریضوں کو بھی اپنے ہمراہ گاڑی میں لے جایا کرتے تھے اور گاڑی کا دو طرفہ کرایہ بھی خود ہی ادا کرتے تھے۔ اپنے ساتھ شہر کے دوسرے جو مریض لے جایا کرتے تھے اس حوالے سے انہوں نے کبھی کسی کا ایک روپیہ تک خرچ نہیں کروایا۔ ڈائیلاسز کرانے کا یہ سلسلس عرصہ چھ ماہ تک جاری رہا لیکن ’’مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی‘‘ کے مصداق باوجود اس تکلیف دہ مرحلے اور علاج کے روزبروز کمزور سے کمزور ہوتے چلے گئے جس کی وجہ سے ان کا نچلا دھڑ یکسر بے جان ہوکر رہ گیا تھا۔ مرض نے جب بہت زیادہ شدت اختیار کرلی تو بالآخر انہیں سکھر کے ایک نجی اسپتال کے انتہائی نگہداشت کے وارڈ میں داخل کرا دیا گیا۔ بیماری کی اطلاع ملنے پر جب میں اُن کی عیادت کے لیے حاضرِ خدمت ہوا تو بوجۂ نقاہت زیادہ بات تو نہ کرسکے البتہ مجھے دیکھ کر ہاتھ ہلایا اور زیر لب میرے سلام کا جواب مجھے عنایت فرمایا۔ بالآخر 13جنوری بروز جمعۃ المبارک افضل ایام 3 بجے اس صاحبِ علم وفضل نے جسے لوگ مولانا واحد بخش خلجی کے نام نامی سے جانتے تھے، داعئ اجل کو لبیک کہا۔ رہے نام اللہ کا۔
مولانا خلجی مرحوم کے سانحۂ ارتحال کی خبر عام ہوتے ہی سندھ کے گوشے گوشے سے ان کے شاگرد اور عقیدت مند کندھ کوٹ جیسے دور افتادہ علاقہ میں ہزارہا کی تعداد میں جمع ہوگئے تھے،، جو اپنے وقت کے ایک عظیم عالم دین اور درویش صفت ہستی کی دائمی جدائی پر افسردہ اور ملول تھے اور ان کی یاد میں اشک بہا رہے تھے۔ شدید ترین سردی اور موسلادھار بارش کے باوجود گورنمنٹ ہائی اسکول کندھ کوٹ کا وسیع و عریض میدان غم گساروں سے بھرچکا تھا۔ آسمان سے برسنے والی بارش اور مولانا خلجی مرحوم کی دائمی جدائی سے نڈھال ان کے ہزاروں عقیدت مندوں اور شاگردوں کی آنکھوں سے جاری اشکِ رواں کی باہم آمیزش کے درمیان مولانا مرحوم کی نماز جنازہ ادا کی گئی اور علم و فضل کا یہ آفتاب سپردِ خاک کردیا گیا۔ تشنگانِ علم کو سیراب کرنے والے آفتاب نے مٹی کی چادر اوڑھ لی تھی ہمیشہ کے لیے۔
nn