فی الوقت کے لیے

گزشتہ دنوں عمرو عیار کے حوالے سے کچھ لکھا تھا، جس پر اسلام آباد سے محبی ظفر محمود شیخ کی فرمایش موصول ہوئی کہ ’’عمرو‘‘ کے صحیح تلفظ پر بھی توجہ دلا دیں۔ ان کی یہ فرمایش یا فہمائش گزشتہ پیر کو ایک اخبار میں نصف صفحے کا اشتہار دیکھ کر یاد آگئی۔ یہ ایک بینک کا اشتہار ہے جس کے مضمون میں ایک جملہ ہے ’’اتھمار گروپ کے چیئرمین شہزادہ امربن محمد الفیصل۔۔۔‘‘ اس اشتہار کا متن انگریزی میں ہوگا جس کا ترجمہ شائع ہوا ہے۔ ہمارا گمان ہے کہ اتھمار تو ’اثمار‘ ہوگا، کیوں کہ انگریزی میں ’’ث‘‘ کو TH سے ظاہر کرتے ہیں، اور ترجمہ کرنے والے اسے ’اتھ‘ کردیتے ہیں۔اخبارات میں بھی یہ غلطی ایک عرصے سے چلی آرہی ہے۔ ایک بار ایک نام اتھمان دیکھا تو پوچھ بیٹھے کہ یہ کیا ہے؟ ہمارے فاضل ساتھی نے انگریزی متن سامنے کردیا جس میں OTHMAN تھا۔ اور ہم اپنا سا منہ لے کر رہ گئے، کیونکہ ہمارے پاس یہی ایک منہ تھا۔ ویسے یہ محاورہ یا ضرب المثل بھی عجیب ہے۔ مرزا غالب کا مصرع ہے ’’آئینہ دیکھ اپنا سا منہ لے کر رہ گئے‘‘۔ بہرحال یہ ہمارا خیال ہے کہ اشتہار میں بھی ’اثمار‘ اتھمار ہوگیا۔ تعلق ایک عرب شہزادے سے ہے اور عربوں میں اتھمار نام کی چیز نہیں ہوتی۔ اسی طرح شہزادے کا نام بگڑا ہے۔ اس سے قطع نظر کہ عربوں میں شہزادے یا بادشاہ نہیں ہوتے کہ یہ فارسی کے الفاظ ہیں اور ایران سے آئے ہیں۔ شہزادے کا نام ’’امربن محمد‘‘ شائع ہوا ہے۔ عربوں میں ’امر‘ نام بھی نہیں ہوتا گو کہ اولی الامر کی اطاعت کا حکم ہے۔ ہم پھر گمان سے کام لے رہے ہیں کہ یہ نام ’’عمرو‘‘ ہوگا۔ عمرو بن موسیٰ مصر کے ایک معروف سیاستدان تھے۔ ان کا نام بھی اردو کے اخبارات میں ’امر‘ شائع ہوتا تھا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ’عمرو‘ کا تلفظ عَمر (Amr) ہے، اور جب یہ انگریزی سے ہم تک پہنچنا ہے تو ’امر‘ ہوجاتا ہے۔ ظفر محمود شیخ نے بھی عمرو عیار کے حوالے سے خود وضاحت کی ہے کہ لوگ عموماً عمرو کے واؤ کو واؤ عطف پڑھتے ہیں حالانکہ ’و‘ ساکن ہے اور اسے عمرو نہیں ’عَمر‘ بروزن امر پڑھا جائے گا۔ ایسا ہی کچھ اتھمار گروپ کے چیئرمین شہزادہ امر کے ساتھ ہوگیا ہے۔ بے سوچے سمجھے انگریزی سے ترجمہ کرنے پر ایسا تو ہوگا۔ ہم بھی ایک عرصے تک عمروعیار کو ویسے ہی پڑھتے رہے جیسا کہ لکھا ہوا ہوتا ہے۔
عمرو کے تلفظ میں فرق کی وجہ یہ ہے کہ حضرت عُمَر اور کسی عَمر میں امتیاز ہوجائے، چنانچہ واؤ غیر ملفوظ کا اضافہ کردیا گیا۔
برسبیل تذکرہ خلیفہ دوم حضرت عمر اور عمر بمعنیٰ زندگانی، سن و سال، عرصہ، مدت وغیرہ دونوں ایک طرح سے لکھے جاتے ہیں لیکن ان کا تلفظ مختلف ہے۔ سیدنا عمرؓ کے نام میں ’ع‘ پر پیش اور ’م‘ پر زبر ہے، جب کہ عُمرْ میں ’م‘ پر جزم ہے، جمع اس کی اعمار ہے۔ عمر کے حوالے سے متعدد محاورے اور ضرب الامثال ہیں۔ قارئین کی عمر دراز ہو۔
ایک کالم نگار نے لکھاہے ’’کام کا طریقہ کار‘‘۔ بھائی، کام اور کار تو ایک ہی بات ہے۔ کام کا طریقہ یا صرف طریقہ کار کافی تھا۔ ایک اور لفظ ’’لیڈران‘‘ پڑھنے میں آتا ہے۔ یہ نہ اردو ہے نہ انگریزی، جیسے ’’ممبران‘‘۔ یا تو انگریزی کے حساب سے لیڈرز لکھیں یا رہنما۔ یہ رہنما اتنا برا لفظ تو نہیں خواہ ہمارے رہنما کیسے ہی ہوں، جن کا حال ایک معروف شاعر نے یوں بیان کیا ہے:
رہزنو لٹ نہ جانا کہیں
میں نے دیکھے ہیں کچھ رہبر
ممبران کی جگہ ارکان کہنے میں کیا خرابی ہے۔
بات رہنماؤں کی آہی گئی ہے تو سنیے، ہم نے کئی ٹرکوں اور بسوں پر لکھا ہوا دیکھا ہے ’’فخرے گوجرانوالہ‘‘، ’’فخرے پشاور‘‘، یا ’’فخرے کوئٹہ‘‘۔ ٹرک ڈرائیور اور مالکان جیسا سنتے ہیں ویسا ہی بولتے اور لکھواتے ہیں۔ لیکن ہمارے ایک سیاسی رہنما جناب عمران خان گزشتہ پیر کو اپنی پریس کانفرنس میں فرما رہے تھے کہ ’’نوازشریف کی کتاب میں صرف پیشے لفظ ہے‘‘۔ وہ نوازشریف کے اس دعوے پر تبصرہ کررہے تھے کہ ان کی زندگی کھلی کتاب ہے۔ اور عدالت کا کہنا تھا کہ اس کے کچھ صفحے غائب ہیں۔ اس پر عمران خان نے ردّا جمایا کہ کتاب کیا، صرف پیشے لفظ ہے۔ اگر وہ ’پیش لفظ‘ کو پیشے لفظ کہہ سکتے ہیں تو فخرے گوجرانوالہ یا فخرے کوئٹہ کہنے اور لکھنے میں کیا حرج ہے۔ عمران خان خود بھی فخرے کرکٹ رہ چکے ہیں۔
افضل پور، میرپور آزاد کشمیر کے ڈگری کالج کے پرنسپل ہمارے ممدوح جناب غازی علم الدین کی اردو زبان و ادب پر گہری نظر ہے۔ گزشتہ دنوں وزیراعظم نے اسلام آباد میں ادیبوں کا جو میلہ لگایا تھا اُس میں غازی علم الدین بھی گئے تھے لیکن علمی معیار دیکھ کر جلد ہی واپس چلے گئے۔ انہوں نے بتایا کہ ایک ادیب شہیر نے اپنے خطاب میں ’تجویزات‘ کا لفظ استعمال کیا۔ اخبارات میں ’الفاظوں‘ تو ہم نے بھی پڑھا ہے۔ ممکن ہے موصوف کو تجاویز کا علم نہ ہو یا اس سے زور نہ پیدا ہوتا ہو۔ ایک صاحب نے انتظار حسین کے بارے میں انکشاف کیا کہ مرحوم ’’صاحب طرز اسلوب‘‘ کے مالک تھے۔ اسلوب کو عموماً لوگ الف بالفتح یعنی اَسلوب کہتے ہیں، جب کہ الف پر پیش ہے (اُسلوب)۔ لیکن طرز اور اسلوب ہم معنیٰ ہیں۔ کوئی صاحبِ طرز ہو سکتا ہے یا صاحبِ اسلوب۔ا سلوب کے اور بھی مطالب ہیں مثلاً راہ، صورت، روش، طریقہ وغیرہ۔ ’اسلوب بندھنا‘ کا مطلب ہے صورت پیدا ہونا، راہ نکلنا۔ شوق قدوائی کا شعر ہے:
پہنچا جس وقت سے ترا مکتوب
زندگی کا بندھا ہے کچھ اسلوب
میرپور، آزاد کشمیر میں ایک مشاعرے کا احوال جناب علم الدین نے بیان کیا ہے کہ مشاعرے میں ایک شاعر نے ’’تتبع‘‘ کو تت بع پڑھا۔ اچھا کیا، بعض لوگ اصرار کرتے ہیں کہ زبان کو آسان ہونا چاہیے۔ اب بتائیے کتنے لوگ تتّبع کا صحیح تلفظ کرسکیں گے۔ شاعر صاحب نے ’تت بع‘ کہہ کر آسانی پیدا کردی۔ تتبع کا مطلب ہے اتباع کرنا، پیروی کرنا۔ اس کا تلفظ کچھ یوں ہوسکتا ہے: تَتَبْ۔ بُوع۔ ب پر تشدید ہے۔ اتباع عربی کا لفظ ہے، الف بالکسر ہے۔ ایک شعر سن (یا پڑھ) لیجیے:
کر کے عصیاں آنکھ کو پرنم کیا
اتباع سنتِ آدم کیا
اِتباع تابع کی جمع ہے۔
ٹیلی ویژن چینلز پر ایک جملہ بہت عام ہے ’’فی الوقت کے لیے اتنا ہی‘‘۔ اب اگر اس جملے میں سے ’کے لیے‘ نکال دیا جائے تو کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ ’کے بجائے‘ اور ’کی بجائے‘ کا جھگڑا طے نہیں ہورہا۔ اسی طرح ’’پیشہ وارانہ اور فرقہ وارانہ‘‘۔ ہم اگر فرقہ وارانہ میں واؤ کے بعد الف لگواتے ہیں تو ستم ظریف پیشہ ورانہ کے ساتھ بھی یہی سلوک کر ڈالتے ہیں۔
ایک اور جملہ اخبارات میں پڑھنے اور ٹی وی پر سننے میں آجاتا ہے ’’فلاں صاحب بمع اپنے ساتھیوں کے ساتھ‘‘۔ اول تو بمع کی جگہ ’’مع‘‘ کفایت کرتا ہے، اس پر مستزاد ’’کے ساتھ‘‘۔ بمع یا مع کے بعد ’کے ساتھ‘ کی ضرورت ہی نہیں۔ مع کی جگہ بمع تو بہت عام ہے۔ شادی کے دعوت ناموں میں یہ جملہ ضرور ہوتا ہے ’’بمع اہل و عیال کے ساتھ شرکت فرمائیں‘‘۔ اور اگر کسی سمجھ دار نے ’کے ساتھ‘ لکھنے سے گریز کیا تو ’’بمع‘‘ ضرور ہوگا۔ کبھی خط کتابت کے آغاز میں یہ جملہ ہوتا تھا ’’امید ہے مع الخیر ہوں گے‘‘۔ اب خط لکھنے کا رواج ہی ختم ہورہا ہے۔ اس کی جگہ ایس ایم ایس، واٹس ایپ اور نجانے کس کس نے لے لی ہے۔
nn