(کتاب (ڈاکٹر نثار احمد اسرار

:
مکتوبِ ترکی
سیاست، معاشرت، ثقافت، تاریخ کے حوالے سے مجموعی مضامین
مصنف
:
ڈاکٹر نثار احمد اسرار
ترتیب و حواشی

ڈاکٹر حافظ محمد سہیل شفیق
صفحات
:
374 قیمت 400 روپے
ناشر
:
قرطاس۔ فلیٹ نمبر A-15، گلشن امین ٹاور، گلستان جوہر بلاک 15 ،کراچی
موبائل
:
0321-3899909
ای میل
:
saudzaheer@gmail.com
ویب گاہ
:
www.qirtas.co.nr
ڈاکٹر نثار احمد اسرار انقرہ ترکی میں پاکستانی سفارت خانے میں افسرِ اطلاعات تھے۔ انہوں نے ترکی، اردو، انگریزی میں علمی ادبی کام بھی کیا۔ ہفت روزہ تکبیر کراچی میں مکتوب ترکی کے نام سے کالم بھی لکھا کرتے تھے جس میں مستند معلومات درج ہوتی تھیں اور یہ کالم دلچسپی سے پڑھے جاتے تھے۔ اس کتاب میں یہی کالم ڈاکٹر حافظ محمد سہیل شفیق نے مرتب کردیے ہیں۔ ڈاکٹر نثار احمد اسرارکا رابطہ برادرم محمد راشد شیخ سے رہتا تھا، راقم کی ملاقات اُن سے راشد صاحب کے گھر ہی ہوئی۔ مولانا مودودیؒ کی متعدد کتب کو انہوں نے ترکی میں ترجمہ کیا۔ انہوں نے راقم کو بتایا کہ مولانا کی کتاب ’’سرورِ عالم‘‘ کے ترجمے سے انہیں بہت زیادہ مالی فائدہ ہوا، کیونکہ اس کے ایڈیشن پر ایڈیشن نکلے اور وہ بہت مقبول ہوئی۔ ڈاکٹر سہیل شفیق تحریر فرماتے ہیں:
’’پاکستان اور ترکی کی تاریخ، ثقافت، سیاست اور ادب میں بہت سی چیزیں مشترک ہونے کے باوجود ہم ایک دوسرے کی تاریخ، ثقافت، سیاست اور ادب سے بڑی حد تک اجنبی رہے ہیں، جس کا بنیادی سبب ’زبانِ یار من ترکی و من ترکی نمی دانم‘ رہا ہے۔ اگرچہ کہ قیام پاکستان کے کچھ عرصے بعد ہی پاکستان کی مختلف جامعات میں کسی حد تک ترکی زبان کی تدریس کے سلسلے کا آغاز ہوگیا تھا۔
1948ء میں حکومتِ پاکستان کے ایما پر ایک پاکستان ترکی کلچرل انجمن قائم ہوئی جس کی قیادت پروفیسر اے۔ بی۔ اے۔ حلیم (شیخ الجامعہ، جامعہ کراچی) نے سنبھالی۔ اسی انجمن کے زیراہتمام 1948ء میں سندھ یونیورسٹی بلڈنگ کراچی میں جدید ترکی کی تعلیم کا آغاز ہوا۔ 1956ء کے قریب پنجاب یونیورسٹی نے ترکی زبان میں سرٹیفکیٹ کورس اور بعد ازاں ڈپلوما کورس شروع کیا۔ اگست 1963ء میں کراچی یونیورسٹی نے ترکی زبان میں نوماہ کا ایک سرٹیفکیٹ کورس جاری کیا۔ ماہرِ ترکیات ڈاکٹر محمد صابر کی کوششوں سے جامعہ کراچی کے شعبہ اسلامی تاریخ میں عربی اور فارسی کے ساتھ ترکی زبان کو بھی بی اے (آنرز) سال دوم میں شامل کرلیا گیا۔ 1965ء میں پشاور یونیورسٹی نے ترکی زبان کا علیحدہ شعبہ قائم کیا جہاں سرٹیفکیٹ اور ڈپلوما کورس جاری کیے گئے۔ جنوری 1968ء سے سندھ یونیورسٹی میں بھی ترکی زبان میں سرٹیفکیٹ کورس کا آغاز ہوا۔
جہاں تک ترکی کا تعلق ہے، وہاں اردوکی تعلیم و تدریس کا آغاز ایک صدی قبل تقریباً 1915ء کے لگ بھگ خیری برادران یعنی عبدالجبار خیری اور عبدالستار خیری کی کوششوں سے دارالفنون عثمانی، استنبول یونیورسٹی سے ہوچکا تھا۔ 1956ء میں انقرہ یونیورسٹی میں اردو کی تدریس کا آغاز ہوا۔ انقرہ کے بعد سلجوق یونیورسٹی، قونیہ میں 1985ء میں شعبہ اردو کا قیام عمل میں آیا۔
پاکستان اور ترکی کے درمیان رشتۂ اخوت و باہمی روابط نے پاکستان میں ایسے افراد تیار کرنے میں مدد دی جنہوں نے ترکی زبان و ادب کی تعلیم حاصل کی اور اپنی تصانیف و تراجم کے ذریعے پاکستان کے اردو داں طبقے کو ترکی کی تاریخ ، ادب، سیاست و ثقافت سے روشناس کرایا۔ پاکستان میں جن شخصیات نے ترکی زبان و ادب کے فروغ میں اہم کردار ادا کیا اور زبان کے فرق کو سدِّراہ نہیں بننے دیا، ان میں ڈاکٹر داؤد رہبر، ڈاکٹر غلام حسین ذوالفقار، ڈاکٹر حنیف فوق، ڈاکٹر محمد صابر، ڈاکٹر سعادت سعید اور ڈاکٹر نثار احمد اسرار کے نام نمایاں ہیں۔
ڈاکٹر نثار احمد اسرار (1942ء۔ 2004ء) کو بجا طور پر ترکی میں پاکستان کا علمی سفیر کہا جا سکتا ہے۔ ڈاکٹر نثار دسمبر 1965ء میں آر۔ سی۔ ڈی اسکالرشپ پر ترکی گئے۔ انقرہ یونیورسٹی سے ایم۔اے کیا۔ 1971ء میں استنبول یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کیا۔ پی ایچ ڈی کرنے کے بعد ڈاکٹر نثار استنبول سے انقرہ منتقل ہوگئے اور بقیہ زندگی انقرہ ہی میں گزاری۔ ڈاکٹر صاحب 36 سال سے ترکش ریڈیو اور ٹیلی ویژن کارپوریشن (TRT) کی غیر ملکی نشریات سے وابستہ رہے۔ 26 سال سفارت خانہ پاکستان میں بہ حیثیت افسرِ اطلاعات خدمات انجام دیں۔ پاکستانی سفارت خانے کی جانب سے ایک زمانے تک شائع ہونے والے ’’پاکستان پوسٹاسی‘‘ میں بھی وہ خدمات انجام دیتے رہے۔ دو سال تک ترکی کے واحد انگریزی اخبار Turkish Daily News کے نیوز ایڈیٹر بھی رہے۔ علاوہ ازیں 1985ء تا 1990ء انقرہ یونیورسٹی کے شعبہ اردو و مطالعہ پاکستان میں اعزازی طور پر تدریسی خدمات بھی انجام دیں۔ تراجم و طبع زاد تصانیف کی مدد سے انہوں نے پاکستان کے اہم مسائل کو اجاگر کیا اور علمی شخصیات کو ترکوں سے متعارف کرایا۔ اسی طرح انہوں نے دو مشہور ترک شاعروں یعنی یونس ایمرے اور عاکف ایرصوئے سے اردو داں طبقے کو متعارف کرایا۔ ڈاکٹر نثار احمد کے درجنوں مضامین پاکستان، ترکی، ایران اور آسٹریا کے اردو، انگریزی، ترکی اور جرمن اخبارات و رسائل میں شائع ہوتے رہے۔
ڈاکٹر نثار احمد اسرار کے ایک انٹرویو کے مطابق ان کے کچھ مضامین 1977ء تا 1979ء ہفت روزہ ’’اخبار جہاں‘‘ کراچی میں شائع ہوئے۔ بعد ازاں ہفت روزہ ’’تکبیر‘‘کراچی میں 10 دسمبر 1987ء سے 30 اپریل 2003ء تک وقتاً فوقتاً شائع ہوتے رہے۔ ڈاکٹر نثار کے تین مضامین ہفت روزہ ’’فاتح‘‘ کراچی میں بھی شائع ہوئے۔
پیش نظر کتاب میں ہفت روزہ ’’تکبیر‘‘ اور ’’فاتح‘‘ میں شائع ہونے والے مضامین شامل کیے گئے ہیں۔ ضروری مقامات پر مختصر حواشی بھی تحریر کردیے گئے ہیں۔ ہفت روزہ ’’اخبار جہاں‘‘ میں شائع ہونے والے مضامین کوشش بسیار کے باوجود حاصل نہ ہوسکے۔ کراچی کی کسی لائبریری میں اخبار جہاں کی مکمل فائل دستیاب نہیں۔ لیاقت نیشنل لائبریری میں بتایا گیا کہ فائلیں بارش کے پانی کی نذر ہوگئی ہیں۔ ہمدرد لائبریری میں 2004ء سے قبل کا کوئی شمارہ موجود نہ تھا۔ انسٹی ٹیوٹ آف سندھیالوجی لائبریری، جامشورو میں اخبار جہاں کی فائلیں دستیاب تھیں۔ 1977ء تا 1979ء کے شمارے دیکھ لیے گئے، ان میں ڈاکٹر صاحب کا کوئی مضمون شائع نہیں ہوا۔ غالباً یہاں ڈاکٹر صاحب سے سہو ہوا ہے۔ البتہ دو سال 1967-69ء کی فائلیں یہاں بھی موجود نہیں تھیں۔ ممکن ہے ڈاکٹر نثار کے مضامین اسی عرصے میں اخبارِ جہاں کی زینت بنے ہوں۔ اخبار جہاں کے دفتر سے یہ مضامین دستیاب ہوسکتے تھے لیکن انہوں نے تعاون نہیں کیا۔
بہرصورت یہ مضامین جیسا کہ پہلے ذکر کیا گیا کہ بیسویں صدی کے آخری دو عشروں اور اکیسویں صدی کے پہلے عشرے میں لکھے گئے تھے۔ یہ دور ترکی کی تاریخ کا ایک اہم دور تھا۔ سیاسی، معاشی، معاشرتی اور فکری تبدیلیوں کا دور تھا۔ ترکی کی موجودہ ترقی، سیاسی تبدیلیوں، ثقافت و معاشرت اور حالیہ فوجی بغاوت (15 جولائی 2016ء) میں ترک عوام کے ردعمل، ان کے عزم و ہمت اور صبر و استقامت کو سمجھنے کے لیے ان مضامین کا مطالعہ اہمیت کا حامل ہے۔ ان مضامین کے مطالعے سے بخوبی اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ ترک عوام نے کن مشکلات اور صبر آزما مراحل سے گزر کر آج اقوامِ عالم میں، بالخصوص مسلم دنیا میں ایک باوقار مقام حاصل کیا ہے۔
کتاب میں شامل ڈاکٹر نثار احمد اسرار کے بیشتر مضامین تحقیقی مقالات کی حیثیت رکھتے ہیں۔ جیسا کہ ترکی پر عیسائی مبلغین کی یلغار، کردوں کی دہشت گردی اور علیحدگی کی تحریک، ترکی میں تبرکاتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی تازہ دریافت، ترکی کا نامور سیاح اولیا چیلیبی، ترکی جمہوریت میں بادشاہت کے مزے، ترکی میں سلطنتِ عثمانیہ کا زوال کیسے ہوا؟، یورپی یونین میں شمولیت کی کوششیں، ترکی میں اسلام کی حیرت انگیز پیش قدمی، عراقی تیل کی برآمد پر پابندی کا خاتمہ، ترکی میں مافیا کی متوازی حکومت، بلند ایجوت کو زوال کیوں آیا؟، ترکی کا انقلاب پس منظر اور پیش منظر(2002ء)۔
nn