پاکستان

پاکستان کے حساس اور درد دل رکھنے والے حلقے اب یہ سوال زیادہ شدت سے اٹھارہے ہیں کہ جس نظام میں سیاسی جماعتیں انتخابات کے بجائے نامزدگیوں پر چل رہی ہوں اورجن کا اندرونی نظام جمہوریت کے بجائے فسطائیت پر قائم ہو۔ جہاں مشاورت کے بجائے خودوارد کی رائے حمتی ہو۔ جس میں سیاسی جماعتیں جمہوریت کی نرسری کے بجائے اجارہ دار خاندانی گروپ بن گئی ہوں۔ اس نظام کو بچانے کی زبانی کوشش کتنے عرصے چل سکیں گی۔ جس جمہوریت کی تعریفیں کرتے ہوئے ہم صبح سے شام کردیتے ہیں جس کے خلاف ایک لفظ سننے کے لیے تیارنہیں اور جس کے نام پر قائم نظام کے تحفظ کے لیے ہم سردھڑ کی بازی لگانے کے دعوے کرتے ہوں اس کی روح ت وہمارے نظام کے ابتداء مرحلے (سیاسی جماعتوں کا مرحلہ) میں بھی زخمی اور نڈھال ہورہی ہے۔ اس نڈھال اور نیم جان نظام کی رہی سہی جان ایکشن کمیشن‘ منتخب اداروں کے ارکان افسر شاہی انتظامی مشینری کے رویے اور قانونی و آئینی موشگافیاں نکال دیتی ہیں۔ اور اس بے روح اور حالتِ نزاع میں پڑے جسم کو بچانے کے لیے ہم آخری دم تک لڑنے کی باتیں کرتے ہیں۔ کیا وقعی ہم اس نظام کو بچانا چاہتے ہیں یا یہ ایک دھوکہ ہے۔ اس پر ہمیں تفصیل اور گہرائی سے غور کرنا ہوگا۔تحریک انصاف کی عوامی سطح پر پذیرائی کے بعد عوامی حلقے بھی یہ سوال اٹھارہے ہیں کہ کیا ملک میں جاری موجودہ نظام حکومت کی حفاظت کی حفاظت کا بندوبست کرنا چاہیے۔ اسے بچانے کیلیے قوم کی توانائیاں صرف کرنی چاہئین اس نظام کو جو ابتک کچھ ڈیلیور نہیں کرسکا اور اپنی ظاہری شکل و صورت میں ایک استحصالی نظام ہے یکسر مسترد کرکے بحیرہ عرب میں پھینک دینا چاہیے۔
دانشوروں اور عوامی حلقوں کا سوال یہ ہے کہ جس نظام نے اپنے متفقہ آئین میں یہ بات درج کی ہوکہ اس مملکت خداداد پاکستان میں قرآن و سنت سے متصادم کوئی قانون نہیں بنایا جاسکتا وہاں پورا معاشی نظام سود پر قائم ہو۔ شراب کی فیکٹریاں قانون کی چھتری کے تحت چل رہی ہوں۔ جوئے کی کئی اقسام کو قانونی تحفظ حاصل ہو۔ جہاں آئین کی دفعہ 62 ‘63 پر عملدرآمد اور کارروائی تو دو رکی بات اسے مذاق بنادیا گیا ہو اور جہاں آئین کی نصف سے زیادہ شقوں اور دفعات پر عملدرآمد نہ ہوتا ہو جس نظام میں قانون امیر کے لیے مختلف اور غریب شہری کے لیے مختلف ہو۔ رشوت خور لٹیرے رنگے ہاتھوں پکڑے جانے کے بعد رشوت دے کر اور پلی بارگین کرکے نہ صرف آزاد گھوم رہے ہوں بلکہ ان ہی منافع بخش اسامیوں پر دوبارہ براجمان ہوں جن سے لوٹ مار کرتے ہوئے پکڑے ہوگئے ہوں ‘ جہان انتخابات میں پری پول گربنگ‘ آن سپاٹ گربنگ اور پوسٹ پول گربنگ معمول ہو۔ جہاں الیکشن کمیشن کا چیئرمین قائد ایوان اور قائد حزب اختلاف کے مشورے سے ایسا شخص بنادیا جاتا ہو جو ان دونوں رہنماؤں اور ان کی پارٹیوں کے لیے سود مند ہو یا کم از کم ضرررساں نہ ہو۔ جہاں دھاندلی کے ذریعے کامیابی حاصل کرنے والی اور پیسے ۔ اثر و رسوخ اور عیاری کے ذریعے عوام کا مینڈیٹ چوری کرنے والی سیاسی جماعتیں حکومت بناتی ہوں اور جہاں کی اپوزیشن پر کھلے عام فرینڈلی اپوزیشن کا الزام لگتا ہو۔ جہاں پر سیاسی جماعت حتی کہ کامیابی حاصل کرنے والی جماعتیں بھی انتخابات میں دھاندلی پر سراپا احتجاج ہوں۔ جہاں اپوزیشن لیڈر پر حکومت سے زیادہ سے زیادہ مراعات لینے کا الزام لگ رہا ہو۔ جہاں سیاسی جماعتیں ٹکٹیں باقاعدہ فروخت کرتی ہوں۔ مگر ان کے پاس اپنے ارکان اور کارکنوں کا کوئی ریکارڈ ہو نہ اخراجات کی کوئی قابل قبول اماؤنٹ شیٹ۔ جہاں سیاسی جماعتوں کے فنڈز کے ذرائع نامعلوم یا غیر مصدقہ ہوں۔ جہاں کیس یاسی جماعتوں پر خفیہ ایجنسیوں بلکہ دشمن ممالک سے فنڈز لینے کے الزامات ہون۔ جہاں خفیہ ایجنسیاں انتخابات پر پوری طرح اثر انداز ہوتی ہوں اور بہت سے سیاسی اتحاد اور حکومتیں بنانے کا فخریہ اعتراف کرتی ہوں۔ جہاں الیکشن کمیشن کے ارکان کوئی آزاد سوچ والے نہیں بلکہ صوبائی حکومتوں کے پسندیدہ نامزد افراد ہوں۔جہاں انتخابی اخراجات کی حد 10لاکھ اور قومی اسمبلی کے ایک حلقے میں 20کروڑ روپے خرچ ہوتے ہوں اوریہ سب کچھ الیکشن کمیشن کو نظر نہ آتا ہو۔ جہاں پر بلدیہ کے معمولی کونسلرز میں ایک ایک کرو ڑ روپے خرچ کرکے کامیاب ہوتے ہوں۔ جہاں الیکشن کمیشن انتخابی عرضداری کا فیصلے 120 دن میں کرنے کا پابند ہو مگراس کی کوئی مثال موجود نہ ہو بلکہ اسمبلیوں کی پوری مدت کے د وران انتخابی فیصلے آتے ہوں یا کوئی فیصلے آنے کی صورت میں کامیاب امیدوار حکم امتناعی پر پوری مدت گزار لیتی ہو۔ جہاں قومی اسمبلی ‘ سینیٹ او رصوبئی اسمبلیوں کے معزز ارکان جعلی ڈگریوں کے حامل ہوں اور جھوٹے حلف نامہ داخل کرکے کامیاب ہوئے ہوں۔ جہاں نیب کے چیئرمین کا تقرر وزیراعظم اور قائدحزب اختلاف مل کر کرتے ہوں جبکہ ان دونوں یا کم از کم ان میں سے ایک پر کرپشن کے سب سے زیادہ الزامات ہوں۔ جہاں ایف ئی آر رشوت دیے بغیر درج نہ ہوسکتی ہو۔ جہاں تفتیشی افسر کی مٹھی گرم کرنے سے قابل بے گناہ بن جاتے ہ وں۔ جہاں کوئی بوڑھی ماں اپنے جوان بے گناہ بیٹے کے قتل پر روتے روتے بینائی کھو بیٹھتی ہو مگر اس کے پاس تاریخ لینے کے لیے پیسے اور وکیل کی بھاری فیس ادا کرنے کی خاطر فروخت کرنے کے لیے کوئی جائیداد نہ ہو جس کی وجہ سے بااثر قاتل عدالتوں سے باعزت بری ہورہے ہوں۔ جہاں ایک نہیں سینکڑوں بلکہ ہزاروں مریض علاج کے بغیر موت کے منہ میں چلے جاتے ہوں۔ جہاں اپستال معمولی سے واجبات کی عدم ادائیگی پر مرنے والوں کی میتیں روک لیتے ہوں۔ جہاں تندروں پر روٹیاں لگانے والے اور ہوٹلوں میں چائے بیچنے والے بچے میٹرک اور انٹر میں تو ٹاپ کرتے ہوں مگر زندگی میں کلرک‘ اسکول ٹیچر‘ چونگی محرر سے آگے نہ بڑھ سکتے ہوں اور ان کے مقابلے میں بااثر لوگوں کے نکھٹو بچے انتظامیہ اور عدلیہ کے اعلیٰ عہدوں پر براجمان ہوں اور انسپکٹر‘ نائب تحصیل دار یا لیکچرر بھرتی ہوکر بھی قابل رشک عہدوں سے ریٹائر ہوتے ہوں۔ جہاں سرکاری ملازمین رشوت نہ دینے کی وجہ سے دفتروں کے دھکے کھاتے کھاتے اپنی ہی پنشن لیے بغیر قبر میں اتر جاتے ہوں۔ جہاں پر جائز کام کرانا مشکل اور تعلقات اور رشوت کے ذریعے ہرناجائز کام کرانا انتہائی آسان ہو۔ جہاں پرائیویٹ یونیورسٹیاں ڈگریوں کا کاروبا کررہی ہوں۔ اسپتال ؟؟؟بانٹ رہے ہوں اور کاروباری لوگ اشیائے خوردنوش اور ادویات میں ملوث کرکے عمرے ادا کررہے ہوں۔ جہاں تھانیدار ؟؟؟ اور استاد بے وقعت ہو۔ جہاں اعلیٰ عدالتوں سے بری ہونے والوں کو دو دو سال قبل پھانسی پر لٹکایا جاچکا ہو۔ جہاں مساجد غیر محفوظ اور جوا خانے بے خوف چل رہے ہوں وہاں جاری نظام کو بچانے کی باتیں کتنی قرین انصاف ہیں۔ اس پر ہمیں غور کرنا ہوگا کہیں یہ استحصال زدہ لوگوں کے زخموں کو ہرا کرنے کا باعث تو نہیں بنیں گی۔یہ مجبور امر بے بس لوگ اس ظلم اور استحصال سے تنگ آکر سب کچھ ہی بھسم نہ کردیں۔ یا کوئی دشمن اس صورتحال کا فائدہ اٹھا کر کوئی ایسا کام نہ کردے جس کا خمیازہ ہمیں برسوں بھگت پڑے گا۔ اس لیے ہماری دانشوروں ‘ ارباب اختیار و اقتدار اور اہل سیاست کو اپنی ذاتی گروہی اور خاندانی مفادات کو ایک طرف رکھنا ہوگا اور شاید وقت آگیا ہے کہ ہم گہرے غوروخوض کے بعد یہ فیصلے کریں گے اس نظام کو بچانا ہے یا اسے اس کی تمام خرابیوں اور ؟؟؟؟خوبیوں کے ساتھ بحیرہ عرب میں غرق کردینا ہے اگر ہم نے ایسا نہ کیا تو اس نظام کی نحوستیں خود اسے ڈبو دیں گی مگر میرا نظریہ ہے کہ اس کے ساتھ کہیں ہم سب بھی نہ ڈوب جائیں۔ بہتر ہوگاکہ اس نازک معاملے پر عملی اور عوامی سطح پر ایک مباحثے کا آغاز کیا جائے۔ دانشور اس کے ہر پہلو پر غور کریں اور تحقیقی اداریے‘ معروضی حالات‘ ہماری تاریخی اور سماجی روایات‘ ؟؟؟ کے مفادات اور ہمارے مخصوص حالات اور ضرورتوں کا جائزہ لیتے ہوئے اگر اس نظام کو چلان حے تو اس کے لیے یہ ضروری حدود مقرر رکریں اور انتظامیہ اس پر سختی سے عمل کرے ورنہ جیلوں میں جائے یا پھر اس نظام کی جگہ کسی بہتر متبادل نظام کا نقشہ پیش کیا جائے۔ جس میں موجودہ نظام کی خوبیاں تو ہوں مگر خرابیوں کی گجائش نہ ہو۔