پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین سابق صدر آصف علی زرداری کے نوابشاہ سے قومی اسمبلی کے الیکشن لڑنے کے اعلان کے بعد پیپلزپارٹی متحرک ہوگئی ہے‘ مسلم لیگ (ن)سیاسی منظرنامے سے غائب ہے اور اس کی لیڈر قیادت اپنے ذاتی معاملات اور مفادات کے حصول کے لیے پیپلزپارٹی کے قائدین سے پس پردہ ملاقاتیں کرتی نظر آتی ہے۔ جبکہ تحریک انصاف کا ووٹ بینک ضلع شہید بے نظیر آباد (سابقہ نواب شاب) میں نہ ہونے کے برابر ہے ۔ خیال کیا جارہاتھا کہ عمران خان آصف علی زرداری کے مقابلے میں ضرور امیدوار سامنے لائیں گے تاہم مقامی سطح پر پارٹی کے پاس سابق صدر آصف زرداری کے مقابلے کے لیے کوئی شخصیت موجود نظر نہیں آتی ۔ ادھر جمعیت علماء اسلام ف کی جانب سے آصف زرداری اور بلاول کے خلاف امیدوار کھڑا کرنے کا اعلان کیا گیا ہے ۔ کہا جارہا ہے کہ جمعیت کی جانب سے مولانا عبدالقیوم ہالیجوی کو امیدوار لایا جائے گا۔ دوسری جانب سے پیپلزپارٹی شہید بھٹو گروپ کے سندھ کنونشن میں بھی آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو زرداری کے مقابلے میں امیدواروں کے ناموں کا اعلان کیا گیا ہے۔ تاہم قوم پرستوں کی جانب سے نہ تو ڈاکٹر قادر مگسی اور نہ ہی صنعان قریشی اور ڈاکٹر نیاز کالانی کا انتخاب لڑنے کا اعلان سامنے آیا ہے۔جماعت اسلامی اس نشست پر اپنا ووٹ بینک رکھتی ہے۔ 1970 ء کے انتخاب میں پروفیسر سید محمد سلیم جنہوں نے حاکم علی زرداری سے مقابلہ کیا اور بھاری تعداد میں ووٹ لیے جبکہ 1985 ء کے انتخاب میں مولانا محمد مصاحب علی نے بھی کانٹے کا مقابلہ کیا تھا اب بھی اگر اپوزیشن اتحاد بنا کر میدان میں آتی ہے تو حکمران جماعت کو مشکل صورتحال سے دوچار کرسکتی ہے۔ اس بارے میں خود زرداری ہاؤس کا ایک منظرقارئین کے سامنے پیش کرنا ضروری ہے۔سابق صدر آصف علی زرداری کی نواب شاہ آمد پر زرداری ہاؤس میں ظہرانہ کا اہتمام کیا گیا اور اس میں یہ تاثر دیا گیا کہ اس تقریب میں موجود افراد ضلع کے نمائندہ افراد ہوں اوریہ سیاسی لحاظ سے انتہائی بااثر اجتماع ہے اس کے شرکا ء کا فیصلہ قومی اسمبلی کے انتخاب میں سابق صدر آصف علی زرداری کے سر پر کامیابی کا ہما بٹھا سکتا ہے۔ اس موقع پر چند لوگوں سے مائیک دے کر تقاریر کروائی گئیں اور ان شخصیات نے پارٹی کے مقامی رہنماؤں کی تعریف میں زمین و آسمان کے قلابے ملا دیے۔ کوئی تو یہ کہہ رہا تھا کہ قدم بڑھاؤ آصف صاحب ہم تمہارے ساتھ ہیں اور کوئی یہ کہہ رہا تھا کہ وہ پارٹی کے لیے اپنی جان بھی قربان کرنے کو تیار ہے‘ کوئی دامے درمے سخنے انتخاب میں کردار ادا کرنے کا وعدہ کررہا تھا‘ تو کوئی اپنی جیب سے اپنی حلقے میں انتخاب کا خرچ اٹھانے کا وعدہ کررہا تھا۔ اسی اثناء میں فریال تالپور صاحبہ نے مائک سابق چیئرمین بلدیہ مرحوم راؤ شیر زمان کے فرزند سابق یوسی ناظم راؤ سیف الزمان کو دلایا تو ان کا پہلا جملہ یہ تھا کہ محترم آصف زرداری صاحب! آپ ان لوگوں کی باتوں میں نہ آئیں کیونکہ یہ سب لوگ حقائق سے مختلف باتیں کررہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ نواب شاہ میں ترقیاتی کاموں کے نام پر اربوں روپیہ خرچ ہوا لیکن نظر نہیں آرہا ہے‘ انہوں نے کہا کہ محترم سابق صدر! آپ دن کو نہ سہی رات میں شہر گھومیں‘ آپ کو یہاں ہونے والی ترقی صاف نظر آجائے گی۔ راؤ سیف الزمان نے کہا کہ ملازمتوں میں حقدار محروم رہے اور جس شخص کو نواب شاہ کے سیاہ و سفید کا مالک بنایا گیا وہ اپنے دوستوں کے ہمراہ اپنے فارم ہاؤس تک محدود رہے۔ اس موقع پر ان میں موجود چند مراعات یافتہ رہنماؤں نے خواتین کو اکسایا کہ وہ اس جارحانہ تقریر میں مداخلت کریں لیکن سابق صدر آصف علی زرداری جو کہ ہم تن گوش راؤ سیف کو سن رہے تھے ان خواتین کو ہاتھ کے اشارے سے خاموش کیا او رکہا کہ راؤ صاحب اپنی بات مکمل کریں۔ جوں ہی بات مکمل ہوئی سابق صدر نے تقریب کو سمیٹ دیا اور کارکنوں کے ساتھ سیلفی بنوانے میں مصروف ہوگئے۔ اس تقریب میں شرکاء کا انتخاب کس طرح کیا گیا اس بارے میں بات ڈھکی چھپی نہیں رہی کہ تاج کالونی سے بھٹی اور بڑدی برادری کے ان لوگوں کو لایا گیا جہاں ایک گھر میں کئی کئی ملازمتیں ملی تھیں اور اردو بولنے والوں کی نمائندگی کے لیے ان لوگوں کو چنا گیا‘ جن کہ متعلق خود پیپلزپارٹی میں تاثر ہے کہ کھڑے کیے گئے امیدواروں کی بجائے بلدیاتی انتخاب میں پارٹی کسی دوسرے کو ٹکٹ دیتی تو وہ سیٹ نکال سکتے تھے۔ تاہم یہ تو پیپلزپارٹی کا اپنا اندرونی معاملہ ہے لیکن یہ بات ضرو رہے کہ ماضی میں شہری آبادی جیسے علاقوں کو ملازمتوں اور ترقیاتی کاموں میں پس پشت ڈالا گیا اور نواب شاہ شہر کی پانچ لاکھ آبادی کی بڑی برادریوں کی حقیقی نمائندوں کے ذریعہ ان لوگوں کی اشک شوئی کرنا ہوگی جن کے ہاتھوں میں اعلیٰ تعلیمی ڈگریاں تھیں لیکن انہیں سینکڑوں جگہ درخواستیں دینے اور مقابلے کے تمام امتحانات پاس کرنے کے باوجود صرف اس لیے ملازمت سے محروم رکھا گیا کہ یہ حکمران جماعت کے نورتنوں تک پہنچنے کی سکت نہیں رکھتے تھے۔ جبکہ طرفہ تماشہ تو یہ بھی ہے کہ ڈیڑھ ارب روپے کی لاگت سے بنائے گئے الٹرا ماڈرن فلٹریشن پلانٹ کے پانی کی سپلائی کے لیے بچھائی گئی پائپ لائن بھی لال بلڈنگ تک پہنچا کر ختم کردی گئی اور منو آباد اور ایئر پورٹ ‘ غلام رسول شاہ کالونی اور غریب آباد کو جہاں شہر کی گنجان آبادی رہائش پذیر ہے اور نعمت سے محروم رکھاگیا ہے۔ ایسا کیوں ہورہا ہے کون کررہا ہے یہ سوال قرض ہے محترم آصف علی زرداری اور محترمہ فریال تالپور پر جنہوں نے نواب شاہ کو اربوں روپیہ کے میگا پروجیکٹ دیے اوران کے دل میں نواب شاہ کے عوام کا درد موجود ہے۔
nn