(ملک نواز(احمد اعوان

نام کتاب
:
محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
مستشرقین کے خیالات کا تجزیہ
مصنف
:
پروفیسر محمد اکرم طاہر
صفحات
:
464 قیمت 375 روپے
ناشر
:
ادارہ معارفِ اسلامی۔ منصورہ، ملتان روڈ لاہور 54790
فون نمبر
:
042-35252475-76
042-35419520-4
ای میل
:
imislami1979@gmail.com
ویب گاہ
:
www.imislami.org
تقسیم کنندہ
:
مکتبہ معارف اسلامی منصورہ ملتان روڈ لاہور
فون نمبر
:
042-35252419
042-35419520-4
پروفیسر محمد اکرم طاہر مدظلہٗ نے دفاعِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں یہ گرانقدر کتاب تحریر فرمائی ہے۔ اس کا یہ دوسرا ایڈیشن ہے، پہلے ایڈیشن کا تعارف فرائیڈے اسپیشل میں کرایا جا چکا ہے۔ یہ کتاب اس قابل ہے کہ اس کا ہر مسلمان بغور مطالعہ کرے اور اس کے دلائل کو اپنے دل و دماغ میں بسا لے۔ اس دورِ جہل و تشت و افتراق میں ہر مسلمان کا اپنے دین کو جاننا بہت ضروری ہے۔ ہمارا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے تعلق جذباتی کے ساتھ ساتھ علمی بھی ہونا چاہیے۔
الحمدللہ اس میدان میں بہت سا ٹھوس علمی کام بھی تیزی سے ہورہا ہے اور تحقیقاتِ سیرتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم حیاتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہر گوشے پر محیط ہیں۔
حافظ محمد ادریس صاحب ڈائریکٹر ادارہ معارف اسلامی تحریر فرماتے ہیں:
’’اللہ تعالیٰ کے آخری نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ مبارکہ پر بے شمار کتابیں تحریر کی گئی ہیں۔ تاریخِ انسانی کی کوئی شخصیت ایسی نہیں جس کی زندگی پر اتنا وسیع اور تمام جزئیات کے ساتھ ہمہ جہت علمی کام ہوا ہو، جتنا آقا ومولیٰ صلی اللہ علیہ وسلم پر ہوا ہے۔ یہ سلسلہ قیامت تک جاری رہے گا۔ اب تک دنیا کی مختلف زبانوں میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت پر مسلم و غیر مسلم اہلِ علم نے لاکھوں کی تعداد میں تصنیف وتالیف کا وقیع کام کیا ہے۔
’’انیسویں اور بیسویں صدی میں مغربی اہلِ علم نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر متعدد کتابیں تحریر کیں۔ سیکڑوں مغربی اہلِ دانش نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تحسین و تعریف میں زورِ قلم صرف کیا ہے، لیکن مغربی مصنفین کی ایک بڑی تعداد نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر گوناگوں اعتراضات بھی کیے ہیں۔ ہرچند کہ اُن کے اعتراضات نہایت بودے، غیر معقول اور بے وزن ہیں تاہم مسلمان اہلِ علم نے ان اعتراضات کا مدلل و مسکت جواب تحریر کیا ہے۔ اردو زبان میں اس موضوع پر متعدد کتابیں لکھی گئی ہیں۔
سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم پر لکھنے والے ان مغربی مصنفین کے یہاں ابتدا میں بہت سی باتیں غلط فہمیوں کی بنا پر زیر بحث آئی ہیں۔ قرونِ مظلمہ میں یورپ کی علمی، تہذیبی اور سیاسی حالت افسوسناک حد تک دگرگوں تھی۔ مسلمانوں کے بارے میں ان کے قائم کردہ خیالات سنی سنائی اور غلط سلط باتوں پر مشتمل تھے۔ نیز ان میں ان کی خودساختہ اور متعصبانہ فکر بھی شامل تھی۔ ان غلط فہمیوں اور معاندانہ طرزِ فکر نے مسلمانوں کے بارے میں یورپ کو صدیوں تک ایک ایسے خلجان میں مبتلا کیے رکھا جس کے اثرات آج بھی مغربی حکمرانوں کے رویوں میں دیکھے جاسکتے ہیں۔ ان غلط فہمیوں کی بنا پر صدیوں تک مسلمانوں اور یورپین حکمرانوں کے درمیان صلیبی جنگیں ہوتی رہیں۔ چنانچہ ستمبر 2001ء میں امریکی صدر بش نے کانگریس کے اجلاس میں اپنی تقریر میں کہا کہ فوج مسلمانوں کے خلاف طویل صلیبی جنگ کے لیے تیار ہوجائے۔ یہودیوں اور عیسائیوں میں مسلمانوں کے خلاف نفرت کے جذبات حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد ہی سے موجود رہے ہیں۔ اہلِ مغرب کو اپنی کم علمی، جہالت اور مذہبی تعصب کے باعث حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ گرامی اور ان کی دعوت و فکر میں بہت سی کوتاہیاں نظر آتی ہیں۔
زیر نظر کتاب میں ان شکوک و شبہات کا مدلل جواب دینے کی کوشش کی گئی ہے۔ فاضل مصنف نے اہلِ مغرب میں سے چند ممتاز اہلِ قلم کے سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق افکار و نظریات پر بحث کرکے ان اعتراضات کے سطحی پن کا پول کھولا ہے۔ کارلائل، منٹگمری واٹ، مائیکل ایچ ہارٹ اور برنارڈلیوس کے ان افکار کا جواب لکھا گیا ہے ، جن کے اثرات پورے یورپ کے اہلِ علم میں سرایت کیے ہوئے ہیں۔ مصنف محترم نے بطور ایک مسلمان اپنے جذباتِ عقیدت کو بھی کتاب میں سمودیا ہے، مگر یہ عقیدت بلادلیل نہیں، ہر بات کا گہری سوچ سے مطالعہ کیا اور پھر حقائق کی روشنی میں غلط کو غلط قرار ہی نہیں دیا بلکہ اسے ثابت بھی کیا۔ ایک محقق کا یہی فرضِ منصبی ہوتا ہے کہ ہر بات کی دلیل پیش کرے‘‘۔
برادر گرامی قدر پروفیسر محمد اکرم طاہر دورِ طالب علمی میں راقم کے ساتھ اسلامی جمعیت طلبہ کے رکن تھے۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد تدریس کے شعبے سے منسلک ہوگئے۔ ذوقِ مطالعہ شروع ہی سے قابلِ رشک تھا۔ ان کے بارے میں کئی بار خیال گزرتا کہ کاش وہ تدریس کے ساتھ ساتھ قلم و قرطاس سے بھی رشتہ جوڑ لیں۔ اللہ نے یہ آرزو پوری کردی اور طاہر صاحب نے حج بیت اللہ کی سعادت حاصل کرنے کے بعد اپنی ایمان افروز رودادِ حج ’’پھر نظر میں پھول مہکے‘‘ لکھ دی۔ ان کی یہ کتاب ادارہ معارف اسلامی نے مارچ 2009ء میں چھاپی۔ اس کا دوسرا ایڈیشن ستمبر 2012ء میں زیورِ طباعت سے آراستہ ہوا۔ اسی زمانے میں اکرم طاہر صاحب نے عزم کا کیاکہ وہ سیرتِ رسولؐ پر مغربی مصنفین کی تحریروں کا جواب لکھیں گے۔‘‘
الحمدللہ موصوف نے اپنے اس مبارک خیال کو عملی جامہ پہنایا اور یہ عمدہ تحقیق وجود میں آگئی۔ اللہ قبول فرمائے۔
کتاب تین حصوں میں منقسم ہے ۔
کتاب سیرت کی لائبریری میں عمدہ اضافہ ہے۔ سفید کاغذ پر طبع ہوئی ہے۔ مجلّد ہے۔ کہیں کہیں اغلاط کی تصحیح ہونے سے رہ گئی ہے۔

نام مجلہ
:
ششماہی تحقیقی مجلہ ’’تحقیق ‘‘ شما رہ 30/29
سرپرستِ اعلیٰ
:
ڈاکٹر عابدہ طاہرانی
وائس چانسلر سندھ یونیورسٹی جام شورو
مدیر
:
ڈاکٹر سید جاوید اقبال
پروفیسر شعبہ اردو اور ڈین فیکلٹی آف آرٹس
صفحات
:
330 قیمت فی شمارہ 450 روپے
ناشر
:
شعبہ اردو، آرٹس فیکلٹی، سندھ یونیورسٹی، علامہ آئی آئی قاضی کیمپس، جامشورو 76080
مجلہ ’’تحقیق‘‘ شعبہ جاتی مجلہ ہے۔ اس کے دوشمارے موصول ہوئے ہیں تحقیق نمبر 29 اور 30۔ شمارہ 29 کے محتویات کے بارے میں ڈاکٹر سید جاوید اقبال تحریر فرماتے ہیں:
’’اس شمارے میں 13 طویل و مختصر مقالات ہیں۔ یہ پہلا موقع ہے کہ ’’تحقیق‘‘ میں افسانے پر بھی مقالات شامل کیے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ بھی کچھ ایسے ہیں جو نئے موضوعات پر ہیں۔ امقالات درج ذیل ہیں:
’’اردو میں افسانہ نگاری: آغاز سے 1936 تک‘‘ ڈاکٹر یاسمین سلطانہ، اسسٹنٹ پروفیسر شعبہ اردو، وفاقی اردو یونیورسٹی، کراچی پاکستان۔ ’’تقسیم اور فسادات کے بعد اردو افسانے کی فضا‘‘ ڈاکٹر سمیرا بشیر، اسسٹنٹ پروفیسر شعبہ اردو، وفاقی اردو یونیورسٹی کراچی پاکستان۔ ’’قیام پاکستان: ردوقبول کا نثری منظرنامہ‘‘ ڈاکٹر صائمہ ناز انصاری، اسسٹنٹ پروفیسر شعبہ اردو جناح یونیورسٹی (برائے خواتین) کراچی پاکستان۔ ’’تقسیم ہند کے بعد احمد ندیم قاسمی کے افسانوں میں سیاسی شعور کے عناصر‘‘ ڈاکٹر تحسین بی بی، اسسٹنٹ پروفیسر شعبہ اردو، ہزارہ یونیورسٹی مانسہرہ پاکستان۔ ’’افسانے میں روحانیت اور مادیت کی کشمکش‘‘ تہمینہ عباس، اسسٹنٹ پروفیسر، جی۔ ڈی۔اے، گوادر پاکستان۔ ’’(قدرت اللہ شہاب، ممتاز مفتی، اشفاق احمد اور بانو قدسیہ کے خصوصی مطالعے کے ساتھ) اردو نظم میں کشمیر 1947ء تک‘‘ سیدہ آمنہ بہار، پی ایچ ڈی اسکالر، شعبہ اردو، قرطبہ یونیورسٹی ، پشاور، پاکستان۔ ’’انگریزی ادب میں مغربیت کا تناظر: جیمز ایل رائے فلے کر پر مشرقی ادب کے اثرات‘‘ ڈاکٹر جاوید احمد خورشید، پی ایچ ڈی اردو، سینئر آڈیٹر فنانس اینڈ اکاؤنٹس ڈپارٹمنٹ، کراچی ڈویلپمنٹ اتھارٹی پاکستان۔ ’’جدیدیت: مباحث و مسائل کا تحقیقی تناظر‘‘ نیاز سواتی، لیکچرر، ڈی ایچ اے پبلک اسکول کراچی پاکستان۔ ’’اردو کا ایک فراموش شدہ شاعر: رنجور عظیم آبادی‘‘ ڈاکٹر تنظیم الفردوس، پروفیسر شعبۂ اردو، کراچی یونیورسٹی کراچی پاکستان۔ ’’عطیہ فیضی کا خاندان‘‘ ڈاکٹر محمد یامین، لیکچرر شعبۂ اردو، گورنمنٹ ڈگری سائنس و کامرس کالج، لیاری، کراچی۔ ’’علامہ قاری محمد طیب قاسمی ؒ کی علمی و ادبی خدمات پر ایک نظر‘‘ قاری محمد لقمان، پی ایچ ڈی اسکالر، شعبہ تقابلِ ادیان، سندھ یونیورسٹی جام شورو سندھ پاکستان۔۔۔ ڈاکٹر ایس ایم سعید، پروفیسر اور سابق صدر شعبۂ تقابلِ ادیان سندھ یونیورسٹی جامشورو۔ ’’رسائل میں بچوں کے منظوم ادب کا اجمالی جائزہ‘‘ کوثر عنایت، پی ایچ ڈی اسکالر، گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور پاکستان۔ ’’سندھ سے شائع ہونے والے بچوں کے اردو ادبی رسائل‘‘ سید طارق حسین رضوی، لیکچرر شعبۂ اردو، شاہ عبداللطیف یونیورسٹی خیرپور سندھ پاکستان۔۔۔ ڈاکٹر سید جاوید اقبال، پروفیسر شعبہ اردو سندھ یونیورسٹی جام شورو پاکستان۔
۔۔۔۔۔۔***۔۔۔۔۔۔
شمارہ 30 کے بارے میں ڈاکٹر سید جاوید اقبال تحریر فرماتے ہیں:
’’تحقیق کا یہ شمارہ دس مقالات پر مشتمل ہے، اس میں کچھ مضامین اداروں سے متعلق ہیں اور چند شخصیات کے حوالے سے۔ ان کے موضوعات نئے بھی ہیں اور پرانے بھی۔ امید ہے قابلِ قبول ہوں گے۔‘‘
اس شماراے میں درج ذیل مقالات شامل ہیں۔
’’انجمن ترقی اردو کا سیاسی، سماجی اور تاریخی پس منظر‘‘ ڈاکٹر محمد رضی راہی، وجیہ الحسن صدیقی۔ ’’انجمن ترقی اردو: شعبۂ خواتین کی خدمات (1952ء۔1961ء)‘‘ ڈاکٹر عائشہ سعید برنی۔ ’’ریڈیو پاکستان کراچی کے مشاعرے‘‘ ڈاکٹر قدسیہ عبدالکریم۔ ’’خانوادہ گولڑہ شریف کی ادبی خدمات‘‘ ڈاکٹر رانا غلام یٰسین۔ ’’اہلِ بلوچستان کی جامعات میں اردو تحقیق‘‘ کرن داؤد بٹ۔ ’’مولانا احمد رضا خاں کی تحریفِ حرفی اور طنز و مزاح‘‘ محمد اصغر۔ ’’ماہ نامہ ’’تہذیب‘‘ میں شامل ڈاکٹر ابواللیث صدیقی کے ادبی اداریے‘‘ ڈاکٹر شیراز زیدی۔ ’’کلاسیکی ادب کا ایک ممتاز محقق: افسر امروہوی‘‘۔ ڈاکٹر فوزیہ پروین۔ ’’نادم سیتا پوری کی علمی و ادبی خدمات‘‘ ڈاکٹر محمد ارشد عثمان۔ ’’اردو ہندی کی وحدت: چند بنیادی نکات‘‘ محمد خاور نوازش۔
مقالہ نگار حضرات کی تفصیل درج ذیل ہے:
ڈاکٹر محمد رضی راہی۔ پروفیسر اور سابق صدر شعبۂ اردو، وفاقی اردو یونیورسٹی، مولوی عبدالحق کیمپس کراچی پاکستان۔
ڈاکٹر عائشہ سعید برنی۔ صدر شعبۂ اردو، جناح یونیورسٹی، برائے خواتین، کراچی پاکستان۔
کرن داؤد بٹ۔ صدر شعبۂ اردو، سردار بہادر خان یونیورسٹی، برائے خواتین، کوئٹہ پاکستان۔
ڈاکٹر رانا غلام یٰسین۔ اسسٹنٹ پروفیسر شعبۂ اردو، غازی یونیورسٹی، ڈیرہ غازی خان پاکستان۔
ڈاکٹر شیراز زیدی۔ اسسٹنٹ پروفیسر شعبۂ اردو، وفاقی اردو یونیورسٹی، عبدالحق کیمپس کراچی پاکستان۔
ڈاکٹر قدسیہ عبدالکریم۔ اسسٹنٹ پروفیسر شعبہ اردو، سرسید گورنمنٹ گرلز کالج کراچی پاکستان۔
ڈاکٹر محمد ارشد عثمان۔ اسسٹنٹ پروفیسر، شعبۂ اردو گورنمنٹ نیشنل کالج کراچی پاکستان۔
ڈاکٹر فوزیہ پروین۔ لیکچرر شعبۂ اردو، بحریہ کالج کارساز، کراچی پاکستان۔
محمد خاور نوازش۔ پی ایچ ڈی اسکالر، شعبۂ اردو بہاء الدین زکریا یونیورسٹی ملتان۔
محمد اصغر۔ ماہرِ مضمون (اردو)، گورنمنٹ ہائر سیکنڈری اسکول، بدھالاسنت ملتان پاکستان۔
وجیہ الحسن صدیقی۔ لیکچرر، شعبۂ اردو، گورنمنٹ ڈگری کالج اینڈ پوسٹ گریجویٹ سینٹر لطیف آباد نمبر 11 حیدرآباد۔
مجلّہ سفید کاغذ پر عمدہ طبع کیا گیا ہے۔
nn